ضمیر آفاقی
گزشتہ کافی عرصہ سے پاکستان کئی طرح کی مسائل میں الجھا ہوا ہے، جن میں بدامنی، دہشت گردی، مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت اور لاقانونیت جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔ نئی حکومت کو ان تمام مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر معاشی میدان کو اپنا پہلا ہدف بنانا ہوگا، کیونکہ ریاست جس کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قوم کو ہلاک کر دینے والی اس طرح کی بیماریوں کے پیدا ہونے سے پہلے ان کی روک تھام کا سدباب کرے۔ یہاں بھی جب ہم اپنے گریبان میں (بہ امر مجبوری) جھانکتے ہیں تو ان بیماریوں کے پھیلاؤ میں اپنا ہی ہاتھ نظر آتا ہے۔ جس کا اعتراف کرنا بھی ہم گوارا نہیں کرتے اور یوں ہم حفظانِ صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی کے جرم کے مرتکب بار بار ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم ایک ایسا معاشرہ بن کر رہ گئے جو مختلف النوع بیماریوں کا شکار ہے اور جس کی کوئی حصہ بھی تندرست نہیں ہے۔ ہم قومی امراض کی تشخیص میں بھی ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتے، جبکہ جدید تحقیق بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہلاکتیں غلط تشخیص کی بنا پر ہی ہوتی ہیں۔
اب یہی دیکھئے اس طرح کی بیماریوں میں جکڑے معاشرے میں کوئی رہنا اور سرمایہ کاری کرنا کیوں پسند کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے لوگ اپنے سرمائے کے ساتھ بھاگ رہے ہیں اور غیرملکی یہاں آ کر سرمایہ کاری کریں، خواب سا بن کر رہ گیا ہے۔ چین کو استثنیٰ دیا جا سکتا ہے کہ اس کی ’’دوستی حکومتی بیانیے کے مطابق ہمالے سے زیادہ مضبوط، سات سمندروں سے گہری ہے‘‘۔ حکومت دنیا بھر خصوصاً عرب ممالک اور چین سے سرمایہ کاروں کو دعوت دیتی ہے، لیکن اسے ملکی مایوس کن صورتِ حال میں سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ برسوں میں غیرملکی سرمایہ کاری میں 26 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ غیرملکی سرمایہ کاری کے حجم کا اگر ہندوستان، چین اور بنگلا دیش جیسے علاقائی ملکوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو یہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ گزشتہ برسوں میں پاکستان میں محض چند ملین ڈالر کی براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری کی گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی سرمایہ کار اس ملک کو سنجیدگی سے لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ عمران خان کو، ملک میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کے لئے کوئی اچھوتا فارمولا پیش کرنا ہوگا، کیونکہ بیرونی سرمایہ کار ہماری پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران دوست ممالک مثلاً سعودی عرب اور چین کی جانب سے کی جانے والی غیرملکی سرمایہ کاری منفی میں رہی۔
ملکی حالات کے پیش نظر جہاں، یہاں سے سرمایہ کْوچ کر رہا ہے وہیں پاکستان سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک ’’خس کم جہاں پاک‘‘ کے مترادف افرادی سرمائے کی ہجرت کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ ’’زرمبادلہ‘‘ میں اضافے کا باعث سمجھ کر اسے ملک کے لئے باعث برکت قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے حالات، مذہبی انتہاپسندوں کے ڈر، امن و امان کی ابتر صورتِ حال کے پیش نظر ’’ہجرت‘‘ کرنے والے کوئی غریب غربا نہیں ہیں، ان میں ایسے صاحبِ زر بھی ہیں جن کے کاروبار کی بدولت بے روزگاری میں کمی اور ملکی معیشت میں بہتری رہی ہے۔ ہجرت کے رجحان کو روکنے میں ماضی میں حکومتی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی اور ارادتاً یا غیرارادی طور پر ان عوامل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی، جو زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو ہر سال ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
مختلف رپورٹس اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بیرون ملک پناہ حاصل کرنے کے خواہشمند زیادہ تر سیاسی طور پر ظلم و ستم کا نشانہ بنائے جانے اور شہری حقوق و آزادیوں سے محروم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس میں مذہب و مسلک کے نام پر نشانہ بنانے، تشدد اور حملوں کا عنصر بھی شامل ہے، جو ہزاروں خاندانوں کو جان کے خطرے کے پیش نظر ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہا ہے جسے حکومت تسلیم نہیں کرتی۔ حال ہی میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق بیرون ملک پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا عالمی رجحان کی روشنی میں ایک تحقیق میں جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ تحقیق اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کی جانب سے کی گئی تھی، جس کا عنوان تھا ’’بیرون ملک پناہ کا رجحان 2014ء: صنعتی ممالک میں اس کی سطح اور رجحانات‘‘ عالمی سطح پر 44 صنعتی ملکوں میں بیرون ملک پناہ کی درخواستوں کی تعداد 2014ء کے دوران بڑھ کر تقریباً 8 لاکھ 66 ہزار ہوگئی۔ ایک سال قبل کی تعداد میں یہ 45 فیصد اضافہ تھا۔ اس کے بعد اس میں اور زیادہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین نے نشاندہی کی تھی کہ گزشتہ برسوں میں صنعتی ملکوں میں بیرون ملک پناہ کی کوششیں کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد کے لحاظ سے شام، عراق، افغانستان، سربیا اور اریٹیریا کے بعد پاکستان چھٹا بڑا ملک تھا۔ یہ کوئی رشک کے قابل مقام نہیں ہے۔ گزشتہ برسوں میں لگ بھگ چھبیس ہزار سے زائد پاکستانیوں نے بیرون ملک پناہ کے لئے درخواستیں دی تھیں اور یہ اب تک کی سب سے زیادہ تعداد تھی جبکہ قبل ازیں پچیس ہزار دو سو درخواستیں دی گئی تھیں، چنانچہ اس تعداد میں ایک سال کے دوران چار فیصد تک کا اضافہ ہوا۔ کچھ دن جاتے ہیں آسٹریلیا کی حکومت نے پاکستانی اخبارات میں ایک اشتہار کے ذریعے بیرون ملک پناہ حاصل کرنے والوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ ان کے ملک میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔ اسی طرح سری لنکا نے پاکستانی مسافروں کو ایئرپورٹ پر وزٹ ویزا کی سہولت کی فراہمی ختم کردی تھی۔ بیرون ممالک ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہونے والے المناک المیوں کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ فلاں ملک کی سرحد پار کرتے ہوئے اتنے افراد بارڈر فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن گئے یا کشتی ڈوبنے سے ہونے والی ہلاکتوں نے تو کچھ عرصہ پیشتر دل ہلا دیئے تھے۔ اس پر کچھ دن ملکی میڈیا میں لے دے ہوتی رہی پھر قبرستان جیسی خاموشی۔۔۔ حکومت کو سچ کا سامنا کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے اور ان اسباب کو ختم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے، جن کی بنا پر یہاں سے سرمایہ اور سرمائے سے بھی زیادہ قیمتی لوگ ہجرت پر مجبور ہورہے ہیں۔
آنے والی نئی حکومت سے پاکستانیوں کی بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ ان کی امیدوں کو پورا کرنا اور انہیں پاکستان کے اندر روزگار کے مواقع مہیا کرنا اس کے لئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے کے لئے ملکی پالیسیوں میں تبدیلی کے ساتھ توانائی کے بحران پر قابو پانے اور امن و امان کے مسئلے کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سیاحت کی صنعت پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم صرف سیاحت کے شعبے کو ہی بہتر کرلیں اور غیرملکی سیاحوں کے لئے بہتر ماحول پیدا کرسکیں تو ہمیں کمر توڑتے قرضوں سے نجات مل سکتی ہے۔ ملک میں سیاحتی صنعت کی ناکامی پر آئندہ کسی کالم میں تفصیل کے ساتھ بحث کی جائے گی، تاکہ ہم جان سکیں کہ سیاحت ہماری معاشی صورتِ حال کو بہتر کرنے میں کس طرح معاون ہوسکتی ہے۔