نصرت مرزا
کراچی میں پہلے ہی اضطراب کی سطح بڑھی ہوئی تھی اور اب تو یہ اضطراب خطرے کے نشان کو چھو رہا ہے کیونکہ سندھ کو عملاً ایک لسانی صوبہ بنا دیا گیا ہے
کراچی میں پہلے ہی اضطراب کی سطح بڑھی ہوئی تھی اور اب تو یہ اضطراب خطرے کے نشان کو چھو رہا ہے کیونکہ سندھ کو عملاً ایک لسانی صوبہ بنا دیا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کوٹہ سسٹم نفاذ کرکے اور یہ کہ سندھ کا وزیراعلیٰ کوئی غیرسندھی نہیں ہوسکتا کو نافذ کرکے دراصل پاکستان کے نظریہ کی نفی کی تھی، اس سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ سندھ نے مہاجروں کو اپنے بانہوں میں انصارِ مدینہ کی طرح لے لیا تھا، پہلے روز سے سندھ کے حکمران وڈیروں نے مہاجر اور سندھیوں کو علیحدہ رکھنے کی بنیاد ڈومیسائل فارم میں رکھ دی تھی اور پھر پورے انڈیا جہاں سے تقسیم ہند کے بعد صوبوں سے آئے ہوئے مسلم لیگیوں کو سندھ مسلم لیگ میں جگہ نہیں دی تھی، ڈومیسائل فارم میں مہاجروں کے والد اور دادا تک کی یومِ پیدائش تحریر کروائی گئی تھی کہ وقت ِضرورت استعمال کی جاسکے اور یہ معلوم ہوسکے کہ وہ کہاں سے آئے تھے اور مسلم لیگیوں کو سندھ مسلم لیگ میں جگہ نہ دینا محمد ایوب کھوڑو کی متعصبانہ سوچ کا عملی مظاہرہ تھی، اس کے بعد محمد ایوب کھوڑو نے قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی حکم عدولی اس طرح کی کہ انہوں نے پاکستان کا دارالحکومت بنانے کے لئے جو عمارتیں درکار تھیں وہ انہوں نے دینے سے انکار کردیا، جس کا اظہار اُن کی صاحبزادی حمیدہ کھوڑو نے فخریہ انداز میں کیا ہے، جس پر ایوب کھوڑو کو چھٹی پر جانے کو کہا گیا تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ مجھے ایوب کھوڑو سے سید انور عادل صاحب کے ذریعے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ سید انور عادل آئی ایس ایس افسر تھے، وہ پاکستان آئے تو انہوں نے ایوب کھوڑو کی بہن محترمہ کلثوم صاحبہ سے شادی کرلی تھی، سید انور عادل اور محترمہ کلثوم صاحبہ میری شادی میں حیدرآباد میں شریک ہوئے تھے، اس کے بعد پیر الٰہی بخش جو پیر مظہر الحق کے والد محترم تھے اُن کو سندھ کا وزیراعلیٰ بنا دیا، وہ قدرے کھلے دل کے مالک تھے اور انہوں نے مہاجرین کی آبادکاری میں دلچسپی لی اور پیر الٰہی بخش کالونی بنائی اور مرکزی حکومت کو جو عمارتیں درکار تھیں وہ دیدی گئیں۔ مجھے احمد علی خان ایڈیٹر ”ڈان“ نے بتایا کہ جب قائداعظم محمد علی جناح کو بتایا گیا کہ وڈیرے کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تو انہوں نے ”ڈان“ کے اس وقت کے ایڈیٹر الطاف صاحب کو بتایا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے اس مسئلے کو آنے والی مسلم لیگی قیادت طے کرے گی۔ واضح رہے کہ احمد علی خان اس وقت کوئٹہ میں ”ڈان“ کے بیورو چیف تھے۔ پھر اندرون خانہ سندھی اور مہاجر کشمکش چل رہی تھی اُس کے مراکز سندھ یونیورسٹی اور ریڈیو پاکستان حیدرآباد تھے جہاں پر سندھی دانشور قدم قدم پر مزاحمت کررہے تھے، اُردو اساتذہ کرام کو مار پیٹ کرتے تھے اور ریڈیو پاکستان میں اُردو دانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی، یہ بات میرے ذاتی علم میں ہے، اس کے بعد جی ایم سید کھل کر سامنے آ گئے اور انہوں نے 60 کی دہائی میں لکھی کہ پاکستان کو اب ٹوٹ جانا چاہئے، اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے یہ مشن اپنے ذمہ لے لیا اور جی ایم سید سے کہا گر میں جو کچھ کرنے جارہا ہوں جو آپ سوچ بھی نہیں سکتے، چنانچہ سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے لے کر جئے سندھ کی بنیاد ڈالی اور سندھی ازم کو پروان چڑھایا، اس سے پہلے سن میں جی ایم سید نے 1966ء میں صوفیائے کرام کی ایک کانفرنس بلائی، جس میں سندھ کے تمام سیاسی لیڈران نے شرکت کی اور یہ طے پایا کہ سندھیوں کو مہاجروں سے نوکریوں میں اور پنجابیوں سے زرعی زمینوں اور پٹھانوں سے ٹرانسپورٹ اور ٹھیکوں میں خطرہ ہے، اس دورانیہ میں 1976ء میں قاضی محمد اکبر کی جو سندھ کے پہلے وزیر تعلیم تھے اور جنہوں نے 1946ء کے الیکشن میں جی ایم سید کو علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا کی مددسے شکست دی تھی، علی گڑھ کے طلبا نے مسلمان ووٹروں کی تربیت کی، میرے دوست بن گئے تھے، میں اُن کو پاکستان کا وزیر بنانا چاہتا تھا اور صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے منجھلے صاحبزادے اختر ایوب سے ہری پور میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران میری یاد اللہ ہوگئی تھی اور تقریباً بات طے ہوگئی تھی کہ قاضی محمد اکبر صاحب مرکز میں وزیر بن جائیں، ایوب بیمار پڑ گئے اور قاضی محمد اکبر جو قاضی عابد کے بڑے بھائی تھے وزیر نہ بن سکے، البتہ جنہوں نے مجھ سے کہا کہ اگرچہ ہمیں مہاجروں سے کافی تکلیف ہوئی ہے مگر ایک بات تسلیم کرتا ہوں کہ سندھ تعلیم میں بہت پسماندہ تھا اور ہم نے 20 برسوں میں تعلیم کے میدان میں مہاجروں کی مدد سے جو جہت لگائی ہے وہ سندھ کے لوگ 200 سال میں بھی نہیں لگا سکتے، میرے جذبے اور ولولہ بھرے رسائی اور قوت فیصلہ اور سیاسی بوجھ کے قائل کے ساتھ ساتھ انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ وہ سندھ کو بالائی اور زیریں سندھ کی بنیاد پر تقسیم کرا دیں گے، میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بالائی سندھ کے وڈیرے یعنی لاڑکانہ سے لے کر نواب شاہ تک زیریں سندھ کے سیاستدانوں جو حیدرآباد سے میرپورخاص، ہالا، بدین کے رہنے والے لوگ اُن کو وزیراعلیٰ نہیں بننے دیتے، میں تقسیم بہت پہلے کرانے کی صلاحیت رکھتا تھا مگر پھر ایم کیو ایم کی آمد کے بعد میں اس سے تائب ہوا کہ لسانی بنیاد پر صوبہ نہیں بننا چاہئے، اس سے پاکستان کی اساس پر ضرب پڑے گی اور ایم کیو ایم کے تعلیم اور سیاست سے نابلد اور اسلحہ کے زور پر سیاست کرنے والوں کے ہاتھوں میں صوبہ نہیں دے سکتا تھا اور بعد میں ثابت ہوا کہ وہ ایک عالمی سازش کے تحت کراچی اور پاکستان کی ترقی کو روکنے کے لئے ایم کیو ایم کو بنایا گیا تھا، اس میں برطانیہ کی ایم آئی 6 پھر بھارت کی ”را“، موساد اور سی آئی اے سب شامل تھے اور تقسیم ہند کا بدلہ مہاجروں سے لینا چاہتے تھے، اُن کی نسلوں کو ان پڑھ جاہل اور اُن کی تہذیب و تمدن کو ختم کرنے کے در پے تھے اور مسلمانوں کے نشاۃ ثانیہ کے خواب کو توڑنا چاہتے تھے سو انہوں نے کردیا۔ اس میں خود مہاجروں کی اپنی بڑی غلطی ہے اور اُن کو اتنی بڑی سزا خود اُن کے نام نہاد لیڈر سے دلوائی گئی جو کوئی سندھی، وڈیرہ یا کوئی اور اُن کو نہیں دے سکتا تھا۔ یہ سزا کا عمل کب تک چلے گا معلوم نہیں، اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جب تک اس کا فہم و ادراک نہ ہو یہ سلسلہ جاری رہے گا اور آپ کے لیڈرز اس سطح کے ہوں جو ایم کیو ایم کی کسی شکل میں رہیں گے تو عرصہ طویل سے طویل ہوتا چلا جائے گا۔ یہ مصرع صادق آتا ہے کہ ”لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی“۔
پاکستانی فوج اور سندھ رینجرز کی مدد سے الطاف حسین کا قصہ تمام کردیا گیا مگر اُس کے اثرات اب بھی باقی ہیں تاہم مہاجروں کو اُن کا حق دلانے سے اُن کے ناانصافی کو ختم کرنے کی کوئی سبیل ہوتی نظر نہیں آئی، یہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک مہاجر خود اپنے ساتھ مخلص نہ ہوں اور یہ نہ سمجھ لیں کہ کم از کم اس قابل بنیں کہ وہ سندھ کے زیرک استحصالی کا مقابلہ کرسکیں اور اپنے بزرگوں سے رجوع کریں جس سے الطاف حسین نے ناطہ توڑا تھا۔ اس میں ان کی خدمت میں علامہ اقبال کا یہ شعر پیش کرتا ہوں کہ
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی
اب سندھ کے وڈیروں نے اپنی اکثریت کی بنیاد سندھ جہاں کوٹہ سسٹم کے ذریعے مسلط کردیا ہے اور کراچی میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اُن کے ساتھ انتہائی درجہ امتیاز ہوتا جارہا ہے تو گلی کوچوں سے آہ و بکا اٹھ رہی ہے۔ ہر شخص مضطرب ہے اس میں پنجابی، پٹھان بھی شامل ہیں۔ دکھاوے کے لئے ان وڈیروں نے چند مہاجروں، پٹھانوں اور پنجابیوں کو ساتھ ملایا ہوا ہے اور لوٹ مار اور ظلم و ستم کا بازار مزید گرما دیا ہے۔ یاد رہے کہ انہوں نے دیکھ لیا کہ جب مہاجروں کو الطاف حسین قابو کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔ اِس نے تو نظام پلٹ کر رکھ دیا تھا، دانشوروں کو نیچے بیٹھاتا تھا اور کمتر درجے کے مہاجر اُن کی قیادت کرتے تھے۔ اس نے مسلمانوں کی عظیم قیادت لیاقت علی خان، محمد علی جوہر، مولانا شوکت، حسرت موہانی اور دیگر زعمائے کرام کے تصاویر پر کالک مل کر حیدرآباد میں حیدر چوک پر لگا دی تھیں، جس سے بھارت کے ہندو و انگریز ضرور خوش ہوئے ہوں گے کہ کہ ہم آپ کی نسلوں تک سے بدلہ لے سکتے ہیں اور زعمائے کرام کو رسوا کرسکتے ہیں۔
اب آخر میں سندھ کے وڈیروں نے شہری اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں اور مہاجروں کو ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے، ملک کے ادارے اُن کا ساتھ اِس خوف میں دے رہے ہیں کہ پھر سے الطاف حسین جیسی طاقت نہ پیدا ہوجائے۔ اب کراچی کے نوجوانوں کو پینڈا سروس، چھوٹی موٹی نوکریوں کے علاوہ کچھ نہیں مل رہا ہے، کراچی کے صنعت کاروں اور تاجروں کو دل کھول کر لوٹا جارہا ہے، رشوت ستانی، کرپشن، بدعنوانی کا دور دورا ہے، تعلیم کے میدان میں کراچی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ کراچی کے بنائے ہوئے تعلیمی ادارے، اسپتال اور یونیورسٹیاں سب پر ان لٹیرے وڈیروں نے قبضہ کرلیا ہے۔ نوکریوں کے دروازے بند ہیں، کوئی شنوائی نہیں ہے، کراچی کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ اب ان سے پوچھیں کہ آپ کون لوگ ہیں، ایک تو سید حضرات ہیں اور اگر اصل سید ہیں تو اُن میں انصاف کی کوئی رمق تو موجود ہونا چاہئے، رسول اکرمؐ کی تعلیمات کی کوئی نشانی تو ان میں نظر آنی چاہئے، ان پر یہ شعر صادق آتا ہے:
میں کونہوں، کیا ہوں، بخدا معلوم نہیں
اپنے اسلاف کی کوئی ادا یاد نہیں
دوسرے بلوچ ہیں جو سندھ کے باسی نہیں ہیں، دونوں ہارے سندھ میں پناہ لینے کے لئے آئے تھے، سید حضرات اگر واقعی سید ہیں اور صرف جمعہ کے دن کی پیداوار نہیں ہیں تو حجاج بن یوسف کے خوف اور علم سے اور بلوچ سردار لوٹنے کے لئے اور عام سندھ میں آئے تھے اور اصل سندھی سے آج بھی ظلم و ستم کا شکار ہے، وہ ان کی رعایا ہے، میں نے سندھ بھر کا دورہ کئی مرتبہ کیا ہے، میں نے ان کی حالت دیکھی ہے بہت ہی خراب ہے اور اُن کو مدد کی بہت ضرورت ہے اور پاکستان بننے کے ثمرات اُن کو بھی ملنا چاہئے جو کراچی کے لوگ اگر جدوجہد کریں تو نہ صرف اپنے اضطراب کو ختم کرسکتے ہیں بلکہ اپنے اصل سندھی بھائیوں کی مدد کرکے اُن کو وڈیروں کے ظلم و ستم سے نکال سکتے ہیں مگر اس کے لئے دیدۂ بینا چاہئے، جو مہاجروں میں ناپید ہے، وہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان بنانے کے کیا مقاصد تھے، وہ بھول گئے ہیں کہ ان کے آباؤاجداد نے کن مقاصد کے لئے قربانیاں دی تھیں۔ اس میں مشرقی پنجاب سے مہاجر بھی نوحہ کناں ہیں وہ اگرچہ کم مشکل کا شکار ہوئے۔ آخر میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں مذاکرات کریں، الطاف حسین کے طرز عمل کو چھوڑیں وہ ایک دشمن اور شیطانی عمل تھا اور دانشمندی کو اپنائیں اور رحمانی طرزِ عمل کو بڑھائیں، اس ظلم و ستم اور عصبیت کا مقابلہ کرنا کوئی بُری بات نہیں، ایک ہی جھٹکے میں ظلم و ستم کے بازار کو اُن کی جرأت کی ہوا اڑا کر رکھ دے گی۔ اضطراب کم ہوجائے گا، اس کے لئے شرط ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلیں، اسلام، پاکستان، فوج اور اداروں کو اپنا سمجھیں۔ بقول شاعر:
کوئی تدبیر کرو، وقت کو روکو، یارو
صبح دیکھی ہی نہیں، شام ہوا جاتی ہے