Monday, July 14, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

قومی سلامتی کو لاحق خطرات اور ہمارے مدافعتی اقدامات

جنرل مرزا اسلم بیگ

پاکستان کے خلاف امریکا، بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کی سازشیں ایک عرصے سے جاری ہیں جس کا سدباب پاکستان اپنی سفارتی اور سیاسی حکمت عملی سے کرتا رہا ہے، مثلاً 1990ء میں یہی گٹھ جوڑ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو کمزور کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا جس کے لئے فضائی حملے کر کے ہماری تنصیبات کو تباہ کرنا مقصود تھا۔ ہماری انٹیلی جنس نے جب اس سازش کی تصدیق کردی تو اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک مضبوط اور مدبرانہ فیصلہ کر کے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ انہوں نے اپنے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کو دہلی بھیجا اور پیغام دیا کہ پاکستان اس سازش کے خلاف انتہائی حد تک جانے پر تیار ہے اور ساتھ ہی پاکستان ایئرفورس کو حکم دیا کہ ایف-16 طیاروں کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر کے بھارت کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کرنے کے لئے تیار رکھا جائے۔ امریکا نے جب یہ نقل و حرکت دیکھی تو فوراً اپنے سفارتکار رابرٹ گیٹس کو پاکستان بھیجا جنہیں ہماری حکومت نے واضح طریقے سے سمجھا دیا کہ ’’خواہ اس سازش میں کوئی بھی شامل ہو، ہمارا ہدف بھارت کی ایٹمی تنصیبات ہیں۔‘‘ اس طرح یہ سازش ناکام ہوگئی لیکن آج جو سازشیں ہورہی ہیں وہ 1990ء کی سازش سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اس لئے کہ ہمارے دشمنوں کا ہدف ہماری نظریاتی اساس ہے جسے ایک حد تک وہ کمزور کر چکا ہے اور کشمیر اور افغانستان میں آزادی کی تحریکوں کو طاقت کے بل بوتے پر ختم کرکے ہماری ملکی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کے ہاتھوں بھارت کو ہائی ٹچ ہتھیار اور جنگی سازوسامان مہیا کر رہا ہے تاکہ بھارت جنوبی ایشیا کے علاقے میں اسی طرح بالادستی قائم کر لے جس طرح اسرائیل نے مشرق وسطی میں اپنی بالادستی قائم کر رکھی ہے۔ یاد رہے کہ امریکی عسکری ٹیکنالوجی دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی ہے جس کے جواب میں ہمیں نئی تدبیریں اختیار کرنا ضروری ہوگیا ہے۔
یہ گٹھ جوڑ افغانستان میں امریکا کی شرمناک شکست کی باز گشت ہے۔ اس کے ردعمل میں اب ضروری ہوگیا ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان، امریکا کو افغانستان سے نکل جانے کا راستہ دکھائے، اس لئے کہ افغانستان امریکا کی کالونی نہیں ہے۔ افغانوں کو آزادی کا حق ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا کہ افغانستان کے عوام اپنی مرضی سے نظام حکومت قائم کریں اور ملک میں امن قائم ہو۔ افغان طالبان نے انہی شرائط پر بات کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اب پاکستان کو افغانستان کی آزادی کے حق میں آواز اٹھانا اور ہرممکن مدد کرنا فرض بنتا ہے۔ ہماری افرادی قوت، ہمارے قبائلی اور ہماری پیادہ فوج، بھارت کے خلاف اور افغانستان میں قابض فوجوں کے خلاف ایک موثر قوت ثابت ہوئی ہیں جو دنیا کی ہر ٹیکنالوجی کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ درحقیقت ہمیں ایران جیسا حوصلہ اور ہمت اپنانے کی ضرورت ہے کہ جس طرح پچھلے 38 سالوں میں ایران پر ہر طرح کا ظلم، زیادتی اور دباؤ قائم رکھا گیا لیکن ایران نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور آج اس کی تذویراتی قوت ایران سے شام، عراق، بحرین، لبنان اور یمن سے آگے پاکستان کی سرزمین تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس خوف سے امریکا نے اسرائیل کو ایران کے پیچھے لگا دیا ہے جس طرح بھارت کو پاکستان کے خلاف شہ دی ہوئی ہے۔
کشمیر کی جنگ آزادی اب ایک مضبوط انقلابی قوت بن چکی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے پڑوس میں افغانستان کی جہادی قوت ہے، جس نے ہر بڑی طاقت کو شکست دی ہے۔ ایران ایک انقلابی قوت ہے۔ اس طرح ہمارے تینوں اطراف میں بڑی مضبوط قوتیں برسرپیکار ہیں اور درمیان میں ایٹمی پاکستان ہے، جسے ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے ایشیا کے قلب (ہارٹ آف ایشیاء) کا نام دیا تھا، اس مرکزی قوت کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ سیکولر اور لبرل ازم کا پرچار ہو رہا ہے، جس کے سبب، مشعال کے قتل کے مقدمے کے حوالے سے عدالت کے فیصلے پر ردعمل سے ایک خطرناک صورتِ حال پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ اس صورتِ حال کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور تدبر کے ساتھ سنبھالنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس خطرناک صورتِ حال سے بچ سکیں جو 1965-66ء میں انڈونیشیا میں خانہ جنگی کی صورت میں رونما ہوئی تھی۔
اس وقت افغانستان میں امریکا کو جن حالات کا سامنا ہے وہ قابل رحم ہے۔ طالبان کے تابڑتوڑ حملوں نے امریکا کو حواس باختہ کردیا ہے۔ اسے خوف ہے کہ اگر افغانستان سے نکل گیا تو وہاں اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی جبکہ امریکی صدر نے شکست کا اعتراف کرلیا ہے کہ افغانستان کے 70 فیصد علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے اور اس کے باوجود امریکا اور اس کے اتحادی شکست کھانے کے بعد بھی وہاں سے نکلنے پر تیار نہیں ہیں۔ سازشیں ہورہی ہیں کہ کس طرح طالبان کو کمزور کرکے امریکی بالادستی قائم رکھی جائے۔ جس طرح امریکا کو افغانستان میں اسلامی حکومت منظور نہیں ہے، اسی طرح پاکستان میں اسے اسلامی جمہوری حکومت منظور نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کو لبرل اور سیکولر بناکر وہاں بھارت کی بالادستی قائم کی گئی ہے اسی طرح امریکا کی یہ کھلی پالیسی ہے کہ پاکستان کو لبرل اور سیکولر بنا کر اسلامی نظام کے نفاذ کی تمام کوششوں کو دبا دیا جائے۔ لہٰذا امریکا اپنی اس کوشش میں ایک حد تک کامیاب بھی ہے کہ پاکستانی قوم کی سوچ اور نظریات کو تبدیل کردے۔ اس مقصد کے لئے امریکا نے 2007ء میں 1.5 ارب ڈالر مختص کئے تھے۔ یہ رقم سیاسی جماعتوں، دانشوروں، اداروں، این جی اوز اور میڈیا کے لوگوں میں تقسیم کی گئی اور اب ایسے دانشور موجود ہیں جو کھلم کھلا یہ کہتے ہیں کہ دین اور سیاست کو الگ کردو، تاکہ پاکستانی قوم کی سوچ کو امریکی مفادات کے مطابق تبدیل کیا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی پالیسی سازوں کی سوچ بھی ایک حد تک لبرل اور سیکولر ہوچکی ہے۔ اس کا اظہار سیاسی جماعتوں کے نظریات سے ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور قوم پرست جماعتیں لبرل ہیں، لیکن اب توجہ کا مرکز پنجاب ہے، جہاں نظریہ پاکستان کی بات کرنے والی مسلم لیگ کو کسی طرح گرانے کی تیاریاں ہیں، کیونکہ الیکشن کے نتیجے میں حکومت مسلم لیگ کی ہی بنے گی۔ لہٰذا کوشش ہے کہ نظریاتی رخ تبدیل کرنے کے لئے کوئی طویل المدت ٹیکنو کریٹ نگراں حکومت بنے یا فوج اقتدار پر قبضہ کرلے۔ پاکستان میں بھی بنگلہ دیش طرز کا فارمولا اپنانے کی یہی سازش کی جارہی ہے جو کھل کر سامنے آگئی ہے، جسے ناکام بنانا ہر محب وطن پاکستانی کا فرض ہے۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے پاکستان کی سیاست کو یرغمال بنا لیا ہے اور سیاست کو شعبدہ بازی میں تبدیل کردیا ہے، جس میں دشنام طرازی اور الزام تراشی کے علاوہ اصلاح و فلاح کی باتیں کم سننے میں آتی ہیں۔
انتخابات میں چند ماہ رہ گئے ہیں لیکن کوشش ہے کہ کسی طریقے سے کوئی غیرجمہوری حکومت قائم ہوجائے۔ لیکن وہ بھول گئے ہیں کہ ہمارا آئین یہ تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان کا نظام حکومت جمہوری ہوگا اور اس کی بنیادیں قران و سنت کی رہنمائی اور اصولوں کے تحت طے کی جانا لازم ہے۔ لیکن اس کے برعکس ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جن کے نتیجے میں ہمارے بچوں کو ان کے اسکولوں میں دین کی تعلیم دی ہی نہیں جاتی۔ قانون سازی میں ختم نبوت کے حساس معاملات سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے اور ہماری دینی جماعتوں کے انتشار کے سبب ہماری نظریاتی بنیادیں کمزور ہو رہی ہیں، نظریہ پاکستان کی نفی ہو رہی ہے اور قوم کا مقصد حیات تحلیل ہورہا ہے جو اچھا شگون نہیں ہے۔

مطلقہ خبریں