Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

قومی سلامتی پالیسی 2022-26ء

دفاعی، داخلی، خارجہ اور معاشی تحفظ کے لحاظ سے اہم سنگ میل
قادر خان یوسف زئی
انڈوپیسیفک اسٹرٹیجک پارٹنر امریکا اور بھارت جنوبی ایشیائی خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر اپنے مفادات کے لئے پالیسیاں ترتیب دیتے رہے ہیں تو دوسری جانب افغانستان کے پڑوسی ممالک بھی حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس امر کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے کہ قومی سلامتی پالیسی کو جدید تقاضوں کے مطابق ازسرنو مرتب کرکے مملکت کو داخلی و خارجی خطرات سے بچانے کی متفقہ حکمت عملی اپنائی جائے۔ قومی سلامتی کونسل (این سی سی) اور کابینہ کمیٹی برائے نیشنل سیکیورٹی نے قومی سلامتی پالیسی 2022-26ء کی منظوری دی ہے اور ایک جامع پالیسی سینیٹ میں قائمہ کمیٹی برائے دفاع میں منظور کے لئے پیش کی جا چکی ہے۔
قومی سلامتی پالیسی کے حوالے سے حکومت نے 100 صفحات میں سے 50 غیرمخفی صفحات کے خدوخال جاری کئے ہیں۔ خیال رہے کہ مملکت میں پالیسی ساز ادارے مختلف ادوار میں کمیٹیاں تشکیل دیتے رہے ہیں، جن میں ڈیفنس کمیٹی آف کیبنٹ (ڈی سی سی) جو اب کیبنٹ کمیٹی آن نیشنل سیکورٹی کے نام سے موجود ہے اور قومی سلامتی کے امور پر فیصلے کرتی ہے۔ اس سے قبل ملکی سلامتی کے حوالے سے 2014ء میں قومی داخلہ سلامتی پالیسی، 2015ء میں قومی ایکشن پلان جبکہ 2018ء میں قومی ایکشن پلان دوئم 2018-23ء بھی منظور کئے گئے تھے۔ قومی سلامتی کونسل (این سی سی) کے بعد کابینہ برائے قومی سلامتی نے بھی قومی سلامتی پالیسی 2022-26ء کی منظوری دی، اس پالیسی پر مکمل عمل درآمد کے لئے سالانہ بنیادوں پر ردوبدل اور وزیراعظم نے ماہانہ بنیادوں پر رپورٹ دینے کی بھی ہدایت کی ہے تاکہ پیش رفت کا جائزہ لیا جاسکے نیز آنے والی کوئی بھی حکومت اسے جاری بھی رکھے گی۔
مملکت کے لئے خطے میں تبدیل شدہ صورتِ حال کے تحت مربوط طریقہ اپنانا ناگزیر ہوچکا ہے۔ متفقہ قومی سلامتی پالیسی پر عمل درآمد میں مزید تاخیر ملکی مفاد کے لئے نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔ خطے میں اس وقت صورتِ حال تبدیل ہوئی جب امریکی کوشش کے باوجود بھارت دوحہ مذاکرات میں شامل نہ ہوسکا تھا، اسی طرح امریکی حاشیہ بردار غنی انتظامیہ بھی سائیڈلائن رہی اور بین الافغان مذاکرات کے مرحلے پر ہی محدود مینڈیٹ دیا گیا، سپر پاور امریکا اور دوسری جانب افغان طالبان نے دوحہ مفاہمتی معاہدے کو تکمیل تک پہنچایا اور چند ممالک نے اس معاہدے کی رسمی ضمانت دی، اس مرحلے پر غنی انتظامیہ نے مودی سرکار کے ساتھ مل کر حالات کو بہتر بنانے کے بجائے بگاڑنے میں زیادہ توجہ دی۔ پاکستان کا یہ سمجھنا حقیقت ہے کہ کابل میں افراتفری سے بھارت کے ان منصوبوں (سازشوں) کو فائدہ پہنچے گا، جس کے لئے مودی سرکار نے سرمایہ کاری کی تھی۔ دوسری جانب امریکا اپنے مفادات کے لئے ایک ایسی ہمہ جہت پالیسی رکھتا ہے جس میں دوستی کے معیار بھی وہ خود طے کرتا ہے۔ بھارت کو خطے میں بالادستی کی پالیسی کے تحت چین کے مقابل کھڑا کرنے کا عالمی منصوبہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ امریکا کا عظیم مشرق وسطیٰ سے نکلنا بذات خود معنی خیز ہے۔ امریکی پالیسی ظاہر کرتی ہے کہ جغرافیائی سیاست کا غیرمنقولہ حصہ جہاں ہے وہیں رہنا چاہے تاہم اس کے اثر نفوذ کو وائٹ ہاؤس یا پینٹاگون کی پالیسی کے بغیر متاثر کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں، جب تک امریکا خود نہ چاہے۔ افغانستان میں قبل از وقت اقتدار کی تبدیلی امریکا کے ساتھ ساتھ بھارت کے لئے بھی ایک غیرمتوقع دھچکا ثابت ہوا، وہ بھی اس صورت میں کہ افغان طالبان سے بھارت کے تعلقات سازگار نہیں رہے تھے اور جس طرح انہیں اپنے سفارت خانوں کو خالی کرکے نکلنا پڑا، اس سے مودی سرکار کی پالیسیاں دھری کی دھری رہ گئیں اور اس دھچکے سے نکلنے کے لئے انہیں اب ماضی کی طرح (سابق) انٹیلی جنس سروس، نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی (این ڈی ایس) کے ساتھ تعاون نہیں مل سکے گا جس کے ذریعے وہ پاکستان مخالف کارروائیاں بڑھا سکے۔
افغان طالبان نے روس اور ایران کے لئے اپنے سفارتی اور ممکنہ کئی گنجلگ راستے کھول دیئے ہیں، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امارات ِاسلامیہ کے ایک وفد نے ایران میں پناہ حاصل کرنے والے افغان طالبان مخالف مسلح مزاحمتی گروپ کے احمد مسعود اور اسماعیل خان سے ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق عبوری انتظامیہ کے وزیرخارجہ امیر خان متقی نے ملاقات کی تھی نیز اس کے علاوہ ایرانی وزیرخارجہ حسین امیر عبدالہیان سے بھی ملاقات ہوئی۔ افغان طالبان نے پنج شیر سے تعلق رکھنے والے مزاحمتی اتحاد کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور انہیں واپس افغانستان آنے اور مکمل تحفظ کی یقین دہانی بھی کرائی۔ یہ بڑی اہم پیش رفت ہے گو کہ احمد مسعود، محمد اسماعیل یا اشرف غنی سمیت شدید مخالفین واپس نہیں آئیں گے لیکن یہ امر پاکستان اور افغانستان کے لئے خوش اائند اس حوالے سے بھی ہے کہ بھارت نواز گروپ اسلحے، پیسے اور محفوظ پناہ گاہوں سے دوبارہ سر اٹھانے میں کھلا اثرورسوخ استعمال نہیں کرسکیں گے۔ بھارت کے لئے افغان حکومت کی تبدیلی اس لئے بھی بڑا دھچکا ثابت ہوا کیوکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ افغان حکومت کے تعلقات اب چین کے ساتھ بھی بہتر ہوتے جارہے ہیں، جس سے بھارت ہی نہیں بلکہ امریکا کو بھی تحفظات ہیں۔ اس طرح امریکی مفادات کو بھی دھچکا لگا کہ افغان طالبان، ایران اور روس جیسے امریکا مخالف ممالک کے کافی قریب ہوتے جارہے ہیں اور معاشی قدغن لگا کر جو مقاصد امریکا حاصل کرنا چاہتا ہے اسے حاصل نہیں کر پا رہا۔ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے اور کئی اہم پروجیکٹ پر کام مکمل ہونے کے بعد پروگرام کے مطابق اائی بی آر پر کام جاری ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ بیجنگ نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے حصے کے طور پر وسطی ایشیا، ایران اور پاکستان میں کافی سرمایہ کاری کی اور اب اس کا ہدف افغانستان کو بھی اس میں شامل کرنا ہے لیکن اس کے لئے حالات کے بہتر ہونے کا منتظر بھی ہے کیونکہ افغان طالبان انتظامیہ کی جانب سے ماضی میں اختیار کئے گئے ایسے اقدامات دوبارہ سامنے آنے لگے ہیں جس سے پاکستان، چین اور افغانستان میں کسی نئے تنازع میں شامل ہونے سے گریز کرے گا۔ خیال رہے کہ افغانستان میں موجود ایک ٹریلین معدنیات دُنیا کے لئے ایک پُرکشش اہمیت کی حامل ہیں، جس کو کوئی بھی ملک حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ذرائع کے مطابق چین 2009ء سے افغان کان کنی کے شعبے میں کام کررہا ہے اور اب تک 0.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کر چکا ہے، جس میں کان کنی مواصلات اور سڑک مواصلات کے شعبے میں 630 ملین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری شامل ہے۔ توجہ طلب پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت نے افغانستان میں سرمایہ کاری اور تجارت میں چین سے کہیں زیادہ کام کیا ہے۔ اس نے سڑکیں، ڈیم، بجلی کی ترسیلی لائن، سب اسٹیشن، اسکول، اسپتال اور انسانی وسائل و تربیت پر کافی وسائل خرچ کئے۔ اس کے علاوہ بھارت اور ایران نے حاجی گک کان کنی کے ذخائر سے بھی فائدہ اٹھانے کے لئے ہاتھ ملایا تھا۔ لیکن اقتدار کی تبدیلی کے بعد بھارت کا اب دوبارہ پاکستان اور افغان طالبان مخالف رویے کے ساتھ جگہ بنانا بہت دشوارگزار مرحلہ بن چکا ہے، گو کہ بھارت نے افغان عوام کے لئے گندم اور ادویہ امدادی سامان دینے کا وعدہ کیا اور پاکستان نے اس عمل کو سرہاتے ہوئے مکمل تعاون فراہم کیا لیکن مودی سرکار کے لئے اب وہاں ایک بڑا سوالیہ نشان پیدا ہوگیا ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کن بنیادوں پر رکھی جائے۔
قومی سلامتی پالیسی 2022-26ء سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اپنی جغرافیائی پیش رفتوں کو مدنظر رکھتے امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات بحال رکھنا چاہتا ہے اور کسی بھی بلاک میں فریق بن کر ملکی مفادات کو نئے تنازع میں الجھانے سے گریز کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔ پاکستان جہاں چین کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہتا ہے تو امریکا کی ناراضگی کا بھی خواہاں نہیں کیونکہ کئی دہائیوں کی رفاقت میں سرد و گرم کئی مرحلے آئے لیکن دونوں ممالک ایک دوسرے کے مفادات کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ امریکا، پاکستان میں ماضی کی طرح اپنے عسکری مفادات کے لئے جن مراعات کا تقاضا کررہا ہے وہ منکشف ہونے کے بعد ریاست کے لئے ممکن نہیں رہا کہ وہ امریکی خواہشات کو پورا کرتے، لیکن پاکستان ایک ایسی جغرافیائی حقیقت ہے کہ واشنگٹن طویل سرمایہ کاری کو یکدم ختم کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ واضح رہے کہ لاہور میں تعینات امریکی قونصل جنرل ولیم کے مکانیولے نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ 2018ء تا 2020ء پاکستان کو سب سے زیادہ سویلین امداد دی، انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بجٹ 2018ء، 2019ء اور 2020ء کو دیکھا جائے تو پاکستان کو دُنیا کے سی بھی ملک کے مقابلے میں گرانٹ کی صورت میں سب سے زیادہ سویلیں امداد امریکا نے دی۔ یہاں یہ اہم پہلو بھی ہے کہ بحرہند، بحرالکاہل میں امریکا اور چین ایک دوسرے کے مقابل ہیں، چین کی جانب سے پاکستان نیوی کو جدید ٹیکنالوجی اور دفاعی صلاحیت کے اضافے کی خبروں پر بھارت اور امریکا کو تحفظات بھی ہیں کہ پاکستان اب کھلے سمندر میں نئی تیاریاں کررہا ہے۔ دوسری جانب ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ (ٹی پی پی) سے امریکی دستبرداری سے چین کے لئے قابل عمل ردعمل کا چیلنج پیدا ہوچکا ہے اور اس بات کے کوئی آثار نہیں ہیں کہ امریکا اس خطے کے ساتھ تجارتی معاہدوں کو قریبی مدت میں مکمل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اے آر ایف کے اجلاس میں بلنکن نے ہانگ کانگ، تبت اور سنکیانگ کے حوالے سے چین کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی اور جوہری ہتھیاروں کا مسئلہ اٹھایا۔ باضابطہ طور پر افشا ہونے والی امریکی ہند، بحرالکاہل کی حکمت عملی کے مطابق امریکا خطے میں اپنی برتری برقرار رکھنا چاہتا ہے جوکہ ”امریکی، علاقائی اور عالمی اقتصادی ترقی کا انجن“ ہے۔

قومی سلامتی پالیسی 2022-26ء کے اجمالی خدوخال سامنے لائے جا چکے ہیں۔ پالیسی داخلی، خارجی، دفاعی اور معاشی پالیسی کی سمت مقرر کرنے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کا تعاون حاصل ہے کیونکہ اہم معاملے پر ان کیمرا بریفنگ سمیت پارلیمنٹ میں بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا جا چکا ہے۔ خیال رہے کہ دُنیا کا قریباً ہر ملک اپنی حساس اسٹرٹیجک پالیسیوں کو عام نہیں کرتا، اس لئے پاکستان نے بھی قومی سلامتی پالیسی دستاویز کو عام کرنے سے گریز کیا۔
وزیراعظم نے قومی سلامتی پالیسی کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ملک کا تحفظ شہریوں کے تحفظ سے منسلک ہے جبکہ پاکستان کسی بھی داخلی اور خارجی خطرات سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ معاشی تحفظ ہی شہریوں کے تحفظ کا ضامن بنے گا۔ مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی قومی سلامتی پالیسی ہے جسے بنانے میں سات سال کا عرصہ لگا اور اس پر تمام جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق ہے۔ اس قومی سلامتی پالیسی کا بنیادی مقصد عام شہری کا تحفظ ہے اور اس کا محور معاشی سیکورٹی ہے۔ معید یوسف نے کہا کہ ماضی میں پیش کی گئی پالیسی داخلی سلامتی سے متعلق تھی جو نئی قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بھی ہے۔ یہ پالیسی داخلی سلامتی، خارجہ امور، انسانی سیکورٹی اور معاشی سیکورٹی کا احاطہ کرتی ہے۔ اگر ہماری معیشت مضبوط ہوگی تبھی ہمارا شہری محفوظ ہوگا اور دفاعی سلامتی بھی اسی صورت میں ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دستاویز میں شامل خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ پاکستان ہمسایہ ممالک سمیت تمام ممالک کے ساتھ امن کا خواہاں ہے۔
درحقیقت مملکت کو اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ معاشی سیکورٹی کا ہے۔ معیشت کی بحالی، امن اور امان سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے تو دوسری جانب بقول مشیر سلامتی، حکومتی اخراجات کے لئے قرضوں پر انحصار سے خارجہ پالیسی بھی دباؤ میں آتی ہے۔ معیشت جب تک مضبوط نہیں ہوگی عالمی طاقتوں کی مداخلت کا سامنا رہے گا، اس کے لئے ایک ٹھوس لائحہ عمل ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ قومی سلامتی پالیسی اس امر پر خصوصی توجہ ظاہر کرتی ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات سے معیشت کو عالمی مارکیٹ میں بلاخوف و خطر لے جایا جاسکتا ہے۔ عالمی منڈی میں برآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ عوام کی بہتر خوشحالی کے لئے امن کا قیام ضروری ہے۔ پاکستان، افغانستان میں پائیدار امن کے لئے اسی لئے زیادہ توجہ دے رہا ہے کیونکہ اس سے ایسے خطرات سے نمٹنا آسان ہوگا جو معیشت اور امن کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، عام شہری کے معاشی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے ایک ایسا سازگار ماحول مملکت کی ضرورت ہے جس پر تمام اسٹیک ہولڈرز کسی سیاسی مصلحت کے بغیر صرف ملک کی سلامتی کے لئے اپنے اختلافات کو ایک جانب رکھ دیں۔ معیشت کی بحالی اور مضبوطی ہی دفاع کو مستحکم بناتی ہے اور ملک دشمن عناصر سے بچاؤ کے لئے حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتی ہے۔ دفاعی ضروریات کے لئے خودانحصاری اور خودکفیل ہونے سے ملکی وقار بحال رہتا ہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری، ملک کو براہ راست ایسے خطرات سے بچاتی ہے جس میں ترقی پذیر ملک کے لئے زرمبادلہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اُمید کرنی چاہئے کہ قومی سلامتی پالیسی کو کامیاب بنانے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز اپنا اپنا اہم کردار ملکی بقا اور سالمیت کے لئے ادا کریں گے۔ قومی سلامتی پالیسی میں مقبوضہ کشمیر، ہائبرڈ وار فیئر، بڑھتی آبادی، گڈگورننس اور سیاسی استحکام کو بطور چیلنج ترجیحات میں رکھنا بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

مطلقہ خبریں