Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

قومی تزویراتی فیصلے اور عصری تقاضا

پاکستان کو کسی بھی صورت میں چین سے دوستی ختم نہیں کرنا چاہئے اور اس کے اسٹرٹیجک بندھن میں جڑے رہنا چاہئے
ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان
لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی پاکستان کے وہ مردِ تعمیر و عمل ہیں جن کے سب معترف ہیں، ان کی خدمات عالیہ کی بدولت پاکستان آج دفاعی لحاظ سے ایک ناقابل تسخیر قلعہ ہے اور حکومت پاکستان نے انہیں کئی قومی اعزازات سے نوازا ہے۔ بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک (بی ٹی ٹی این) کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
”پاکستان کو کسی بھی صورت میں چین سے دوستی ختم نہیں کرنا چاہئے اور اس کے اسٹرٹیجک بندھن میں جڑے رہنا چاہئے۔“ (زاویہئ نگاہ، جون 2023ء صفحہ: 14)
اس موضوع پر تبادلہ خیال کرنے سے قبل تزویراتی فیصلے کے چند عناصر پر روشنی ڈالنا چاہوں گا۔
اصل مسئلے کا تعین
اس کے حل کی ممکنہ صورتیں
اس حل کے لئے درکار ممکنہ وسائل
حل کے لئے موجودہ اہلیت، صلاحیت اور توانائی
حل کرنے میں حائل مشکلات اور ان کا حل
حل کے لئے درکار تعاون
حل کی ممکنہ مخالف قوتیں
قومی تزویراتی فیصلہ کے اپنے بیانیہ سے پہلے ہم یہاں انیسویں اور بیسویں صدیوں میں کئے گئے اہم قومی تزویراتی فیصلوں کی ایک اجمالی تاریخ پیش کرتے ہیں۔
جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں میں بددلی، مایوسی اور پسپائی کے اثرات پیدا ہوگئے تھے۔ ان حالات میں سر سید آگے بڑھے اور برطانوی حکومت سے تعاون و مفاہمت کی تزویراتی حکمت عملی اختیار کی۔ انگریزی زبان سیکھنے کی تحریک شروع کی۔ سر سید انگریزی ذریعہ تعلیم (میڈیم آف انسٹرکشن) کے مخالف تھے۔ ہم نے ان کی پالیسی سے انحراف کرکے انگریزوں کے جانے کے بعد بھی علوم کو انگریزی میں تعلیم دینے کی جو روش اختیار کی ہے اس کے اثرات ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ہماری موجودہ نسل قومی احساسات سے بالکل عاری ہوچکی ہے، بہرحال سر سید کی تحریک سے مسلمانوں میں حوصلہ پیدا ہوا۔
سر سید تحریک سے جو مرعوب ذہن پیدا ہوا، اس کے تدارک کے لئے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ایک اہم تزویراتی فیصلہ کیا کہ مسلمان ایک تہذیب اور ایک عالمی قوت بھی ہیں۔ پہلے وہ ہندی قومیت کے قائل تھے مگر آگے چل کر انہوں نے محسوس کیا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ ان کا نظریہ، ان کی تہذیب اور ان کے علوم عصر حاضر میں زیادہ توانا اور قابل عمل ہیں۔ اگرچہ اس زمانے میں مسلمان نہ صرف محکوم بن کے رہ گئے تھے بلکہ زوال کے انتہائی درجے تک گر گئے تھے۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبات، اپنی شاعری اور اپنے مقالات میں کھل کر اس کا اظہار کیا، جس سے مسلمانوں میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوا۔ انہوں نے مسلمانوں کی توجہ تبدیل کی اور ہندی قومیت سے اس کا رُخ موڑ کر مسلم قومیت کی طرف کردیا۔ ان کے چند اشعار مثال کے طور پر درج کرتا ہوں:
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو گلا تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
قائداعظم بھی شروع میں متحدہ ہندی قومیت کے قائل تھے اور کانگریس میں ایک فعال کردار ادا کررہے تھے مگر جب کانگریس قیادت کی دو رُخی دیکھی تو بددل ہوگئے اور سیاست سے کنارہ کش ہوگئے، تاہم علامہ اقبال نے انہیں مسلم قومیت کا احساس دلا کر ان میں ایک ولولہ تازہ پیدا کیا اور قائداعظم نے آگے بڑھ کر علامہ اقبال کے قومی تزویراتی نقطہ نظر کو عملی شکل دے دی، چنانچہ پاکستان عالم وجود میں آگیا، جس سے دُنیا محو حیرت ہے۔
قائداعظم کی رحلت کے بعد کوئی ایسی شخصیت پیدا نہ ہوئی جو علامہ اقبال کی بصیرت (وژن) کے مطابق پاکستان کی تشکیل کرتی اور نتیجتاً ملک عملی لحاظ سے انتشار کا شکار رہا، جس کے نتیجے میں ملک اس راہ سے بھٹک گیا جو اسے شاہراہ ترقی کی طرف لے جاتی۔
بیسویں صدی کے آخری نصف حصے میں تمام عالم اسلام آزاد و خودمختار ہوگیا اور آج مسلم قوم کی وہ عالمی حیثیت ابھر کر سامنے آئی ہے جسے علامہ اقبال کی دوربین نگاہ نے محکومی کے زمانے میں دیکھا تھا، وہ آج ہم آزاد ہو کر دیکھ رہے ہیں اور یہ ان کی پیش بینی کا بین ثبوت ہے۔
پاکستان نے فکری اور سیاسی انتشار کے باوجود اپنی ابتدائی بیس برسوں میں نہایت سرعت سے معاشی اور علمی ترقی کی اور ایک جوہری توانائی کا حامل ملک بن گیا، یہ سب کچھ اس جذبے نے کیا جو علامہ اقبال نے اپنے کلام کے ذریعے قوم میں پیدا کیا تھا، لیکن ہماری فکری و سیاسی انتشار سے وہ جذبہ سرد تر ہوتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک دولخت ہوگیا۔ اس کے بعد پاکستان اپنی فکری، سیاسی اور معاشرتی جہت بھول گیا، کیونکہ قومیں ترقی اس صورت میں کرتی ہیں جب قومی امنگیں زندہ ہوں۔ یہاں میں آذربائیجان کے قومی رہبر حیدر علی یو کا ایک قول کا حوالہ دینا چاہتا ہوں:
”تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب سماجی حالات سازگار ہوں اور ”قابلیت“ کو ابھارنے کا موقع ہو تو عوام کی فطری صلاحیت بھی سامنے آتی ہے۔“ (حیدر علی یو، مطبوعہ سفارت خانہ جمہوریہ آذربائیجان، اسلام آباد، مئی 2008ء، صفحہ 23)
1971ء کے بعد پاکستان اپنی نظریاتی اساس یعنی مسلم قومیت کے جذبے سے دور ہوتا چلا گیا اور جن مقاصد کے لئے پاکستان کی تشکیل ہوئی تھی وہ نظریہ تنگ نظر سیاسی قیادتوں کے سبب اپنی اہمیت کھو کر صوبائی، علاقائی اور لسانی صورتوں میں تبدیل ہوگیا، جس کے سبب بنگالی قومیت کی بنیاد پر ملک دو ٹکڑے ہوگیا اور ہمارے قومی تزویراتی فیصلے کا رُخ بدل گیا۔ ہم نے ایک مسلم قومیت کی بجائے صوبائی، لسانی اور علاقائی قومیت کی شکل اختیار کرلی، کوٹہ سسٹم قائم ہوا، جس نے ظلم کی شکل اختیار کرلی۔ ظلم اس کو کہتے ہیں کہ کسی کو اس کی اپنی جگہ سے آگے یا پیچھے کردیں۔ کوٹہ سسٹم نے ایسا ہی کیا، نااہل لوگوں کو اہل لوگوں کے اوپر مسلط کردیا اور ہم زوال پذیر ہوگئے۔ اب ہمیں اپنی آنکھیں کھول لینی چاہئیں اور پاکستان کی نظریاتی راہ عملی طور پر اختیار کرنی چاہئے تاکہ پاکستان دوبارہ ایک توانا قوم کی صورت اختیار کرسکے اور ایسی تراکیب اختیار کرنی چاہئے جس سے زہرآلود صوبائی، لسانی اور گروہی مفاداتی قوتیں دم توڑ دیں اور پاکستان ایک متحدہ قوم کی قوت حاصل کرکے بساط عالم میں اپنی ابتدائی حیثیت دوبارہ حاصل کرسکے۔
قیام پاکستان کے وقت دنیا میں مجموعی طور پر دو نظریاتی قوتیں تھیں۔
سرمایہ داریت، اشتراکیت
افغان وار کے بعد اشتراکیت کا شیرازہ بکھر گیا۔ روس میں شامل مسلم ریاستیں آزاد و خودمختار ہوگئیں۔ اس کے بعد نئے عالمی نظام میں امریکا اور اس کے حواری ایک واحد عالمی قوت بن کر ابھرے۔ اس کے بعد کے حالات میں جمہوریت، انسانی حقوق اور انصاف کے وہ مصنوعی لبادے جو استعماری قوتوں نے اوڑھ رکھے تھے، وہ تار تار ہوگئے اور ان کے دعوے کی اصل صورت ظاہر ہوگئی۔ صومالیہ، افغانستان، عراق، شام اور لیبیا میں جو کچھ ہوا ساری دُنیا اس کی گواہ ہے، طاقتور نے کھل کر بربریت، تشدد اور جبر کا ایک مظاہرہ کیا جس نے جہالت کی اس دھول کو اڑا کر ذہنوں کو صاف کردیا جو مغرب نے ہمارے مرعوب ذہنوں پر بچھا رکھے تھے۔
اب ہم موجودہ صورتِ حال پر نظر ڈالتے ہیں، ہمارا ملک اس وقت متحدہ قیادت سے محروم ہے، پارلیمانی نظامِ حکومت ہے مگر نہ کوئی قدآور قائد ہے، جس سے ملک کی اکثریت رہنمائی حاصل کرے اور نہ کوئی ایسی جماعت ہے، جس پر قوم کی اکثریت اعتماد کرے، اہل بصیرت، دانشور اور قومی درد رکھنے والے بہت پریشان ہیں اور مجموعی صورتِ حال یہ ہے:
بچاؤ بچاؤ کی ہرسو سدا ہے
سفینہ ہمارا بھنور میں پھنسا ہے
نئے عالمی نظام کا واحد کھلاڑی تھک چکا ہے، اس کے ضعف کے اثرات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ روس نے دوبارہ قوت حاصل کرلی ہے اور یورپ سے زورآزمائی کررہا ہے۔ پہلی سرد جنگ کے دوران چین خاموشی سے اپنی معاشی اور علمی ترقی پر گامزن رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں چین اپنی قائدانہ صلاحیت بروئے کار لا کر دُنیا کو ایک نیا رُخ عطا کرنے والا ہے۔ روس اور چین تزویراتی مفاہمت کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ امریکا اور یورپ ان دونوں کے مدمقابل کھڑے ہیں مگر ان کے پاؤں لڑکھڑا رہے ہیں۔ انیسویں صدی میں جس استعماری قوتوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے پورے عالم اسلام کو تہہ و بالا کر دیا تھا وہ خود اپنے اپنے دائروں میں سمٹ آئی ہیں۔ انیسویں صدی میں مسلمان آزاد ہیں اور پیش قدمی کررہے ہیں۔ جس معاہدے کے تحت خلافت ختم کی گئی تھی اس کی مدت پوری ہوچکی ہے، موجودہ چینی قیادت مسلم ممالک کے باہمی اختلافات دور کرنے میں ایک اہم کردار ادا کررہی ہے، اب ایسا نظر آرہا ہے کہ مسلمان اختلافات کی روش ترک کرکے اتحاد کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ علامہ اقبال کہ یہ خواہش پوری ہوتی نظر آرہی ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
اب اپنے مذکورہ بیانیہ کی طرف آ رہا ہوں کہ آج ہم ایک اہم دوراہے پر کھڑے ہیں، جہاں ایک تزویراتی فیصلہ کرنا ہے۔ یہ فیصلہ خودمختار حیثیت میں کرنا ہے، سابقہ دباؤ کو یکسر رد کرکے، اس طرح فیصلہ کرنا ہے، جس طرح علامہ اقبال اور قائداعظم نے کہا تھا تاکہ ہم اپنی عظمت رفتہ پھر حاصل کرسکیں اور قوم یکسو ہو کر اس منزل کی طرف گامزن ہوسکے جس کا تعین قیامِ پاکستان کے وقت قوم نے کیا تھا۔

مطلقہ خبریں