ڈاکٹر ندیم احمد خان
پاکستان نے پہلا غیرملکی قرضہ 1950ء میں 145 ملین ڈالرز کا پہلے پانچ سالہ منصوبے کے لئے لیا تھا، بعدازاں آئندہ پانچ سالہ منصوبوں کے لئے ہم ہر بار 57 ملین ڈالر سالانہ غیرملکی قرضے لیتے رہے۔ 1960ء میں یہ قرضے بڑھ کر 585 ملین ڈالرز ہوگئے اور 1970ء تک بیرونی قرضے دگنے سے زیادہ ہوگئے۔ دسمبر 1971ء میں غیرملکی قرضے 3 ارب ڈالر تھے، جون 1977ء تک 6.3 ملین ڈالر ہوگئے، جس کے بعد پاکستان نے سالانہ ایک ارب ڈالر قرضے لیے اور 1979ء میں بھٹو دور کے خاتمے کے بعد حکومت نے 1984ء تک اوسطاً 1.6 ارب ڈالر سالانہ بیرونی قرضے لیے۔ جون 1998ء تک پاکستان نے مجموعی 40 بلین ڈالر کے غیرملکی قرضے اور 10.2 بلین ڈالر کی امداد حاصل کی۔ نواز حکومت نے 2015ء کی نسبت 2016ء میں 7.9 ارب ڈالرز اضافی قرضے لیے اور مئی 2018ء میں ہمارے بیرونی قرضوں کا حجم ریکارڈ 97.76 ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔
قرضوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 1951ء سے 1955ء تک پاکستان کے بیرونی قرضے صرف 121 ملین ڈالر تھے، تاہم 1969ء میں یہ قرضے بڑھ کر 2.7 ارب ڈالر اور 1971ء میں 3 ارب ڈالر تک جا پہنچے، 1977ء میں پاکستان پر واجب الادا قرضے بڑھ کر دگنا یعنی 6.3 ارب ڈالر ہوگئے، جس کے بعد بے مثال جمہوریت آگئی اور بیرونی قرضے لینے کی روایت بن گئی اور 1990ء میں قرضے بڑھ کر 21.9 ارب ڈالر جبکہ 2000ء میں 35.6 ارب ڈالر تک جا پہنچے، موجودہ دور حکومت میں پاکستان کے بیرونی قرضے 2016ء میں 72.98 ارب ڈالر اور اب مارچ 2018ء میں 91.76 ارب ڈالر کی خطرناک حد تک پہنچ چکے تھے، اس کے علاوہ حکومت نے 2.75 ارب ڈالر کے سکوک اور ڈالر بانڈز بھی جاری کیے جن کی ادائیگیاں 2019، 2025 اور 2036ء میں کرنا ہیں۔ زرمبادلہ کے گرتے ذخائر کو سہارا دینے کے لئے رواں مالی سال حکومت نے 2.5 ارب ڈالر کے 5 سالہ 5.625 فیصد شرح منافع پر اور 10 سالہ 6.875 فیصد شرح منافع پر یورو اور سکوک بانڈز کا اجرا کیا۔
حکومت نے سرمایہ کاروں کو سیکورٹی فراہم کرنے کے لئے اپنے موٹرویز گروی رکھے اور گزشتہ سال 3500 ارب روپے کے مجموعی ریونیو میں سے 1360 ارب روپے مقامی اور بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کی جو ہمارے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے، قرضوں کی حد کے قانون کے تحت حکومت جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زائد قرض نہیں لے سکتی، لیکن ہمارے قرضے اس سے بھی تجاوز کرگئے۔ (ن) لیگ کی حکومت نے جون 2013ء میں جب حکومت سنبھالی تھی تو ہمارے قرضے 60.9 ارب ڈالر تھے جو مئی 2018ء میں بڑھ کر 97.76 ارب ڈالر تک پہنچ گئے اور اس طرح (ن) لیگ حکومت کے پانچ برسوں میں بیرونی قرضوں (ای ڈی ایل) میں 36 ارب ڈالر کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔ حکومت نے بیرونی ذخائر کو سہارا دینے کے لئے 2 ارب ڈالر کا چین سے سوفٹ ڈپازٹ حاصل کیا۔ صرف ایک سال 2016-17ء میں حکومتی قرضوں کا حجم 16 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے 3 ارب ڈالر، پیرس کلب میں شامل ممالک نے 5 ارب ڈالر اور چین نے اپنے تجارتی بینکوں کے ذریعے سی پیک کے مختلف منصوبوں کے لئے اب تک 1.6 ارب ڈالر فراہم کیے۔ پاکستان کو آئندہ مالی سال میں ایکسٹرنل فرنٹ پر قریباً 19 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور 5 ارب ڈالر بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کی مد میں درکار ہیں۔
اگر ہم ادوار جمہوریت اور آمریت کا موازنہ کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ صدر جنرل ایوب کے دور میں جی ڈی پی ملکی تاریخ کا بلند ترین سطح پر 11 فیصد رہا جبکہ دوسرے نمبر پر بھی جی ڈی پی کی بلند شرح 9 فیصد جنرل پرویز مشرف اور تیسری بلند شرح 8.7 فیصد جنرل ضیاء کے دور میں رہی جبکہ جمہوریت کے علمبردار ادوار میں بالترتیب بھٹو دور میں 3.9 فیصد، بینظیربھٹو 4.1%، نواز شریف 4.3%، بینظیر بھٹو کا دوسرا دور 3.8%، نواز شریف کا دوسرا دور 3.5%، زرداری دور 4.4% اور نواز شریف کے تیسرے دور میں جی ڈی پی کی بلند تر شرح 4.9% تک رہی، جو یقیناً جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ نظام کی نام نہاد جمہوریت کے منہ پر شدید طمانچہ ہے۔ جمہوری ادوار میں ناصرفجی ڈی پی آمریت کے ادوار کی بہ نسبت کمتر رہی بلکہ دوسری طرف قوم کو اندرونی اور بیرونی قرضوں کی دلدل میں مجرمانہ حد تک پھنسا دیا۔ 70ء کی دہائی تک قومی قرضہ جات دو سو بلین سے نیچے رہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قومی قرضہ جات بڑھ کر 327 بلین تک پہنچ گئے۔ جنرل ضیاء کے دور میں قومی قرضہ جات میں 12 فیصد کمی آئی اور ان کا حجم کم ہو کر 290 بلین روپے پر آگیا۔ اس کے بعد تمام ادوار میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں قرضہ جات میں 55% اضافے کے ساتھ 448 بلین روپے، نوازشریف کے پہلے دور میں 36% اضافے کے ساتھ 608 بلین، بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں 50% اضافے کے ساتھ قومی قرضہ جات 908 بلین، نواز شریف کے دوسرے دور میں 55% اضافے کے ساتھ قومی قرضہ جات 1399 بلین، مشرف دور میں 9% اضافے کے ساتھ 2008ء تک قومی قرضہ جات کا حجم 1500 بلین تک رہا۔ اس کے بعد بالترتیب 2008-13ء زرداری کا بے مثال جمہوریت کا دور آیا، جس میں قومی قرضہ جات 840% اضافے کے ساتھ 14 ہزار ارب روپے کے مزید بوجھ تلے دب گیا اور یوں جو قرضہ قیام پاکستان سے 2008ء تک محض 1500 ارب تھا اسے تمام حدیں پار کرکے 14 ہزار ارب روپے تک پہنچانے کا سہرا لاجواب جمہوریت کے سر ہے۔ قرضہ جات میں ہوشربا اضافے کی اس شرمناک روایت کو نواز شریف کی تیسری حکومت نے چار چاند لگا دیئے اور مزید 19 ہزار 600 ارب روپے کے قرضے لے کر کل حجم 33 ہزار 600 ارب تک پہنچا دیا۔ حالت یہ ہے کہ گردشی قرضے 924 ارب تک پہنچ چکے، امپورٹ 53 ارب ڈالر اور ایکسپورٹ 20 ارب ڈالر تک گر چکی، بیروز گاری 9%، شرح خواندگی 58%، صحت پر خرچ 46%، گلوبل ہینگر انڈیکس میں پاکستان 106 نمبر پر ہے۔ معاشی حالت کی ابتری یہ ہے کہ ہمیں قرضوں کا سود اتارنے کے لئے بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس کشکول پھیلا کر مزید قرضوں کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ کیا یہی ہے جمہوریت کا پھل کہ چند خاندان کی خوشحالی کے لئے ملک و قوم کو قرضوں کی دلدل میں بدحال کردیا جائے؟
بڑا المیہ یہ کہ وطن عزیز پر غیرملکی قرضوں کا کل حجم لگ بھگ 100 بلین ڈالر ہے جبکہ اکیلے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پاکستان کے لوٹے ہوئے 200 بلین ڈالر اور انگلینڈ میں 100 بلین پاؤنڈز سے زائد بلیک منی کی شکل میں موجود ہیں۔ آئی ایم ایف نے آئندہ پانچ برسوں 2023ء تک بیرونی قرضوں کا تخمینہ 144 ارب ڈالر اور سالانہ قرضوں کی ادائیگی 19.7 ارب ڈالر لگایا ہے جو تاحال 2018ء میں 7.7 ارب ڈالر ہے۔
اگر کوئی لیڈر اور حکومت اس لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کی مخلصانہ کوشش کرے تو ناصرف ملک و قوم کو قرضوں کی دلدل سے نکالا جاسکتا ہے بلکہ اگلے کم از کم دس برس تک ٹیکس فری بجٹ دے کر قوم کے معیار زندگی کو ترقی یافتہ ممالک کے برابر لایا جاسکتا ہے۔ اگر ملک میں انفرااسٹرکچر، انڈسٹری، روزگار، مقابلے کے رجحانات اور نئی مارکیٹوں تک رسائی کے مواقع پیدا کیے جائیں تو ہم ناصرف اپنی 300 بلین ڈالر کی کنزیومر مارکیٹ کو کیپٹلائز کرسکتے ہیں بلکہ جی ڈی پی، 15 سے 20% گروتھ کے ساتھ معاشی انقلاب برپا کرکے قرضوں سے مستقل چھٹکارا پاسکتے ہیں۔