Monday, July 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد موقع پرست غالب آگئے، خواجہ رضی حیدر

پاکستان کو بدعنوانی کا گڑھ بنا دیا گیا، شکاری ٹوٹ پڑے، ڈاکٹر شاہدہ وزارت، 80 بلین ڈالر کی درآمدات نے ملکی معیشت کا بٹہ بیٹھا دیا، ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ، قائد کے بعد ٹوڈیز مسلم لیگ میں شامل ہو کر ملک پرقابض ہوگئے، موقع پرستوں سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر ترقی ناممکن ہے، نصرت مرزا
رپورٹ: سید زین العابدین
آزادی کے 75 سال بعد بھی پاکستان معاشی دیوالیہ پن کا شکار ہے، ہماری سیاسی قیادت نے کیوں معاشی سمت کا تعین نہیں کیا، موجودہ حالات میں میثاقِ معیشت کی ضرورت ہے تاکہ ایک جامع معاشی پالیسی بنا کر اس پر عملدرآمد کیا جائے، قائداعظم نے اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر جو تقریر کی تھی اُسے پاکستان کا معاشی منشور کہا جاتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر عمل نہیں ہوسکا، حالیہ گھمبیر صورتِ حال پر پروگرام ”سچ بات نصرت مرزا کے ساتھ“ میں قائداعظم اکیڈمی کے سابق سربراہ، محقق خواجہ رضی حیدر، پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت، صنعتکار و کالم نگار ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
نصرت مرزا: 75 سال کے بعد ہم ڈیفالٹ ہونے کی صورتِ حال سے کیوں دوچار ہیں؟
اختیار بیگ: ہمیں اپنے اہداف کا تعین کرنا ہوگا، قائداعظم ایک جدید زرعی و صنعتی ملک کا قیام چاہتے تھے سب سے پہلے وہ خوراک میں خودکفیل ہونے کا ہدف رکھتے تھے تاکہ گندم، چاول، دالیں ہماری اپنی ضروریات کے مطابق پیدا ہوسکیں، اسی طرح اور دیگر زرعی اجناس کو ویلیو ایڈیڈ کرکے پاکستان سے باہر بھیجا جائے تاکہ زرمبادلہ آسکے، یہ خواب تھا لیکن اس پر عمل نہ ہوسکا اور ہم ایک درآمدی ملک بن گئے، ہماری درآمدات 80 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوگئے، گزشتہ سال 20 ارب ڈالر کے ذخائر تھے جو اب بمشکل 8 ارب رہ گئے تھے پھر دوست ممالک اور آئی ایم ایف سے سہارا لیا گیا، چاول، شکر، دالیں، کپاس اور فرٹیلائزر بھی درآمد کررہے ہیں جو المیہ ہے اور معیشت پر بوجھ بن رہا ہے۔ ہماری کاٹن کی پیداوار 13 ملین سے 8 ملین بیلز پر آگئی جبکہ مقامی کھپت کیلئے 14 سے 15 ملین بیلز کی ضرورت ہوتی ہے، گزشتہ سال کاٹن کی امپورٹ سے 2 سے ڈھائی ارب ڈالر کا زرمبادلہ لگا تھا، رواں سال بھی پیداوار 7.5 سے 8 ملین بیلز ہونے کا امکان ہے یعنی پھر ہم درآمد کریں گے۔
نصرت مرزا: آزادی کے 75 سال بعد ڈیفالٹر ہورہے ہیں، سیاسی و معاشی سمت کا تعین کیوں نہیں کرسکتے؟
شاہدہ وزارت: بے لوث قیادت کے فقدان کی وجہ سے مسائل بڑھتے گئے، قائداعظم اور لیاقت علی خان کی جلد رحلت سے ایک سیاسی خلا پیدا ہوا، جو لوگ اس خلا کو پُر کرنے کیلئے آئے ان میں صلاحیت کی کمی تھی اور حب الوطنی کا پیمانہ بھی اسلاف جیسا نہیں تھا، یہ لوگ شکاری بن گئے اور عوام کو شکار سمجھ لیا، موقع پرست اور مفاد پرستوں کے ٹولے نے برطانیہ اور بڑی طاقتوں کے نظام کو ملک پر نافذ کردیا اسی وجہ سے حالیہ سیلابوں میں عوام کی حالت آپ دیکھ لیں۔
نصرت مرزا: کیا پاکستان کے دروازے پر انقلاب دستک دے رہا ہے؟
شاہدہ وزارت: عوام متحد نہیں ہیں اس لئے انقلاب مشکل ہے، البتہ خانہ جنگی کا خطرہ ہے، ایسے وقت میں کنٹرول اور رہنمائی کے لئے کسی کو آگے آنا ہوگا۔
نصرت مرزا: کیا قائداعظم پاکستان کو ایک زرعی و صنعتی ملک بنانا چاہتے تھے؟
خواجہ رضی حیدر: قائداعظم کے فرامین کو نہ اکابرین پڑھتے ہیں اور نہ ہی عوام تک ان پیغامات کو پہنچایا گیا، کراچی میں ستمبر 1943ء میں مسلم لیگ کا قائداعظم کی زیرقیادت اجلاس ہوا، جی ایم سید نے اس میں خطبہ استقبالیہ پیش کیا تھا، اگر اس خطبہ استقبالیہ کو پڑھ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ جن صوبوں اور علاقوں کے پاکستان میں شامل ہونے کی توقع تھی ان کی اقتصادیات کو کس بہترین انداز سے بہتر کرنے کی حکمت ِعملی بنائی تھی، زراعت پر توجہ دینے کے ساتھ جدید خطوط پر استوار کرنے کی بات کی گئی، پھر ایک قرارداد پیش کی گئی کہ ممکنہ پاکستان میں سماجی، معاشی ترقی اور سیاسی نظام کس طرح بنایا جائے گا، جسٹس ظہیر الحسن لاری جو لکھنو مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن تھے، جنہوں نے 1943ء کے اجلاس میں قرارداد پیش کی جس پر عملدرآمد کیلئے کمیٹیاں بنائی گئیں۔ ایک پلاننگ کمیٹی بھی تھی جس کی ذمہ داری معاشی سمت کا تعین کرنا تھا، اس پلاننگ کمیٹی کیلئے قائد نے اسماعیل ابراہیم چندریگر کو ذمہ داری دی، آپ نے محمد علی حبیب، ہاشم پریم جی وغیرہ کو جمع کیا۔ اس کمیٹی نے ایک رپورٹ مرتب کی جو داخل دفتر ہوگئی، خالد شمسی الحسن جو سید شمس الحسن کے صاحبزادے تھے انہوں نے Unrealized Dreams کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان نے جو اصول بنائے تھے اُسے پس پشت ڈال دیا گیا، یکم جولائی 1948ء کو کراچی میں قائداعظم نے اسٹیٹ بینک کے افتتاح پر جو تقریر کی وہ پاکستان کا اقتصادی منشور ہے، قائداعظم نے 1942ء میں اپنا ایک بنگلہ جس کا رقبہ 17000 گز تھا، اس میں سے 7000 میونسپلٹی سے کرائے پر لے رکھا تھا، اُسے قائد نے 42 لاکھ میں فروخت کیا، اس سے اندازہ لگا لیں کہ وہ خود کتنے بڑے رئیس تھے لیکن سرکاری مراعات نہیں لیتے تھے، امام جعفر صادق ؑکا قول ہے کہ قناعت و کفایت شعاری انسان کو امیر بنا دیتی ہے، پاکستان کے حکمرانوں نے دونوں اصولوں کو پس پشت ڈال دیا، اس لئے معاشی ابتری یہاں تک پہنچ گئی۔
نصرت مرزا: ڈاکٹر شاہدہ وزارت معیشت کمزور ہے اس پر آپ کیا کہیں گی؟
شاہدہ وزارت: میں نے معیشت کے موضوع پر متعدد کتابیں لکھی ہیں، پاکستان کا اصل مسئلہ سیاسی و سماجی ہے، معاشی نہیں ہے، ہمارا دولت مند ملک ہے، باصلاحیت اور پڑھے لکھے ماہرین ہیں، قدرتی وسائل سے مالامال ہے، قابل اور ایماندار لوگوں کو اُوپر لانے کے بجائے امریکا و برطانیہ سے رابطہ رکھنے والے لوگوں کو اہم ذمہ داریوں پر تعینات کیا جاتا ہے، امریکا اپنے تنخواہ دار ملازمین کو ترقی پذیر ملکوں کا حکمران بنا کر اپنا ایجنڈا پورا کرتا ہے، پاکستان میں 50 کی دہائی کے آخر سے 60کی دہائی تک بہت ترقی کی جس میں صنعتی و زرعی، سماجی ہر شعبے میں بہتری آئی، اس وقت پاکستان ترقی پذیر ملکوں کیلئے رول ماڈل تھا، یہاں تک کہ چین و جرمنی کو قرضہ دیا اور آپ نے بتایا کہ راکٹ لانچ کردیا تھا، سامراج طے کرتا ہے کہ کس ملک کو کتنا آگے بڑھنے دینا ہے، آئی ایم ایف کے پاس ایک ارب یا چھ ارب ڈالر کیلئے نہیں بلکہ اپنی شرائط کے شکنجے میں کسنے کیلئے لے جایا جاتا ہے، جب بھی نئی حکومت آتی ہے اُسے آئی ایم ایف میں جانے سے منع کرتے رہے مگر تمام حکومتیں آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہیں۔
نصرت مرزا: دیکھیں جب ترقی ہوئی تو ایوب خان کو بے عزت کرکے نکالا گیا، ذوالفقار علی بھٹو کو نکالا کیونکہ وہ 1964ء سے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی تگ و دو میں تھے، انہوں نے ایٹمی سائنسدان منیر احمد سے صدر ایوب کی ملاقات کرائی تو منیر احمد نے صدر کو بتایا کہ بھارت ایٹمی پروگرام پر کام کررہا ہے، پاکستان کو بھی ایٹم بم بنانے کی کوشش کرنا چاہئے، ایوب خان نے بجٹ پوچھا جب بتایا گیا تو ہمارے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے جب انڈیا بنائے گا تو ہم بھی کسی ایٹمی ملک سے خرید لیں گے لیکن جب 1974ء میں بھارتی ایٹمی صلاحیت سامنے آگئی تو ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی بنیاد ڈالی، پھر وہ روس سے بھی قریب ہونے لگے اور ایک گروہ کو ختم نبوت پر غیرمسلم قرار دیا تو وہ سب اقدام ان کے خلاف گئے انہوں نے جس کو آرمی چیف بنایا اسی کے ذریعے اقتدار و زندگی کا خاتمہ کروایا گیا، ضیاء الحق سے افغانستان اور دیگر کام لے کر جہاز گرا دیا گیا، پھر بینظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو ان کا اقتدار ختم کرکے نوازشریف کو لایا گیا، پھر انہیں بھی جلد ہٹا کر دوبارہ بینظیر بھٹو اور نوازشریف کو اقتدار دیا گیا لیکن ایٹمی دھماکہ کرنے کی پاداش میں نوازشریف کو ہتھکڑی لگوائی گئی، امریکا کا بہت اثرورسوخ ہے، جی ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ صاحب آپ کیا فرمائیں گے؟
اختیار بیگ: بھٹو صاحب کے تین اقدامات ایسے تھے جس سے پاکستان کا ایک مثبت امیج بنا، پہلی چیز تو ایٹمی صلاحیت کا حصول جس کیلئے وسائل اکٹھا کرنا ان کا کارنامہ ہے، دوسرا اسلامک ملکوں کی کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ آئل بطور ہتھیار استعمال کریں، اس جملے سے مغرب کی نیند حرام ہوگئی، شاہ فیصل نے ایسا ہی کیا تو انہیں بھی مروا دیا گیا، تیسری چیز پاکستانی عوام کو پاسپورٹ بنوانے کی تحریک دی تاکہ وہ بیرون ملک جا کر روزگار کما سکیں۔
نصرت مرزا: سقوط مشرقی پاکستان کے بعد عرب ملکوں نے کہا کہ پاکستان کی اس طرح مدد کی جائے، شاہ فیصل نے حکم جاری کیا کہ تمام ملازمتوں پر پاکستان کے لوگوں کو رکھا جائے، تمام ملکوں پر پاکستان کو ترجیح دی جائے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک سال میں پاکستان کی معاشی مشکلات ختم کردیں گے، جی ڈاکٹر اختیار بیگ صاحب اب آپ فرمائیں؟
اختیار بیگ: اس اقدام سے اوورسیز پاکستانیوں کا جانا ممکن ہوا، جو آج کے دور میں ایک طاقت ہیں جہاں تک آئی ایم ایف کا معاملہ ہے تو John Perkins کی لکھی گئی کتاب Economic Hitman ہے جس میں ترقی پذیر ملکوں کی معاشی حالت کا ذکر ہے کہ کس طرح راتوں رات نئے لوگ آکر ان ملکوں پر مسلط ہوجاتے ہیں اور معاشی پالیسی کو یکسر بدل دیتے ہیں، مغرب اس کے ذریعے اپنے اثرورسوخ کو قائم رکھتا ہے۔
نصرت مرزا: ہٹ مین جیسے لوگ ہمارے جیسے ملکوں میں آتے ہیں تو ان کے پیچھے کون ہوتا ہے؟
اختیار بیگ: جب عمران خان اقتدار میں آئے تو اسد عمر وزیر خزانہ اور سیکریٹری خزانہ یونس ڈھاگا تھے، جن کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ کامرس کے بہترین ماہر ہیں، انہوں نے آئی ایم ایف کی شرائط کو من و عن تسلیم کرنے سے انکار کرنے پر اسد عمر کو بریفنگ دی، نتیجہ کیا ہوا ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ آگئے، تمام شرائط تسلیم کرلی گئیں، اسد عمر کو ہٹا دیا گیا، یونس ڈھاگا نے استعفیٰ دیا، پی ٹی آئی کی حکومت نے اتنا خراب معاہدہ کیا جس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی لیکن جب بلاول بھٹو کا لانگ مارچ شروع ہوا، اپوزیشن کا دباؤ آیا تو حکومت نے آئی ایم ایف کی منظورکردہ شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیٹرول میں سبسڈی دی، عبدالحفیظ شیخ کے دور میں جو معاہدہ ہوا تھا بعد میں اس کی بھی خلاف ورزی کی گئی، جس کے نتیجے میں سات یا آٹھواں معاہدہ ریویو نہ ہوسکا، اس کے بعد ہر روز دس شرائط لگائی جاتی تھیں، وہ پوری کی جاتی تو نئی شرائط لاگو کردی جاتی جس میں ٹیکس چھوٹ ختم کرنا، پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں بڑھانا، پیٹرولیم لیوی والا مسئلہ یہ سب ہوا، جب عمران حکومت نے آخری ایام میں سبسڈی دی، نئی حکومت نے دوبارہ معاہدہ کیا تو نتیجے میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد ہوگئی، مختصر یہ کہ آئی ایم ایف ہم پر مسلط ہوچکا ہے۔
شاہدہ وزارت: اب دُنیا ملٹی پولر ہوچکی ہے، آپ امریکا کے غلام بن کر رہنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی ورنہ روس اور چین جیسے طاقتور ملک بھی ہیں جو مدد کرنے کے قابل ہیں، ذاتی مفاد کیلئے پاکستان کے مفادات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہئے، امریکا و برطانیہ کو آقا نہیں بلکہ دوست کے تحت لیکن چین اور روس سے مختلف شعبوں میں تعاون اور مدد مل سکتی ہے، سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل کریں۔
نصرت مرزا: قائداعظم نے یکسوئی سے تحریک چلائی، انہیں کافر اعظم بھی کہا گیا مگر اپنے ہدف پر ڈٹے رہے اور ملک حاصل کرلیا لیکن اب جو بدترین صورتِ حال ہے اُس پر آپ کیا فرمائیں گے؟
خواجہ رضی حیدر: ابتدائی قیادت نے تحریک پاکستان میں شرکت کی تھی، انہیں مسائل کا ادراک تھا، بدقسمتی سے 1958ء کے مارشل لاء کے بعد سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی، سیاستدانوں کو ایبڈوزدہ کردیا گیا، اس کے نتیجے میں موقع پرست لوگ سامنے آگئے، اصل سیاسی قیادت پس پردہ چلی گئی، قائداعظم کے افکار کو پس پشت ڈال دیا گیا، اسے عملی شکل ہی نہیں دی گئی۔

مطلقہ خبریں