Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

قائداعظم ؒ یومِ وفات اور آل انڈیا مسلم لیگ کے کھوٹے سکے

میر افسر امان

ہم اکثر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے متعلق لکھتے وقت ان کے اردگرد پاکستان مخالف مختلف کرداروں کا ذکر بھی کرتے رہتے ہیں۔ قائداعظمؒ کے یوم وفات 11 ستمبر کے موقع پر اسلام کے شیدائی ہونے اور ان کو سیکولر ثابت کرنے والوں کے منہ پر تمانچہ، تاریخ میں موجود تحریروں کے ذریعے مارنے اور ایک کھوٹے سکے کا ذکر بھی کریں گے۔ یہ کھوٹہ سکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک نام نہاد ستون سر سکندر حیات ہیں۔ سر سکندر حیات سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی میں تھے۔ پھر یونینسٹ پارٹی مسلم لیگ میں ضم ہوگئی۔ یہ بھی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ یہ پنجاب آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے۔ متحدہ ہندوستان میں پنجاب اسمبلی کے وزیراعلیٰ تھے۔ قرارداد لاہور کا اصل مسودہ انہی سر سکندر حیات نے تیار کیا تھا۔ بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل حق نے منٹو پارک کے مسلم لیگ کے اجتماع میں پیش کیا تھا۔ اس مسودہ میں ہندستان میں ایک مرکزی حکومت کے تحت کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن جب مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں اس پر بحث ہوئی تو قائداعظم ؒ نے واحد مرکزی حکومت کے ذکر کو کاٹ دیا۔ اس پر سر سکندر حیات سخت برہم ہوئے۔ انہوں نے 11 مارچ 1931ء کو پنجاب اسمبلی میں کہا تھا کہ ان کا قائداعظمؒ کے ہندوستان کی تقسیم، یعنی پاکستان کا نظریہ، کہ ہندوستان میں ایک طرف ہندو رائج اور دوسری طرف مسلم رائج سے مختلف ہے۔ ان کے بقول ان کے وہ اس تباہ کن نظریہ کی ڈٹ کر مخالفت کروں گا۔ اللہ کا کرنا کہ مخالفت کیا کرتے کہ اگلے سال سر سکندر حیات پچاس کی عمر میں انتقال کر گئے۔اس طرح قائداعظمؒ کو پاکستان کے دو قومی نظریہ سے اختلاف کرنے والے ایک کھوٹے سکے سے نجات ملک گئی۔
سر سکندر حیات نے قائد اعظم ؒ کے خلاف دل کی پڑھاس نکالنے کے لیے بے بنیاد الزام لگائے۔ ایک دفعہ لائل پور(فیصل آباد) میں ایک خلاف واقعہ بیان دیا۔ قائد اعظم ؒ کے پاکستان کے دو قومی نظریہ سے محبت کرنے والے ملک برکت علی صاحب نے خودسنا اور قائد اعظم ؒ کو انیس سو اکتالیس میں لکھا کہ سر سکندر حیات نے لائل پور (فیصل آباد) میں اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ ’’میں ایک گناہ گار شخص ہوسکتا ہوں لیکن باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں جبکہ آپ کے قائداعظم ؒ دن میں ایک بار بھی نماز نہیں پڑھتے‘‘ اے کاش کے اسلام کے شیدائی قائداعظم ؒ کی زندگی پر نمازوں کے متعلق کوئی کتاب ہوتی یا شاید ہو مگرہمارے علم میں نہیں۔ خیر یہ کام ستمبر کے ماہنامہ رسالہ عالمی ترجمان قرآن کے مضمون نگار احمد سعید صاحب سابق صدر شعبہ تاریخ، ایم اے او کالج نے لاہور کردیا۔ وہ لکھتے ہیں قائداعظمؒ نے 1935ء میں عیدالفطر کی نماز ممبئی گراؤنڈ میں ادا کی۔ اس موقع پر ہندوستان میں افغانستان کے سفیر مارشل شاہ ولی بھی موجود تھے۔(۱
یکم مئی 1936ء کو قائداعظم ؒ نے بادشاہی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔ ہنگری کے مفتی اعظم علامہ آفندی نے بھی ان کی ہمراہ نماز ادا کی۔(۲
تین نومبر 1940ء کو آزاد میدان پارک ممبئی میں نماز عید کے بعد مسلمانوں سے خطاب کیا۔(۳
تین مارچ 1941ء آسٹریلیشا مسجد لاہور میں نماز عصر ادا کی۔ اس موقع پر آپ نے چوڑی دار پاجامہ اور اچکن زیب تن کررکھی تھی۔ چونکہ مسجد میں دیر سے پہنچے تھے۔ اس لئے صفیں پھلانگ کر آگے جانے کی بجائے پچھلی صف میں بیٹھے تھے۔ نماز کے بعد اپنے جوتے خود اُٹھائے۔ 29 اکتوبر 1941ء کو آپ نے عیدالاضحی ناگ پور میں ادا کی۔ اس موقع پر لوگ خطبے اور دعا کے بعد آپ سے ہاتھ ملانے کے لئے بے چین تھے۔ آپ مائیک پر تشریف لائے اور سب کو عید مبارک کہنے کے بعد نہایت شگفتہ انداز میں کہا کہ: اگر آپ سب لوگ میرے سے ہاتھ ملائیں تو میرا ہاتھ یہیں رہ جائے گا۔(۴
آل انڈیا مسلم لیگ کے کراچی اجلاس کے موقع پر قائداعظمؒ نے 1943ء میں نماز جمعہ سندھ مدرسۃ الاسلام کی مسجد میں ادا کی۔(۵
تیس نومبر 1944ء کو نئی دہلی میں نماز عید ادا کی اور اس موقع پر مسلمانوں سے خطاب بھی کیا۔ اسی طرح 5 نومبر 1945ء کو نماز عیدالاضحی کے بعد ممبئی کے مسلمانوں سے خطاب کیا۔ دسمبر 1946ء میں قائداعظم لندن تشریف لے گئے۔ اس موقع پر ممتاز حسن صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ممتاز حسن نے اس سفر کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: لندن میں قائداعظمؒ نے اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جانا پسند کیا جہاں عام مسلمان نماز پڑھتے ہوں۔ چنانچہ آپ نے ایسٹ اینڈ کی مسجد میں، جو غریب مسلمانوں نے آباد کی ہوئی تھی نماز ادا کی۔ قائداعظمؒ کی آمد پر خطبہ ہورہا تھا تو کچھ لوگ کھڑے ہوگئے۔ اس پر آپ نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا اور کہا میں دیر سے آیا ہوں اس لئے مجھے جہاں جگہ ملی وہی میرے لئے مناسب ہے۔(۶) اس موقع پر زیڈ اے سلہری بھی قائداعظم ؒ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ ان کی روایت کے مطابق کہ قائداعظم ؒ آخری صف میں بیٹھے بڑے روایتی انداز میں خطبہ پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ میں نماز میں ان کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ ایک شخص نے نماز کے بعد ان کے جوتوں کے تسمے باندھنے چاہے مگر آپ نے اسے ایسا نہ کرنے دیا۔ 12 جولائی 1946ء کو قائداعظم ؒ نے حیدرآباد دکن کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔ اسلامیہ کالج لاہور میں پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک جلسے میں علامہ مشرقی صاحب کے اذان دینے کا واقعہ تو 13 جنوری 1946ء کی بات ہے۔ جب قائداعظم ؒ نے دن 12 بجے اذان سنی تو کہا کہ یہ تو نماز کا کوئی وقت نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا، اس کو یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ کون سی نماز کس وقت پڑھی جاتی ہے۔(۷
قائداعظم ؒ کی دین سے لگاؤ کے اور کئی واقعات ہیں مثلاً 13 اگست 1897ء کو انجمن اسلام میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت منانے کے سلسلے میں محمد جعفری کی تحریک اور نواب محسن الملک کی زیرصدارت جلسہ ہوا۔ اس میں ہر طبقے کے مسلمان، عرب، مغل، میمن اوربوہرے شریک ہوئے۔ اس پروگرام میں 21 سالہ محمد علی جناحؒ بھی شریک تھا۔(۸
چار سال بعد 30 جون 1901ء میں بروز اتوار اپنے اسکول ہال میں انجمن اسلام نے رسولؐ اللہ یوم ولادت منایا۔ اس موقع پر چار سو کے قریب مسلمان شریک ہوئے۔ اس میں قائداعظم ؒ بھی شریک ہوئے۔(۹
بتیس سال بعد 7 دسمبر 1933ء بروز بدھ لندن میٹروپول ہوٹل میں مسلم سوسائٹی برطانیہ نے رسولؐ اللہ کے خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے سر اکبر حیدری کی زیرصدارت ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب میں علامہ اقبالؒ ، عباس علی بیگ، لارڈ ہیڈلے (نومسلم) ڈاکٹر شفاعت احمد خان، اے ایچ غزنوی اور سردار اقبال علی شاہ کے علاوہ ایران، البانیہ، مصر اور سعودی عرب کے وزرا بھی شامل تھے۔ اس میں بھی قائداعظمؒ کا نام نمایاں تھا۔(۱۰
چودہ سال بعد 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن نے عید میلادالنبیؐ تقریب کا اہتمام کیا۔ قائداعظم ؒ نے اس کی صدارت کی۔ قائداعظم ؒ نے اس موقع پر فرمایا ’’اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے بلکہ اسلام ہر مسلمان کے لئے ضابطہ بھی ہے جو اس کی زندگی کے رویے بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے‘‘(۱۱
اس سے ثابت ہوا 21 سال سے عمر کے 72 سال تک قائداعظم ؒ مذہبی مجالس میں شریک ہوتے رہے تو بے رحم سیکولر ڈھگو، اسلام کے شیدائی میرے قائداعظم ؒ کو تم جعلی طور پر سیکولر ثابت کرتے ہو۔ ناعاقبت اندیش پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے برصغیر کے مسلمانوں کو عطیہ، مثل مدینہ مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے وسائل سے بہرہ مند بھی ہوتے ہوں۔ لا الہ الا اللہ کے نام سے بننے والے پاکستان کے بانی کو سیکولر ثابت کرنے کی سازشیں بھی کرتے ہوں۔ خبردار! جب تک اس ملک میں اسلام کے شیدائی موجود ہیں تمہاری سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ شاید اب ایک بار پھر علامہ اقبال ؒ کے خواب اور قائداعظم ؒ کے وژن کے مطابق پاکستان کو مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لئے اللہ نے ایک فرد کو بھیج دیا ہے۔ یہی تمہارے سینے پر مونگ دلے گا۔ جیسے تم پچھلے 70 سال سے اسلام کی شیدائیوں کے سینے پر مونگ دلتے رہے ہو۔ تمہارے ساتھ ساتھ قائداعظمؒ اور آل انڈیا مسلم لیگ کے کھوٹے سکے بھی بے نقاب ہوتے رہیں گے۔ انشاء اللہ۔
حوالاجات
۱۔ رضوان احمد، قائداعظمؒ پیپرز ۱۹۴۱ء صفحہ ۶۴
۲۔ گفتارِِ قائداعظمؒ احمد سعید صفحہ ۱۵۱
۳۔ گفتارِ قائداعظمؒ صفحہ۲۵۱
۴۔ بے تیخ سپاہی نواب صدیق علی خان صفحہ ۴۲۸
۵۔ صادق قصوری، تحریک پاکستان اور مشائخ عظام ۲۲۔ ۲۳
۶۔ سہ ماہی صحیفہ قائداعظم ؒ نمبر لاہور صفحہ ۶۴
۷۔ سہ ماہی صحیفہ قائداعظم ؒ نمبر صفحہ ۶۴
۸۔ بیدار ملک، یاران مکتب جلد دوم پاکستان اسٹڈی سینٹر لاہور صفحہ ۴۲۔۴۳
۹۔ ریاض احمد، ورلڈ آف قائداعظم محمد علی جناح جلد ۱ول صفحہ ۴
۱۰۔ ریاض احمدورلڈ آف قائداعظم محمد علی جناح جلد ۱ول صفحہ ۶۸
۱۱۔ وحید احمد نیشن وائس جلد ہفتم قائداعظم ؒ اکادمی صفحہ ۱۵۳

مطلقہ خبریں