Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

فاضل بجلی کی پیداوار اور وزیر اعظم کی ہدایات۔۔!

ساجد حسین ملک

وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت بجلی کی ڈیمانڈ اور سپلائی کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے دی گئی اطلاعات کی بنیاد پر تیار کردہ ڈیٹا میں بتایا گیا ہے کہ اگلے چار ماہ (نومبر تا فروری) کے دوران بجلی کی اوسط ڈیمانڈ 14452 میگا واٹ ہو گی جبکہ ہنگامی عوامل (آئی پی پیز اور جینکوز کے پراجیکٹس کی اچانک خرابی) کو پیشِ نظر رکھ کر بھی بجلی کی اوسط پیداوار 16865 میگا واٹ ہوگی۔ اس طرح اگلے چار ماہ کے دوران 2400 میگا واٹ سے 3400 میگا واٹ تک فاضل (سرپلس) بجلی دستیاب ہوگی۔ جناب وزیراعظم نے اس رپورٹ کی بنیاد پر ہدایات جاری کیں کہ کم پیداواری استعداد کے حامل پاور پلانٹس کو بتدریج اور مرحلہ وار بند کیا جائے۔ تیل سے چلنے والے پاور پلانٹس کو گیس پر منتقل کرنے کی ہرممکن کوشش کی جائے۔ اس سے ان بجلی گھروں کی پیداواری صلاحیت میں ہی اضافہ نہیں ہوگا بلکہ تیل کا درآمدی بل بھی کم ہوگا۔ اس کے ساتھ بجلی کی دستیابی کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔ جنابِ وزیراعظم نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ پاور سیکٹر کے لئے وافر گیس دستیاب ہے تاہم اس کی دستیابی اور اس کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو یقینی بنانے کے لئے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے ) پرائیویٹ پاوراینڈ انفرااسٹریکچر بورڈ (پی پی آئی بی ) اور پاکستان ایل این جی ٹرمینلز (پی ایل این جی ٹی ) کے مابین وسیع تر رابطہ کاری کو یقینی بنایا جائے۔ جنابِ وزیراعظم نے یہ ہدایت بھی کی کہ دستیاب وسائل کے بھرپور استعمال اور بجلی کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ مستعدی کے لئے تمام متعلقہ محکموں کے مابین رابطے میں اضافہ کیا جائے۔ پالیسی امور کے بارے میں فیصلے التوا کا شکار نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ اس سے غیریقینی فضا جنم لیتی ہے۔ جنابِ وزیراعظم نے بجلی کی پیداوار کے جاری منصوبوں کی بروقت تکمیل پر زور دیتے ہوئے متعلقہ اداروں اور منصوبوں کے سربراہان کو ان منصوبہ جات کی تکمیل کے نظام الاوقات پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔
جنابِ وزیراعظم کی زیرصدارت منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے اْوپر بیان کردہ اعدادوشمار اور تفصیلات خوش آئند ہیں۔ ان کو سامنے رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے جون 2013ء میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد بجلی کی پیداوار میں اضافے اور 16 سے 18 گھنٹے روزانہ کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر جو کام شروع کیا، اْس کے مثبت اور حوصلہ افزا نتائج اور ثمرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس وقت بجلی کی لوڈشیڈنگ تقریباً ختم ہوچکی ہے یا محض ایک دو گھنٹوں کے لئے ہورہی ہے، یقیناً یہ انتہائی قابلِ قدر اور حوصلہ افزا پیش رفت ہے جس کا کریڈٹ بڑی حد تک سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور اْن کے بعض رفقاء کار جن میں موجودہ وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں کو جاتا ہے کہ جنہوں نے وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل کی حیثیت سے قطر سے ایل این جی کی درآمد کے سودے کو حتمی شکل دے کر ملک میں گیس کی وافر فراہمی کو یقینی بنایا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف بھی اس کریڈٹ میں برابر کے شریک ہیں جنہوں نے بجلی کی پیداوار کے بڑے منصوبوں کے سنگِ بنیاد رکھنے کے ساتھ اْن کی بروقت تکمیل اور اْن سے کم سے کم وقت میں بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کے لئے انتھک کوششیں اور کاوشیں کیں۔ میاں محمد نواز شریف اپنے دورِ حکومت میں بجلی کی پیداوار کو بڑھانے کے لئے کتنے سرگرم رہے ہیں اور کتنی دلچسپی لیتے رہے ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کابینہ کی توانائی کمیٹی قائم کی اوراپنے سیکریٹری جناب فواد حسن فواد کو کابینہ کی توانائی کمیٹی کے سیکریٹری کی اضافی ذمہ داری بھی سونپی۔ اس کمیٹی کے تواتر کے ساتھ اجلاس منعقد ہوتے رہے اور وزیراعظم کی ہدایات کے مطابق جناب فواد حسن فواد نے اعلیٰ سطحی وفود کے ساتھ چین کے کتنے ہی دورے کیے اور سی پیک کے تحت توانائی کے منصوبوں کے لئے مختص کردہ 38 ارب ڈالر رقم کی سرمایہ کاری کے لئے چینی کمپنیوں سے مذاکرات میں جہاں شریک رہے وہاں ان منصوبوں کی شفافیت کو برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا جس کی اپنے پرائے سبھی تحسین کرتے ہیں۔
یہاں اس حقیقت کا اظہار کرنا بے بجا نہ ہوگا کہ مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی ذاتی دلچسپی سے بجلی کی پیداوار کے وہ منصوبے بھی پایۂ تکمیل تک پہنچے ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے التوا یا کام کی سْست رفتاری کا شکار تھے اور ان کی تعمیر و تنصیب کے اخراجات میں بھی اربو ں ڈالر (کئی سو ارب روپے) کا اضافہ ہو چکا تھا۔ نیلم جہلم ہائیڈرل پراجیکٹ پر پچھلے 13 برسوں سے سْست رفتار ی سے کام جاری تھا جس کی وجہ سے اس کی تعمیری لاگت میں پانچ سو ارب روپے سے زیادہ اضافہ ہو چکا تھا۔ اس منصوبے پر کام کی رفتا رکو تیز کرنے اور مقررہ مدت (فروری 2018ء) تک اسے مکمل کرنے کے لئے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے پراجیکٹ کے کئی دورے ہی نہ کیے بلکہ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لئے بروقت منصوبہ بندی نہ کرنے پر واپڈا کے اعلیٰ حکام کی جواب طلبی بھی کی۔ اب اس منصوبے کی صورتِ حال یہ ہے کہ اس کی 68 کلو میٹر طویل سرنگوں کی تعمیر اور تکمیل کے بعد اس ماہ کے اوائل میں اس کے ریزوائر (پانی کی ذخیرہ گاہ) میں پانی کی بھرائی بھی شروع ہوچکی ہے اور اْمید ہے اگلے سال فروری تک اس منصوبے سے پوری استعداد کے مطابق 969 میگا واٹ سستی بجلی کی پیداوار شروع ہوجائے گی۔ نندی پور پاور پراجیکٹ جو کتنے عرصے سے سفید ہاتھی کا روپ اختیار کیے ہوئے تھا اور پچھلے دورِ حکومت میں مخصوص مفادات کے تحت اس کی مشینری کی درآمد اور بعض دوسرے معاملات کو اْلجھا دیا گیا تھا کو چالو کرنا اور اس سے بجلی کی پیداوار حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا لیکن وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی ذاتی دلچسپی سے اس منصوبے سے 1000 میگا واٹ استعداد سے کم ہی لیکن معقول مقدار میں بجلی حاصل کی جارہی ہے اور اس کے پلانٹ کو تیل کی بجائے گیس پر منتقل کرنے کا کام بھی شروع ہے۔
بجلی کی پیداوار میں یہ اضافہ اس وجہ سے ممکن ہوسکا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران شروع کیے جانے والے بجلی کے کئی منصوبے پوری طرح یا جزوی طور پر مکمل ہو چکے ہیں ان میں 1320 میگا واٹ پیداواری صلاحیت رکھنے والا ساہیوال کول پاور پلانٹ سرفہرست ہے جس کے دونوں فیزز کا افتتاح ہو چکا ہے اور یہاں سے پوری استعداد کے مطابق بجلی حاصل کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ شیخوپورہ میں بھکی پاور پلانٹ سے بھی 300 سے زیادہ میگا واٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے۔ حویلی بہادر شاہ جھنگ میں بھی 1230 میگا واٹ بجلی کی پیداوار کے منصوبے کے پہلے یونٹ کا بھی دو تین ماہ قبل افتتاح ہوچکا ہے جس سے نیشنل گرڈ میں 760 میگا واٹ بجلی کا اضافہ ہوا۔ ان کے علاوہ قائداعظم سولر پراجیکٹس بہاولپور کی پیداواری صلاحیت میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ وِنڈ پاور پلانٹس اور دیگر کئی چھوٹے بڑے منصوبے بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ بجلی کی پیداوار کی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ جنابِ وزیراعظم کو فاضل بجلی کی پیداوار کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی گئی ہے وہ درست ثابت ہوگی تاہم اس امر کو بھی سامنے رکھنا ہوگا کہ ڈیموں اور بیراجوں میں پانی کی کمی کے ساتھ وہاں کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے بجلی کی پیداوار میں بھی کمی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح سولر اور وِنڈ پراجیکٹ سے بھی رات اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں یکساں طور پر بجلی کی پیداوار حاصل نہیں ہوتی ہے۔

مطلقہ خبریں