Thursday, July 17, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غیر موثر سبسڈی کا شکار کسان

وقاص افضل

حجرہ شاہ مقیم کے شاہ جی جب بھی ملتے ہیں، سنانے کے لئے اْن کے پاس درحقیقت انتہائی سنجیدہ اور بظاہر معمول کی بات ہوتی ہے۔ حالیہ ملاقات میں کہنے لگے کیا یہ طے کرلیا گیا ہے کہ اب پاکستان سے زراعت کو ختم کرنا ہے؟ کیا معیشت کو کندھا دینے کے لئے کوئی غیبی امداد متوقع ہے؟ تھوڑے توقف کے بعد پریشانی کے عالم میں پھر سے گویا ہوئے، کسان کا کوئی پْرسان حال نہیں پالیسی ساز یہی رہے اور انہی خطوط پر چلتے رہے تو خاکم بدہن وہ دن بھی دور نہیں، جب ہمیں پھل سبزیاں، گندم اور گنا بھی درآمد کرنا پڑے گا۔ اب تو یہ معمول کی بات ہے کہ کسان کو اْس کی محنت اور پیداواری لاگت بھی کلی طور پر نہیں ملتی۔ گندم، گنا، کپاس، آلو کسی بھی فصل کے کاشت کار سے پوچھ لیں، وہ رونے کو تیار بیٹھے ہیں۔ جن علاقوں میں آلو کاشت ہوتا ہے، آج کل اْدھر ایک چکر لگائیں اور دیکھیں کاشت کار کا کیسے استحصال ہورہا ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع تو نہیں جب آلو کا کاشت کار اپنی پیداواری لاگت اور محنت کا صلہ بھی حاصل کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ ایک طرف حکومتی ناقص اور کسان کش پالیسیوں کی وجہ سے حالات مخدوش ہیں، تو دوسری طرف افغان ٹریڈ میں بتدریج کمی بھی زرعی اجناس کے گوداموں میں گلنے سڑنے کی وجہ بن رہی ہے۔ شاید ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں کہ افغانستان سے تجارت کم ہونے کے ہماری معیشت پر واضح اور گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
کسان کو درپیش تمام مسائل کے لئے حکومت وقت کے پاس عموماً سبسڈی کی شکل میں ایک ہی حکمت عملی ہوتی ہے۔ سبسڈی عوام تک پہنچانے کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے وہ انتہائی غیرموثر ثابت ہورہا ہے۔ حالیہ برسوں میں سبسڈی ایسے مخصوص انداز میں کسی اسکیم یا پیکیج کے ذریعے دی گئی ہے جس سے اصل اہداف تو درکنار اْن کے قریب قریب نتائج بھی حاصل نہیں کیے جاسکے۔ کیونکہ یہ تمام امدادی پیکیج ایسے مبہم ہوتے ہیں کہ ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے لوگ تو ایک طرف زراعت سے وابستہ پڑھے لکھے افراد بھی ان کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ کھاد پر واؤچر اسکیم کے تحت دی جانے والی سبسڈی اس کی مثال ہے۔ کھاد کی بوری کے اوپر ایک اسٹیکر چسپاں تھا جس کے بارے میں کسان کو خاطرخواہ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے نوسربازوں نے یہ واؤچر لوگوں سے اونے پونے داموں، دھوکہ دہی سے حاصل کر کے کیش کرا لیے اور کسانوں کی بڑی تعداد اس منصوبے سے ملنے والے مالی فائدے سے محروم رہی۔ یہ باتیں ایک اسکیم کے ساتھ خاص نہیں، زراعت کے شعبے میں حالیہ وقتوں میں جب بھی سبسڈی دی گئی وہ ایسے ہی کسی پیچیدہ طریقہ کار کی حامل تھی۔ اس کا کلی تو کیا جزوی فائدہ بھی چھوٹے کسان کو نہ مل سکا۔ دوسری طرف حکومت وقت اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کی مدد سے یہ ثابت کرتی نظر آئی کہ ہم نے اتنے برسوں میں کسانوں کو اتنے ارب کی سبسڈی دی ہے، جس کی نظیر ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔
زراعت کا شعبہ ہو یا دیگر شعبہ ہائے زندگی حالیہ وقتوں میں حکومتوں کی توجہ ایسے منصوبوں اور اسکیموں کی طرف ہوتی ہے، جن کا ذکر شہ سرخیوں میں اچھے سے کیا جاسکے، قطع نظر اس سے کہ یہ منصوبہ عوام کے لئے سودمند ثابت ہوگا بھی یا نہیں۔ اکثر عجلت میں بغیر مناسب تحقیق کے شروع کیے جانے والے یہ منصوبے عوام سے زیادہ نوسر بازوں، سرکاری عہدے داروں اور حکمران اشرافیہ کے زیرسایہ پلنے والے مفاد پرست ٹولے کے لئے نفع بخش ثابت ہوتے ہیں۔ نجانے وہ کون سے زرخیز ذہن ہیں، جو عوامی فلاح کے منصوبوں کے لئے ایسے دقیق اور پیچیدہ طریقہ کار تلاش کر کے لاتے ہیں جو عوام کے فہم سے بالاتر ہوتے ہیں۔ ان منصوبوں کے حوالے سے عوام تک معلومات پہنچانے میں بھی سرکار ناکام ہی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر جو منصوبے جنوبی پنجاب کے کسانوں کے لئے تشکیل دیئے جاتے ہیں، وہ کسان جن کے لئے پیکیج ترتیب دیا گیا ہوتا ہے وہ اس سے نابلد ہی رہتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر حکومت اپنے اقدامات پر اتراتی ہے اور کسان اپنی بے بسی پر آنسو بہاتا ہے۔
حالیہ دہائی میں پْرکشش ناموں کے حامل وہ تمام منصوبے جن کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے ہوتے رہے ہیں وہ عوام کو حقیقی ریلیف دینے میں قریباً ناکام ہوئے ہیں۔ ایک کے بعد ایک اسکیم کے فلاپ ہونے کے باوجود بھی مروجہ سبسڈی دینے کے طریقہ کار میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ عام فہم سی بات ہے اگر حکومت کسانوں کو سبسڈی دینا چاہتی ہے تو ناصرف کھاد، زرعی آلات، کیڑے مکوڑے تلف کرنے والی ادویات کی قیمتوں میں کمی کرے بلکہ زرعی اجناس کی کسان کی محنت اور پیداواری لاگت کو مدنظر رکھتے ہوئے امدادی قیمت متعین کرے اور اْس قیمت پر کسانوں سے فصل کی خرید کو بھی یقینی بنایا جائے۔ حکومت اس کے برعکس، واؤچر اسکیم، تو کبھی کسانوں کو فی ایکڑ امدادی رقم دینے کا پیکیج متعارف کرا دیتی ہے۔ اس کا فائدہ حاصل کرنے سے اکثریت محروم رہتی ہے۔ ایسے تمام منصوبے سیاسی مفادات، اقربا پروری اور مالی بے ضابطگیوں کی نذر ہوجانے کی وجہ سے کسان کے حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔ کوئی خوش فہمی اور مبالغہ آرائی کی عینک اْتار دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اْسے یہ کہنے میں شاید دقت محسوس نہ ہو کہ گزشتہ چند برسوں سے کسان کے حالات تیزی سے ابتری کی طرف جارہے ہیں۔ طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کسان کی حالت میں بہتری لائے بغیر وطن عزیز کی ترقی، دیوانے کے خواب سوا کچھ بھی نہیں۔

مطلقہ خبریں