میر افسر امان
غربت اور مہنگائی میں سسکتے عوام نے جب اہم نوعیت کے حامل یعنی ہائی پروفائل کرپشن کیسز میں حکومتی ذمہ داروں کی مداخلت کے خلاف سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کا سنا تو بے ساختہ آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دیکھا اور اللہ سے دعائیں کیں کہ اے اللہ ہماری سپریم کورٹ کی حفاظت فرما کہ وہ ہمیں انصاف دلائے۔ کہیں پہلے کی طرح نون لیگ والے سپریم کورٹ پر حملہ نہ کردیں۔ چیف جسٹس ہمارے لوٹے ہوئے پیسے واپس ہمارے خزانے میں جمع کرائیں۔ عوام کو غربت اور مہنگائی سے چھٹکارا ملے۔ اس ازخود نوٹس سے پہلے اخبارات میں یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ نوازشریف کی کرپشن میں سزا کے متعلق مقدمے کا ریکارڈ چوری کرنے والے ایک شخص کو نیب کے ایک گارڈ نے رنگے ہاتھوں گرفتار کر کے ریکارڈ کو چوری ہونے سے بچا لیا۔ اس پر نیب کے سربراہ نے اس گارڈ کو دس ہزار روپے نقد انعام دیا۔ نہ جانے چوری کرنے والے شخص کو قانون کے کٹہرے میں کب لایا جائے گا؟ اس سے بھی بہت پہلے یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ نیب کے سربراہ نے کہا تھا کہ زرداری کے خلاف اربوں کے کرپشن کیسز فوٹو اسٹیٹ پر ریکارڈ پر نہیں چلا سکتے، اس لئے کیس کو داخل دفتر کیا جا رہا ہے۔ اس پر ہم نے نیب کے سربراہ سے درخواست کی تھی کہ اصل ریکارڈ غائب کرنے والے کو پکڑ کر مقدمہ قائم کرکے جرم ثابت ہونے پر سزا دینی چاہئے تھی۔ اگر نیب اس وقت اصل ریکارڈ غائب کرنے والوں کو سخت سزا دے دیتی تو میاں نوازشریف کے کیس کا ریکارڈ چوری کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ ہم اپنے کالموں میں لکھتے آئے ہیں کہ کرپشن کرنے والے مقتدر لوگ اپنی پسند کے ملازمین ان اداروں میں بھرتی کرتے ہیں، جو کرپشن کے ریکارڈ غائب، چوری یا جلا دیتے ہیں۔ ایسے ملازمین پر بھی مقدمے قائم ہونے چاہئیں۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مقتدر لوگوں کی کرپشن ہے، عام غریب آدمی پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مجبوری سے اپنے بچوں کو دال روٹی مہیا کرنے کے لئے کسی کی موٹرسائیکل چوری کرتا ہے، پکڑے جانے پر اسے قانون کے مطابق سزا ملتی ہے مگر جب مقتدر لوگ چوری کرتے ہیں اور اسی چوری کے پیسوں کو رشوت میں استعمال کرکے اور اپنے حکومتی عہدوں کی بنیاد پر قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں، جیسے جسٹس عبدالقیوم کو ٹیلیفون کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ ہم یہ بھی بار بار لکھتے آئے ہیں کہ ایک تو انگریزی قانون میں سقم موجود ہیں، ملزم کو کرپشن کر کے بچنے کے راستے ملتے ہیں، ملزم کیس کو لمبا کر کے بے معنی بنا دیتے ہیں۔ دوسرا وہ کرپشن کے ثبوت مٹا دیتے ہیں اور بقول میاں نوازشریف کے کرپشن کرنے والے کرپشن کے نشان نہیں چھوڑا کرتے۔ ہم یہ بھی گزارش کرتے رہے ہیں کہ بار ثبوت اُس شخص پر ڈالا جائے جو کرپش کا ملزم ہو۔ تفتیش کے نام پر کروڑوں روپے کا حکومتی نقصان ہوتا ہے۔ جیسے نوازشریف دور میں سیف اللہ نے تفتیش کے نام پر ملک کے کروڑوں روپے ضائع کئے تھے۔ عمران خان دور میں شہزاد اکبر نے بھی لندن میں غیرملکی تفتیشی ادارے کے کسی شخص کا نام پر عوام کے پیسے ضائع کئے، تفتیش کے نام پر غریب عوام کے خزانے سے پیمنٹ ہوئی تھی۔ پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون پاس کرے جس شخص کے اثاثے اس کی آمدنی سے زیادہ ہوں تو اسے عدالت اس قانون کے مطابق چھ ماہ کا وقت دے۔ وہ اس مقررہ مدت میں اپنے اثاثوں کے ثبوت پیش کرے۔ اگر مقررہ مدت تک وہ اپنے اثاثوں کا ثبوت نہیں پیش کرتا تو اس کے اثاثے قانون کے مطابق غریب عوام کے خزانے میں داخل کر دیئے جائیں۔ مگر صاحبو! بات تو یہ ہے کہ کرپشن کرنے سیاست دان خود اپنے خلاف ایسا قانون کب بناتے ہیں۔ یہ تو وہ سیاست دان قانون بنا سکتے ہیں جو سیاست کو عبادت سمجھ کر سیاست کرتے ہیں۔ الیکشن میں ایک سیٹ پر کروڑوں روپے لگا کر اقتدار میں آتے ہیں، پھر اقتدار کو استعمال کر کے اربوں کماتے ہیں۔ کیا وہ ایسا قانون بنا سکتے ہیں؟ عوام کو بظاہر عمران خان سے یہ قوقع تھی مگر اس نے بھی کرپشن کرپشن کھیلتے کھیلتے اپنے چار سال گزار دیئے، کوئی ٹھوس قانون نہ بن سکا۔
اب شہباز شریف وزیراعظم پاکستان اور ان کے بیٹے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز جن پر کرپشن کے الزام میں مقدمے چل رہے ہیں۔ مرکزی حکومت نے نیب میں کرپشن کے مقدموں میں کے افسران کے تبادلے کر دیئے۔ ایک ایمان دار افسر اسی صدمے میں اگلے جہاں پہنچ گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر کرپشن کے کیسز جو عدالتوں میں قائم ہیں، نیب میں تقرروتبادلوں پر تاحکم ثانی پابندی لگا دی اور استفسار کیا کہ وزیراعظم شہبازشریف اور ان کے فرزند وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے مقدمے میں تفتیشی افسران کو کس بنیاد پر ہٹایا گیا؟ عدالت نے گزشتہ چھ ہفتوں کے دروران پرسیکیوشن اور تفتیش کے محکموں میں ہونے والے تقرر و تبادلوں کی تفصیلات بھی وفاقی حکومت سے طلب کرلی ہیں۔ یہ بھی تفصیل مانگی ہے کہ کس بنیاد پر ایسا کیا گیا ہے؟ عدالت نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالے جانے والے افراد کی لسٹ بھی مانگی ہے کہ کس بنیاد پر ان کو سے نکالا گیا۔ عدالت نے ایک معزز جج جناب مظاہر علی نقوی کے نوٹ پر یہ ازخود نوٹس لیا ہے۔ اس میں توجہ دلائی گئی تھی کہ افسروں کے تبادلوں اور تحقیقات میں مداخلت سے نظامِ انصاف میں خلل پڑ سکتا ہے۔ حکومتی مداخلت سے اہم مقدمات سے شواہد ضائع ہونے اور پرسیکیوشن پر اثرانداز ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی طرح عدالت عظمیٰ کی منصف اعلیٰ نے، ساتھی جج کے نوٹ پر بروقت اقدام کر کے ازخود نوٹس کے تحت کارروائی کا آغاز کردیا۔ اپنی سربراہی میں ایک پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دی۔ جس میں جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس منیر اختر، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔ اس لارجر بینچ نے اس ازخود نوٹس کیس کی باقاعدہ سماعت کا آغاز کردیا ہے۔ عدالت کے مطابق مبینہ طور پر ایک نیک افسر پر اس قدر دباؤ ڈالا کہ وہ اس دباؤ کو برداشت نہ کرسکنے کے سبب دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگیا۔ اس افسر کے بعد ذمہ دار افسر بھی دل کے دورے کا شکار ہو کر اسپتال میں زیرعلاج ہے۔ بات یہاں تک ختم نہیں ہوئی بلکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے عدالت میں یہ تک کہہ دیا گیا ہے کہ وہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے اس کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ کیا سپریم کورٹ کو ایسا حکم جاری کرنے والے جانبدار یا بزدل افسر کو برخاست نہیں کردینا چاہئے؟ سپریم کورٹ نے نیب اور ڈی جی ایف آئی اے کو کرپشن کا کوئی مقدمہ واپس نہ لینے کا حکم جاری کردیا۔ مقدمات میں مداخلت کیوں ہورہی ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے کو اس کا نوٹس جاری کردیا۔ اہم قومی مناصب پر برجمان حکومتی عہدیداروں کی جانب سے عدالتی عمل پر اثرانداز ہونے اور اپنی ذات کی خاطر انصاف کا خون کرنے کی اس بدتر مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب ذرائع ابلاغ میں یہ اعلانات بھی سامنے آئیں کہ حکومت نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کو بھی ان کے عہدے سے سبکدوش کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان حالات میں سپریم کورٹ کے اس ازخود نوٹس کے فیصلے کو عوام نے صائب فیصلہ کہا ہے، اس سے حکومتی لوگوں کے کرپشن کے کیسز کا کوئی منتقی فیصلہ سامنے آئے گا، بااثر لوگوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہونا ممکن ہوسکے گی۔ اس سے بڑی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے مقدمات کا ریکارڈ بھی سیل کرنے کا حکم جاری کیا ہے، اس سے کرپشن کے مقدموں کا ریکارڈ چوری کرنے، جلانے یا غائب کر دینے میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت اس معاملے میں عدالت سے تعاون کرے گی۔ ازخود نوٹس کا مقصد کرمینل جسٹس سسٹم کی مضبوطی ہے۔ یہ کارروائی صرف فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لئے ہے۔ عدالت آئین اور اللہ کو جوابدہ ہے، عدالت انصاف کی فراہمی چاہتی ہے، لاہور کی عدالت میں پراسیکیوٹر کو تبدیل کردیا گیا۔ ڈی جی ایف آئی اے ثناء اللہ عباسی اور ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رضوان کو بھی تبدیل کیا گیا۔ ڈاکٹر رضوان ایک قابل افسر تھے، ان کو کیوں ہٹایا گیا؟ ان کو بعد میں ہارٹ اٹیک ہوا، ان معاملات پر تشویش ہے۔ اس وجہ سے قانون کی حکمرانی پر اثر پڑا ہے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے افسر سے کہا کہ نئے بننے والے وزیراعلیٰ کے کیس میں پیش نہیں ہونا۔ پراسیکیوشن کے عمل میں مداخلت نہیں ہونا چاہئے۔ ہم تماشائی بن کر یہ چیزیں نوٹ کرتے رہے۔ مئی سے یہ اقدام ہونا شروع ہوئے، ہم ان اقدام کو دیکھتے رہے۔ انصاف کے نظام میں کوئی کھلواڑ نہ کرے، عدالت اپنی جانب سے انصاف کو یقینی بنائے گی۔ توقع کی جائے کہ ان اقدامات کے موثر نتائج سامنے آئیں گے۔ عوام کو وطن عزیز میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوتے ہوئے نظر آئے گا۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین