ہمارے معاشرہ میں خواتین کے ساتھ ناانصافی کی داستانیں اگر ملتی ہیں تو اس کے ڈانڈے جاگیردار، سرمایہ دار قماش کے افراد سے ملتے ہیں، کیا اس مارچ میں منتظمین، شرکاء کی طرف سے کبھی یہ مطالبہ سامنے آیا کہ ایسے بااثر افراد کا داخلہ پارلیمنٹ میں بند کیا جائے جو آئین کی 62، 63 کی شق پر پورا نہیں اترتے؟
خالد محمود فیصل
جب سے مغربی دُنیا میں خاندانی نظام منہدم ہوا ہے، اولڈ ہومز آباد ہوئے ہیں، تب سے اقوام متحدہ کی چھتری تلے عالمی ایام کو منانے کی روایت کا آغاز ہوا ہے، جس میں ہاتھ دھونے سے لے کر والدین کے ایام تک اس میں شامل ہیں، ایسے ایام کو منانے کے لئے کوئی پیرا میٹرز تو نہیں دیئے گئے، اس لئے تمام ممالک کے عوام اپنے کلچر، روایات اور تہذیب کے مطابق اس کو مناتے ہیں، اس کی مناسبت سے سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے، زیادہ تر پروگرامات غیرسرکاری تنظیموں کے زیراہتمام منعقد ہوتے ہیں، جن ایام کا تعلق صحت، تعلیم، صنعت و حرفت سے ہوتا ہے، وہ متعلقہ محکمہ جات کی وساطت سے منائے جاتے ہیں، جس کا مقصد عوامی سطح پر آگاہی دینا بھی ہوتا ہے۔
ان ایام میں ایک دن خواتین کے حقوق کا بھی ہے، عالمی سطح پر اس دن کا منانے کا مقصد ان ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنا ہے جو گلوبل ولیج کے اس عہد میں بھی خواتین کے ساتھ روا رکھی جارہی ہیں، فی زمانہ بھی بہت سے معاشرے ایسے ہیں جہاں خواتین کا استحصال کیا جارہا ہے، ان کی جان، مال و عزت تک محفوظ نہیں، انہیں مشینی زندگی کا سامنا ہے، روزی کمانے سے لے کر بچوں کے پالنے تک کا بوجھ محض عورت کو اٹھانا پڑ رہا ہے، جہاں خاندانی نظام سرے سے موجود ہی نہیں وہاں اس کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے، دن بھر کی مشقت کے بعد ایسی عورت کو اپنے خاوند کی محبت میسر ہے، نہ ماں، باپ کا پیار اس کی قسمت میں ہے، نہ بھائی، بہن کی شفقت اس کا مقدر ہے، ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لئے یہ مشینی پرزہ بننے پر مجبور ہیں، ان کی دل جوئی کے لئے خواتین کا دن منا کر ان طبقات کو متوجہ کیا جاتا ہے، جو کسی نہ کسی طرح اس صنف نازک پر ظلم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ان میں وہ بدقسمت مغربی عورت بھی شامل ہے جو کلب کی زینت بنتی، سیکس ورکرز کے طور پر کام کرتی، پیپر میرج کے نام پر شہریت کے آرزومند افراد کے لئے سہولت کار کا فریضہ انجام دیتی ہے، جبر اور گھٹن کے ماحول سے تنگ اس ذات نے عالمی دن کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ”میرا جسم میری مرضی“ کا نعرہ بلند کیا، اس توانا آواز کا مقصد اپنی مرضی اور منشا سے زندگی گزارنے کی آزادی طلب کرنا تھا، یہ سلوگن حق تولید، زنا کاری، جنسی کاروبار کے خلاف بلند ہوا، چند طبقات جو مغربی تہذیب کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، انہوں نے اس کو ”امپورٹ“ کر کے عورتوں کے مارچ میں جب لگایا تو ہمارے سماج کے سنجیدہ حلقے دم بخود رہ گئے۔
مشرقی عورت کو جو مسائل درپیش ہیں وہ مغربی عورت کی مشکلات سے یکسر مختلف ہیں، ان کا تعلق، سماجی ناانصافی، معاشی تفاوت، جہالت اور لاعلمی سے ہے۔ عورت کا استحصال ہمیشہ طاقتور طبقات کرتے رہے ہیں جو حکومت کا حصہ ہوتے ہیں، ہمارے ملک میں بھی روشن خیال سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد کی بہت سی کہانیاں تاریخ کا حصہ ہیں، گرلز کالج سے گورنر ہاؤسز تک طالبات پہنچانے کا فریضہ ہر کارے انجام دیتے تھے، کراچی کی طاقتور مگر ازخود جلاوطن شخصیت سے وابستہ اسکینڈل تو اخبارات میں شائع ہوتے رہے، خواتین کے تحفظ مارچ میں ایسی سیاسی جماعتوں پر پابندی کا مطالبہ کب سامنے آئے گا؟ جن کے ہاتھ خواتین کی عصمت دری سے رنگین ہیں۔
ہمارے معاشرہ میں خواتین کے ساتھ ناانصافی کی داستانیں اگر ملتی ہیں تو اس کے ڈانڈے جاگیردار، سرمایہ دار قماش کے افراد سے ملتے ہیں، کیا اس مارچ میں منتظمین، شرکاء کی طرف سے کبھی یہ مطالبہ سامنے آیا کہ ایسے بااثر افراد کا داخلہ پارلیمنٹ میں بند کیا جائے جو آئین کی 62، 63 کی شق پر پورا نہیں اترتے؟ کسی بھی خاتون کا پہلا بنیادی حق یہ ہے کہ اسے اپنی تہذیب، کلچر اور روایات کے مطابق تعلیم حاصل کرنے، علاج کرانے، قانونی مدد لینے، کاوبار کرنے کی وہ فضاء دستیاب ہو، جہاں وہ اپنی بات کو بغیر کسی خوف، اجنبیت سے متعلقہ شرکاء کے سامنے رکھ سکے، کیا عورت مارچ کے منتظمین کی طرف سے یہ کہا گیا کہ خواتین کے تعلیمی ادارے الگ بنائے جائیں، پولیس اسٹیشن، عدالتیں، دفاتر، کاروباری چیمبرز بھی الگ ہوں، تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو سماج میں ملازمت کے حصول اور کلیدی کردار ادا کرنے کے وسیع مواقع میسر آسکیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے چانڈکا میڈیکل کالج سندھ میں طالبات کی موت کو خودکشی قرار دینے، خواتین کو ہراساں کرنے کے معاملات سوشل میڈیا میں زیرگردش اور عدالت میں زیرسماعت ہیں، ایک طالبہ نے لبرل مزاج کی حامل عوامی جماعت کے سربراہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میڈیکل کالج میں لڑکیاں خودکشی نہیں کرتیں، ان کی عصمت دری کے بعد انہیں موت کو گلے لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے، سندھ حکومت اور تحفظ مارچ شرکاء کے سامنے بڑا سوال ہے۔ ایسے اداروں میں اگر مردوں کی مداخلت نہ ہونے کے برابر ہوتی، خواتین کا الگ میڈیکل کالج ہوتا، تو کیا اس طرح کا سانحہ والدین اور طالبات کا مقدر ہوتا؟ جس عورت کے سامنے بھوک سے بلکتے بچے ہوں، غربت اس کے پاؤں کی زنجیر ہو اس کو عفت اور پاکدامنی کے معنی سمجھائے جا سکتے ہیں؟ ہمارے سماج میں خواتین کے مسائل وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم سے عبارت ہیں، ایسی خواتین کے سامنے اپنے موزے خود تلاش کرنے، کھانا خود گرم کرنے کا نعرہ کیا معنی رکھتا ہے؟ تاہم ایسی خواتین منتظر ہیں کہ کب تحفظ مارچ کے شرکاء معاشی ناانصافی پر بات کریں گی۔
عورت مارچ کی روح رواں جس معاشرہ کو پدرشاہی کا سماج جانتی ہیں، اسی میں عورت خود کو مرد کی نگرانی میں زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں، بہن اپنے بھائی کے ساتھ جانے اس سے خدمت لینے اعزاز اور فخر مانتی ہے، بیوی اپنے شوہر کو اپنے اور بچوں کے لئے سائبان تصور کرتی ہے، ماں کی عظمت اور خدمت تو بڑی سعادت ہے، باپ اپنی بیٹی کو شہزادی سمجھتا ہے، بھائی بہن کی عزت اور ناموس کی خاطر حد سے گزر جاتا ہے، پھر وہ کون سی عورت ہے جس کا غم عورت مارچ کے منتظمین کو کھائے جارہا ہے، اگر انہیں خاتون کے تحفظ کے لئے آواز اٹھانی ہے تو ان عورتوں کے لئے بلند کریں جو خاندان کے ہمراہ جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں کے ڈیرہ جات پر بے بسی کی زندگی بسر کر رہی ہیں، جن خواتین کو معاشی مجبوری کے سبب اشتہارات میں بازار کی زینت بنایا جاتا ہے۔ وفاقی مذہبی وزیر کا سرکار سے اس مارچ میں اسلامی شعائر، معاشرتی اقدار پردہ، حجاب کا تمسخر نہ اڑانے کی اجازت دینے اور 8 مارچ کو بین الاقوامی ”یوم حیا“ منانے کا مطالبہ درست ہے۔ انٹرنیشل ویمن یونین کی صدر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی جن کا شمار پاکستان کی 50 طاقتور خواتین میں ہوتا ہے، وہ حضرت خدیجہؓ کو مسلم خواتین کے لئے ماڈل قرار دیتی ہیں، بڑے وقار کے ساتھ بلاامتیاز مظلوم خواتین کے حق میں پوری دُنیا میں وہ اپنی آواز بلند کررہی ہیں۔ عورت کے تحفظ کا فریضہ عملاً انجام دے رہی ہیں۔ وہ کردار کی غازی ہیں۔
مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، کشمیری اور فلسطینی، افغانی خواتین کے تحفظ کی بات عورت مارچ میں کیوں نہیں کی جاتی؟ ان خواتین کی مظلومیت کے پیچھے بڑی طاقتوں کا ہاتھ ہے جب تلک عورت مارچ کی منتظمین تعصب کی عینک لگا کر خرافات پر مبنی نعرے لگائیں گی، انہیں پذیرائی نہیں ملے گی، عورت مارچ میں ماحول پراگندہ کرنا عورت کی کون سی خدمت ہے؟ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مارچ کا اس انداز میں انعقاد کیا محرکات رکھتا ہے، جس کی مخالفت تمام مکاتب فکر کرتے ہیں۔