پاکستان کو اس صورتِ حال کی طرف جانے سے روکنے میں کسی نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، پی ڈی ایم اپنی جگہ حکمرانی کے مزے لے رہی ہے تو عمران خان پی ڈی ایم کے دوسرے معاملات کو عوام کے سامنے لانے سے گریز نہیں کرتے، جس سے مشکلات اور پیچیدگی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ بات کہاں جا کر رکے گی
نصرت مرزا
پاکستان کی گھمبیر معاشی صورتِ حال خوفناک منظر پیش کررہی ہے اور اِس بات کی اطلاع دے رہی ہے کہ پاکستان کو اِس صورتِ حال سے دوچار کرنے میں جہاں سیاستداں پیش پیش رہے ہیں وہاں کچھ اہم شخصیات بھی شامل ہیں جس سے تعجب بھی ہوا اور بے یقینی و پریشانی سے بڑھ کر ہیجان جیسا منظرنامہ بن رہا ہے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ میں نے ایک دانا شخص سے اِس بارے میں پوچھا کہ ادارہ کے کچھ لوگ کیوں اِس صورتِ حال کو پیچیدہ بنانے میں اپنا حصہ ڈالتے رہے تو انہوں نے کہا کہ ذاتی وجوہات کی بنا پر ایسا کیا گیا، جس کو ایک سیاسی لیڈر نے اس طرح سے بیان کیا کہ اُن سے کسی نے کہا کہ اگر اُن کی ذمہ داریوں میں توسیع نہیں کی گئی تو مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں، یہ اچھی خبر نہیں تھی اور اُس سے وقار مجروح ہوا اور عوام کا اعتماد متزلزل ہوا کہ جو لوگ ہمارے پاسبان ہیں وہ کیا ایسا سوچ سکتے ہیں۔ اگر یہ بات غلط بھی ہے تو کم از کم یہ بات درست ہے کہ اس صورتِ حال کی طرف جانے سے روکنے میں کسی نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، پی ڈی ایم اپنی جگہ حکمرانی کے مزے لے رہی ہے تو عمران خان پی ڈی ایم کے دوسرے معاملات کو عوام کے سامنے لانے سے گریز نہیں کرتے، جس سے مشکلات اور پیچیدگی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ بات کہاں جا کر رکے گی۔ بظاہر یہ بے یقینی اور پیچیدگی کی صورتِ حال بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور اس پیچیدگی کے رکنے کے امکانات معدوم ہوتے چلے جارہے ہیں۔
پاکستان کا ایک ادارہ ایسا ہے جو پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا امین بھی سمجھا جاتا ہے، اس کی اس قدر بے توقیری اور بے وقاری پہلے پاکستان میں دیکھنے کو نہیں ملی، تو کیا یہ صرف پی ٹی آئی کی بدزبانی اور ارادی یا غیراردی عملیات کا شاخسانہ ہے یا پھر اس کے کئی یا کوئی اور وجوہات بھی ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ بھی بہت مشکل سوال ہے تاہم اس کا جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جب پاکستان ایک عرصے سے چومکھی جنگ سے دوچار ہے جسے آج کل کے دور میں ہائبرڈ وار کہا جاتا ہے تو اس کے سدباب میں کمی رہ گئی، دشمن کی یلغار چاروں اطراف سے یا 360 ڈگری سے جاری ہے، پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے لے کر اس کی امداد اور مہنگائی میں اضافہ اور پاکستان کو بھیک مانگنے پر مجبور کرنا، پھر قدرتی آفات یا سپر سیلاب سے دوچار ہونا، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا سرے سے اپنے اخراجات میں کمی نہ کرنا بلکہ کابینہ کی تعداد 78 افراد تک بڑھانا، وزارتِ خارجہ کے افراد کا غیرملکوں کے دورے پر جانا، پیٹرول کا مہنگا ہونا، اناج اور اشیائے ضرورت کی کمیابی نے عوام کی جہاں ایک طرف کمر توڑی تو دوسری طرف سیاسی بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت پیدا کی۔ سپر سیلاب نے لاکھوں افراد کو بُری طرح متاثر کیا اور پاکستان کی معیشت پر کاری ضرب لگائی، گندم تک باہر کے ممالک سے آرہی ہے۔ یہ ایک بڑا الارم ہے کہ ہم جس خوراک میں خودکفیل تھے اناج باہر سے منگوا رہے ہیں، یہ صورتِ حال سنگینی کی انتہا کی نشاندہی کرتی ہے۔ سپر سیلاب کے آنے پر شبہات ہیں کہ آیا وہ قدرتی آفت تھا یا مصنوعی قدرتی آفت بنا کر پاکستان پر حملہ، جس سے پاکستان کو کچھ خاص کام کرنے پر مجبور کرنا مقصود تھا، اب یہ وجہ “Absolutely Not” کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے کہ ہم امریکا کو پاکستان میں اڈے کی سہولت نہیں دیں گے اور اُس کے بعد پاکستان کے لئے مشکلات پیدا ہوتی چلی گئی۔ امریکی صدر جوبائیڈن اس وقت کی حکومت کے سربراہ عمران خان سے اس وجہ سے بھی ناراض تھے کہ وہ ڈونالڈ ٹرمپ سے اچھے تعلقات بنا چکے تھے، دوئم وہ اس وجہ سے بھی ناراض ہوئے کہ وہ امریکی سی آئی اے کے سربراہ سے نہیں ملے تو جوبائیڈن نے عمران خان سے فون تک پر بات کرنا گوارا نہیں کیا، بالآخر اُن کی حکومت اندرونی اور بیرونی حالات کے ساتھ خود اُن کی اپنی نادانی کی بنا پر چلی گئی، اس پر اکتفا نہیں ہوا بلکہ وہ سیاسی صورتِ حال کو سمجھنے سے ناآشنا تھے، وہ پاکستان کی سیاست کو سمجھتے ہی نہیں تھے، وہ طاقتور حلقوں کے اثرورسوخ جس کی وجہ سے اُن کو حکومت ملی تھی اس سے بھی واقف نہیں تھے، اس لئے مرکز سے بھی استعفے دیئے گئے، پھر پنجاب کی اسمبلی جہاں اُن کی حکومت تھی توڑ ڈالی اور اب خیبرپختونخوا کی حکومت کو بھی چھوڑ دیا، دو بڑے صوبہ جات میں حکومتوں کو چھوڑنا سیاسی غلطی پر غلطی تھی، مرکز میں رہ کر وہ سیاست کرسکتے تھے اور وہ جو داؤ پیج کھیل رہے ہیں پی ڈی ایم کی حکومت اُن کی داؤپیج کا توڑ کررہی ہے اور لگتا ہے کہ وہ مجبور اور بے بس لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں گے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا افغانستان کو چھوڑ کر پاکستان میں اڈے کیوں چاہتا ہے، تو اس کا جواب بظاہر یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا تھا اور اُسے روس کے خلاف پاکستان میں اپنے اڈے زیادہ محفوظ لگتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کے مقابلے میں ایک محفوظ ملک ہے اور ساتھ ایٹمی طاقت بھی، اس لئے امریکا اس طرح روس کے خلاف پاکستان کو اپنا اتحادی بنانا چاہتا ہوگا مگر عمران خان نے کھیل بگاڑا تو اب حکومت چلی گئی اور یہ کوئی نئی بات نہیں، لاتے بھی امریکی ہیں اور نکالتے بھی امریکی ہی ہیں۔ ایوب خاں، یحییٰ خاں، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف سب امریکی ایما پر حکمراں بنے، ممکن تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی حکمراں بن جاتے مگر صورتِ حال ایسی تھی کہ وہ یہ کام نہیں کرسکتے تھے، عمران خان نے صورتِ حال کو اس قدر گرم کردیا تھا کہ مہم جوئی کی گنجائش باقی نہیں تھی، سوال یہ ہے کہ پھر یہ صورتِ حال کیوں بگڑتی جارہی ہے، اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہ امریکی منصوبہ کا حصہ ہے جس کی وجہ سے ساری دُنیا اس کے منصوبے کی لپیٹ میں آئی ہوئی ہے۔ ساری دُنیا میں مہنگائی عروج پر ہے، ساری دُنیا میں بے چینی ہے، اضطراب ہے، یہ امریکا کے اعلان شدہ پروگرام کا حصہ ہے کہ وہ دُنیا پر اپنی بالادستی بحال کرنا چاہتا ہے جو روس اور چین اور کئی اور ممالک نے چیلنج کردی ہے، اس لئے امریکا کا اعلان شدہ منصوبہ یہ تھا کہ چار اقدامات کے ذریعے وہ اپنی دُنیا پر بالادستی بحال کرے گا۔ یہ اعلان اس نے 2010ء میں کیا تھا اور اسی وقت میں نے اپنے ایک مضمون میں ذکر کردیا تھا کہ امریکا یورپی یونین سے برطانیہ کو نکالے گا، مبادا کہ یورپی یونین خود امریکا کے لئے ایک طاقتور چیلنج کے طور پر ابھر کر سامنے آجائے، سو برطانیہ نے یورپی یونین سے نکل کر یورپ کو اپاہج کردیا۔ دوسرا قدم یہ تھا کہ یورپ و امریکا سے افریقی و ایشیائی باشندے بڑی تعداد میں نکال دیئے جائیں، جسے Mass Migration کا نام دیا گیا۔ یہ عمل ہوا تو مگر شاید کرونا کے آنے نے کچھ گڑبڑ کردی اور اس عمل پر مکمل طور پر عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔ تیسرا قدم یہ طے ہوا کہ عالمی کسادبازاری کی جائے، سو ہورہی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان بھی اُس کی زد میں آیا ہوا ہے۔ اب امریکا کے شیطانی عمل اُس پیمانے کے ہیں کہ وہ مختلف ملکوں میں مختلف طریقوں سے کسادبازاری یا مہنگائی کرا رہا ہے اور اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے، روس اور چین پر بھی اس کے اثرات پڑ رہے ہیں۔ چوتھا قدم ایک عالمی جنگ یا محدود جنگ کا تھا جو یوکرین میں جاری ہے، اس طرح وہ روس کو تباہ کرنا چاہتا ہے، اس پر کہا جارہا ہے کہ روس نے اِس کی تیاری پہلے سے کررکھی تھی سو وہ طویل جنگ کے لئے تیار ہے اور اس طرح وہ یورپی یونین اور امریکا کے رومانس کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے، اس کے اثرات، جرمنی، اٹلی، زیکوسلواکیہ، بلغاریہ اور دیگر ممالک پر پڑ رہے ہیں اور وہ روس سے تعلقات بحال کرکے گیس حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اور اُن کے عوام سردی سے ٹھٹھر کر نہ مریں۔ ایک اندازے کے مطابق اِس موسم سرما میں یورپ کے تین لاکھ کے قریب افراد سردی کی وجہ سے مر جائیں گے۔ دوسرے امریکا تیل کی بجائے توانائی کے متبادل ذرائع کی بات کررہا ہے مگر تاحال اس کے اثرات یا اُن کی موجودگی نظر نہیں آتی۔ روس اور یوکرین کی جنگ کو شروع ہوئے گیارہ ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں اور ابھی تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے کیونکہ روس اور امریکا دونوں ہی اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں پاکستان میں اگر یہ سیاسی کشمکش اور پیچیدہ صورتِ حال پاکستان کے جنگ میں کسی ایک گروپ کا ساتھ دینے سے روکنے میں کام آ رہی ہے کہ وہ ملک جو بے یقینی سیاسی صورتِ حال سے دوچار ہو وہ کیسے کسی جنگ کا حصہ بن سکتا ہے۔ مگر پھر بھی پاکستان کو جو نقصانات ہورہے ہیں وہ ناقابل تلافی ہیں، وہ پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے وہ اور جو اضطراب پیدا ہورہا ہے پاکستان کو کسی المیہ سے دوچار کرسکتا ہے، اس سے بچنے کے اسباب ضرور کرنا چاہئے۔