سید زین العابدین
عمران خان 24 سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد اپنی منزل کے پہنچا دیئے گئے ہیں، اگر خلائی مخلوق نے سب کچھ سدھارنے کا بیڑا اٹھاتے ہوئے الیکن ملتوی کروا دیئے تو عمران خان کی ممکنہ حکومت کے 100 دنوں کا پروگرام آئندہ ایک عشرے تک التوا میں چلا جائے گا، نگراں حکومت کا دورانیہ طویل ہوا تو عمران خان کے 100 دنوں کا پروگرام اُچک لئے جانے کی بھی امید ہے کیونکہ جو بھی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے گا اُسے بنا بنایا منشور مل جائے گا۔
عمران خان کا 100 دنوں کا منصوبہ کشش کا باعث ہے، سب سے پہلے انہوں نے مدارس کا ذکر کیا جہاں تقریباً 25 لاکھ بچے پڑھ رہے ہیں، اگرچہ یہ تعداد کچھ کم لگتی ہے اس سے بھی زیادہ بچے ہوسکتے ہیں مدارس کے بچے ڈاکٹرز، انجینئرز اور دوسری پروفیشنل سبجیکٹ کیوں نہیں پڑ رہے، خان صاحب کو اس کا قلق ہے اور وہ ان بچوں کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں، مدارس میں دینی و دنیاوی تعلیم کا نظام کیوں نہ بن سکا، اس کا جواب تو مدارس کے ذمہ دار ہی دے سکتے ہیں۔ انہیں جو پراڈکٹ چاہئے تھی اور آئندہ بھی جس کی احتاج ہے وہی تیار کریں گے۔ خان صاحب نے ملک کے قرضے کا ذکر کیا جس کی مالیت 91 ارب ڈالر کے خطرناک اسکیل تک بڑھ چکی ہے اور ہماری نیشنل سیکورٹی کے لئے سوالیہ نشان بن رہا ہے، عمران خان اپنی حکومت کے دوران کسی سے قرض لینا نہیں چاہتے، گزشتہ پانچ سال میں اس کا عملی مظاہرہ وہ خیبرپختونخوا میں کرتے تو عوام کو ان کی بات سمجھنے میں آسانی ہوتی، قرض نہ لینے کی بات صائب ہے لیکن اس پر عمل درآمد ناممکن ہے۔ ملک کی معاشی صورتِ حال کو بہتر کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے، حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے اللے تللے ختم یرنا ہوں گے، ارکان، وزرا اور اہم شخصیات کے بیرون ملک علاج پر پابندی کی بات خان صاحب پہلے ہی کرچکے ہیں۔
تمام سرکاری اداروں کے ملازمین پے اسکیل (ریویو ) نظرثانی کرنا ہوگا، لاکھوں کی تنخواہیں اور مراعات ختم کرکے پاکستان کی جی ڈی پی کی اوسط کے مطابق مقرر کرنا ہوگا۔ چھوٹے کسانوں کو مراعات دے کر ایگری کلچر کے شعبے کو مربوط کرنا ہوگا تاکہ برآمدات بڑھ سکیں، ٹیکسٹائل، چمڑے، فارسیوٹیکل آلات اور کھیلوں کے سامان کو دنیا کی ملنگ کے مطابق تیار کرنا ہوگا۔ خصوصاً ٹیکسٹائل کی صنعت میں چھوٹے یونٹس کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔
کمیونیکیشن کے شعبے میں غیرملکی کمپنیوں کے زائد منافع کے حصول پر نثر رکھنا ہوگی، موبائل ٹیکس کٹوتی کا معاملہ سپریم کورٹ تک چلا گیا۔ بیرون ملک سے آنے والے زرمبادلہ کو ایسے شعبوں میں استعمال کرنا ہوگا جس سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہوا۔ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ ڈیڈ ہونے سے بچانا ہوگا۔ گزشتہ دونوں سیاسی حکومتوں اور مشرف کے دور میں پرائیویٹ رئیل اسٹیٹ کی خوب چاندی ہوئی۔
حکومت کو سرکاری زمینوں کی حفاظت کرنا ہوگی۔ پرائیویٹ رئیل اسٹیٹ کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی کیونکہ یہ دونوں ہاتھوں کے علاوہ ہاتھوں کی 10 انگلیوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔عمران خان 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کی بات کررہے ہیں، اس کام کے لئے کھربوں روپے چاہئے، سیمنٹ، سریا اور دیگر تعمیراتی سامان کے شعبوں کو فروغ دینا ہوگا اور ان سے تعاون لے کر ہی اس کو عملی جامہ پہنایا جاسکے گا۔ وزارت ہاؤسنگ اور تعمیرات گزشتہ 2 عشروں سے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تنخواہیں اور مراعات وصول کررہے ہیں عوامی مفاد کا کوئی کام نہیں کررہے، عمران خان کو سستے گھر بنانے کے لئے ایک تھنک ٹینک بنانا ہوگا، اس منصوبے پر ن لیگ اور دیگر جماعتوں کی تنقید اس لئے نامناسب ہے کہ انہوں نے اب تک اتنے بڑے منصوبے کا خاکہ بھی نہیں سوچا تھا البتہ اپنے بڑے گھر اور کئی مرلہ کچن خوب بنائے۔
ایک کروڑ ملازمتیں دینے پر تنقید کی جارہی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے جب تعمیرات کے اتنے بڑے منصوبے پر کام ہوگا تو کئی شعبوں میں لاکھوں ملازمتیں فراہم ہوں سکیں گی، عمران خان کو اقتدار میں آتے ہی بحریہ ٹاؤن اور اس قماش کی تمام رئیل اسٹیٹ کو لگام ڈالنی ہوگی، ہزاروں ایکڑ نجی و سرکاری زمینوں پر بیوروکریسی کے ساتھ مل کر یہ قبضہ کرتے ہیں اور ایک ہزار گنا منافع پر فروخت کرتے ہیں، عمران خان نے ٹیکس نیٹ کو 8 لاکھ سے بڑھانے کی بات کی جو بالکل ممکن ہے، کم شرح کا ٹیکس نظام لاگو ہو تو چھوٹے کاروبار کرنے والے بھی ٹیکس دینے لگیں گے لیکن موجودہ ایف بی آر کے ساتھ مل کر یہ کام نہیں ہوسکے گا، ان افسروں کو تو جیل میں بھیجنا ہوگا، خان صاحب عالمی بینک کے لوگوں کو پاکستان کے معاشی نظام سے نکالیں گے تو ان کے منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچیں گے ورنہ یہ خواب رہ جائیں گے۔ توانائی کے شعبوں کو درست کرنا ہوگا، سالانہ 400 ارب روپے کا جنریٹر اور بجلی پیدا کرنے کا دیگر سامان درآمد ہوگا اور پھر اسے چلانے کے لئے 400 ارب کا اضافی تیل و ڈیزل منگوایا جائے گا تو معیشت پر قرضوں کا بوجھ کم نہیں ہوسکے گا، ی ٹی آئی کی ٹیم کو بجلی کے سستے ذرائع ہائیڈرل اور نیوکلیئر پر خاص توجہ دینا ہوگی کیونکہ ان کی لاگت مناسب ہوتی ہے اور زیادہ عرصے کارآمد رہتے ہیں، اس کی مثال منگلا، تربیلا ڈیم اور کینپ ہیں، خان صاحب کو مختلف تعلیمی اداروں سے ذہین اور پروفیشنل نوجوانوں کو لینا ہوگا، 25 اور 30 سال سے مختلف محکموں میں تعینات ہڈحرام اہلکاروں سے جان چھڑانی ہوگی، ماحولیات پر خصوصی توجہ دینا ہوگی، خیبرپختونخوا کی طرز پر پورے ملک میں جنگلات لگانے ہوں گے، جنگلات کی کمی سے بارشوں کے سسٹم پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں، بارشوں کا روٹین متاثر ہورہا ہے، جس سے فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، اقتدار میں آتے ہی پہلا حکم جاری کریں کہ شہروں میں رہنے والے افراد اپنے گھروں کے سامنے اور اطراف چار سے چھ پودے لگانے کے پابند ہوں گے، حکم عدولی کی صورت میں مکین کو سزا ہوگی، اس کے علاوہ تعلیمی اداروں کے طلبا اس میں بڑے مددگار ہوسکتے ہیں، صرف دینی مدارس کے 25 لاکھ میں سے 20 لاکھ طالبات سے مدد لی جائے گی تو ایک دن میں 20 لاکھ پودے لگائے جاسکتے ہیں، پروگرام اچھا ہے مگر اقتدار ملے تو اس پر عمل درآمد ہو۔ نادیدہ قوتیں بھی بعض معاملات میں رکاوٹ بنیں گی، مناسب حکمت عملی سے انہیں قائل کیا جاسکتا ہے۔
خان صاحب کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان کی جماعت کا الیکشن لڑنے والوں کی تقریباً چار ہزار درخواستیں موصول ہوچکی ہیں، ایک ہی حلقے میں کئی امیدوار ٹکٹ لینے کے لئے موجود ہیں، پریشان کن بات یہ ہے کہ ایک دوسرے کے روایتی حریف پی ٹی آئی میں شامل ہیں، ایک کو ٹکٹ ملے گا تو دوسرا ناراض ہوگا اور تیسرا ووٹ بینک متاثر کرے گا۔ پی ٹی آئی کے ترازوں میں مینڈکوں کو ڈالوایا جارہا ہے جنہیں تولنا عمران خان کے لئے ممکن نہیں ہوگا، جنوبی پنجاب کے لوٹوں پر بھی انحصار کرنا دانشمندی نہیں ہوگی، 1988ء میں پی پی کے ساتھ تھے، 1990ء میں آئی جی آئی کے لاڈلے رہے، 1993ء میں جیالے بن گئے، 1997ء میں متوالے بن گئے، 2002ء میں مشرفی ہوگئے، 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی شہادت پر پھر پارٹی میں شامل ہوگئے، 2013ء کے الیکشن میں شیر کے پنجرے میں آگئے، ان پر بھروسہ خود کو دھوکا دینا ہے، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی باتوں میں آ کر عمران خان سیاسی نقصان اٹھائیں گے، کراچی میں ان کی جماعت 2013ء والی پوزیشن پر نہیں ہے، ایسا ہوتا تو 27 مئی کو ملیر ٹنکی گراؤنڈ میں اُن کی آمد ملتوی نہیں ہوتی، ممبر سازی کیمپ میں شرکا کی تعداد کم ہونے پر خطاب ملتوی ہوا، بہانہ سیکورٹی کا کیا گیا، ملیر کا آر سی ڈی گراؤنڈ علاقہ غیر میں نہیں ہے، وہاں کے اسٹیک ہولڈرز انہی کے قابو میں ہیں جنہوں نے عمران خان کو اقتدار کے مسند کے قریب پہنچا دیا ہے بلکہ بٹھانے کے لئے صرف الیکشن کا انتظار ہورہا ہے، اگر وہ چاہتے تو عمران خان کے لئے کراچی کے عوام سے رجوع کرنا مشکل نہ ہوتا، اس رکاوٹ میں عمران خان کے لئے بڑا پیغام ہے اگر وہ سمجھ سکیں۔