Sunday, July 13, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

عظیم سائنسدان۔۔ ڈاکٹر اشفاق احمد

طیب رضا عابدی

پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر اشفاق احمد کا نام اس وقت ملک بھر میں مشہور ہوگیا جب پاکستان نے 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کئے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد اس وقت پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین تھے اور انہی کی سرپرستی میں دھماکے کئے گئے۔ انہی کی سرپرستی میں پاکستان کے ایٹمی بجلی، دفاع، زرعی پیداوار کے فروغ، کینسر کے علاج، ایٹمی توانائی اسپتالوں و اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق احمد 1930ء میں گورداسپور میں پیدا ہوئے، جالندھر سے ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ قیام پاکستان کے بعد فیصل آباد آگئے پھر مزید تعلیم کے لئے لاہور آنا پڑا۔ 1949ء پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فزکس میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ 1951ء میں گورنمنٹ کالج سے ایم ایس سی کیا اور پھر 1952ء میں اسی ادارے میں ہی بطور استاد طلبہ کی علمی پیاس بجھانے لگے۔ سائنس کے میدان میں مزید تعلیم کا شوق آپ کو کینیڈا لے گیا جہاں مانٹریال یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ آپ نے ڈنمار ک اور فرانس کی ریسرچ لیبارٹریوں میں خدمات سرانجام دیں۔ آپ نے وہاں رہ کر سوچا کہ ان کے علم کی پاکستان کو ضرورت ہے، اس لئے وطن لوٹ آئے اور 1960ء میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے وابستہ ہوگئے۔ جب انڈیا نے پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکہ کیا تو آپ بے چین ہوگئے اور دن رات کی محنت سے اٹامک انرجی کمیشن کے کام میں جت گئے۔ جس طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کیا اس طرح ڈاکٹر اشفاق احمد کا کردار بھی کسی طرح فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آپ نے مختلف عہدوں پر 31 سال تک خدمات سرانجام دیں۔ 1991ء اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین بنے۔ آپ نے تحقیقاتی پرچوں کا بھی اجرا کیا۔ آپ عالمی ایٹمی توانائی باڈی کے ممبر بھی تھے۔ پاکستان کے فوجی و سول ایٹمی پروگرام کو نئی بلندیوں تک پہنچانے والے ڈاکٹر اشفاق احمد بلاشبہ ہمارے قومی ہیرو تھے۔ پاکستان کو جو قابل اعتماد جوہری صلاحیت حاصل ہے وہ مرحوم ڈاکٹر اشفاق احمد کی رہنمائی میں ملکی ایٹمی سائنسدانوں، انجینئرز، ٹیکنیشنز نے حاصل کی۔ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے اور پاکستان نے جوہری میدان میں دنیا میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ 1991ء سے 2001ء تک چیئرمین پاکستان اٹامک انرجی کمیشن رہے۔ بطور چیئرمین آپ نے بین الاقوامی ادارے سی ای آر این کے ساتھ روابط کو استوار کیا۔ 1988ء سے 1991ء تک پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سینئر ممبر رہے۔ 1976ء سے 1988ء تک پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے۔ 1971ء سے 1975ء تک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی پنزٹیک کے ڈائریکٹر اور اٹامک انرجی سینٹر لاہور کے 1969ء سے 1971ء تک انچارج رہے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد پاکستان کے ایٹمی پاور پروگراموں، زراعت اور صحت کے شعبے میں ایٹمی توانائی کے استعمال اور پاکستان کے متعدد کینسر سینٹرز میں ڈائریکٹر رہے۔ پاکستان کے سویلین نیوکلیئر پاور پلانٹ چشمہ کے قیام میں ان کا کلیدی رول رہا اور پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین اور نیشنل سینٹر فارسوکس کے سربراہ کی حیثیت سے قوم کی خدمت کرتے رہے۔ ان کی کوششوں سے ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اسلام آباد میں ایک ریسرچ ادارہ بھی قائم کیا گیا۔ آپ وزیراعظم کے مشیر اسٹرٹیجک اینڈ سائنٹفک پروگرام بھی رہے۔ انڈیا نے جب ایٹمی دھماکے کئے تو ڈاکٹر اشفاق احمد اس وقت کینیڈا میں تھے۔ آپ اپنا دورہ مختصر کرکے فوراً پاکستان پہنچے اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے ملے۔ مختلف میٹنگز کے بعد آپ نے وزیراعظم کو اعتماد دلایا کہ پاکستان دھماکے کرنے کی پوزیشن میں ہے اور ذاتی طور پر دھماکے کرنے کی تیاریوں میں جت گئے۔ آپ کی اور عملے کی تگ و دو کے بعد چاغی کے مقام پر پاکستان دھماکے کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح پاکستان نے دشمن کو خبردار کیا کہ وہ قوم کو کمزور نہ سمجھے، ہم بھی ہر قسم کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ 2005ء میں آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا تو حکومت پاکستان نے زلزلے کے حوالے سے ڈاکٹر اشفاق احمد کی تکنیکی ہدایات کی روشنی میں اسلام آباد میں ایک ادارہ بنایا جس سے زلزلے کے حوالے سے اقدامات کرنے میں کافی مدد ملی۔ ڈاکٹر اشفاق احمد نے کچھ کتابیں بھی لکھیں جن میں ’’واٹر اینڈ نیو ٹیکنالوجیز‘‘ کافی اہم ہے۔ آپ نے ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے بھی کافی ریسرچ ورک کیا۔ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے 10 سال تک چیئرمین رہنے والے ڈاکٹر اشفاق احمد نمونیے کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد پی اے ای سی اسپتال میں چند ہفتوں سے زیرعلاج تھے۔ ڈاکٹروں کی انتھک کوشش کے باوجود وہ جانبر نہ ہوسکے اور 18 جنوری 2018ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی عمر 87 سال تھی۔ ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف پر انہیں نشان امتیاز، ہلال امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔

مطلقہ خبریں