اقوام متحدہ سے رپورٹنگ کرتے ہوئے عظیم ایم میاں نے ہمیشہ حقائق بیان کئے ہیں، آپ صحافت کی اکیڈمی ہیں،زیڈ ایچ خرم
عظیم ایم میاں اقوام متحدہ میں ہونے والی کارروائیوں سے پاکستانیوں کو باخبر رکھنے کا ذریعہ ہیں، نصرت مرزا
روزویلٹ ہوٹل ٹرمپ کے داماد کو فروخت کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا، مودی کو بلاول بھٹو نے اسامہ بن لادن سے بھی بڑا دہشت گرد قرار دیا، ہمارے حکمرانوں کی منافقت اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران عیاں ہوتی رہتی ہے، عظیم ایم میاں
رپورٹ: سید زین العابدین
کراچی کے مقامی ہوٹل میں رابطہ فورم انٹرنیشنل اور پاکستان پرنٹ اینڈ الیکٹرونک میڈیا کی جانب سے اقوام متحدہ میں کارسپونڈنٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر، سینئر صحافی عظیم ایم میاں کے اعزاز میں نشست کا اہتمام کیا گیا۔ پاکستان پرنٹ اینڈ الیکٹرونک میڈیا کے صدر زیڈ ایچ خرم نے نظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ (نیویارک) سے رپورٹنگ کرتے ہوئے عظیم ایم میاں نے ہمیشہ حقائق بیان کئے ہیں، آپ صحافت کی اکیڈمی ہیں۔ اس اعزازی نشست میں رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عظیم ایم میاں اقوام متحدہ میں ہونے والی کارروائیوں سے پاکستانیوں کو باخبر رکھنے کا ذریعہ ہیں، ان کے کالم پڑھ کر ہمیں بین الاقوامی سیاست سے آگاہی حاصل ہوتی تھی، اگرچہ میں 2010ء سے روزنامہ ”جنگ“ کا حصہ بنا لیکن کالم نگاری کے حوالے سے یہ سینئر ہیں، ان کے مضمون کو پڑھا کرتے تھے۔ اس موقع پر عظیم ایم میاں نے کہا کہ مجھے اقوام متحدہ سے رپورٹنگ کرتے ہوئے تقریباً 50 سال ہوگئے، سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ 1974ء میں نیویارک گیا تھا، اقوام متحدہ کے تقریباً پانچ سیکریٹری جنرل کے ادوار دیکھ چکا ہوں، گلوبل ایسوسی ایشن کا صدر رہا ہوں جس میں تقریباً 450 مختلف ملکوں کے صحافی ہیں، نیویارک میں بہت سے لوگ مجھے CIA کا ایجنٹ سمجھتے رہے ہیں، مجھے کولمبیا یونیورسٹی میں مختلف موضوعات پر لیکچر دینے کا موقع بھی ملتا رہا ہے، وہاں ہونے والے فیصلوں کے اثرات سینیگال سے لے کر شام کے ملک تک پڑتے ہیں، اتنا عرصہ اقوام متحدہ میں صحافت کرتے ہوئے گزر چکا ہے اس دوران بڑے دلچسپ واقعات دیکھنے کو ملتے رہے ہیں، ہمارے متعدد حکمران اور وزرائے خارجہ وہاں جانے پر فخر محسوس کرتے رہے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو ایسی شخصیت تھے جو امریکیوں کو بھی متاثر کر دیتے تھے، وہ ان سے مرعوب بھی نہیں ہوتے تھے، ان میں ڈپلومیسی کی بہترین صلاحیت تھی، ایسا ہی کچھ میں نے بلاول بھٹو کے گزشتہ دورے میں دیکھا ہے، جب بلاول بھٹو نے مودی کو گجرات کا قصائی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اسامہ تو مر گیا مگر مودی دہشت گرد زندہ ہے، امریکا نے مودی کو ویزا نہیں دیا تھا، بھٹو صاحب کے دور کے کچھ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان سے دوران پریس کانفرنس واٹر گیٹ اسکینڈل کا سوال ہوا، انہوں نے کمال ذہانت سے جواب دیا کہ میرے ملک کی بنجر زمین ٹھیک ہوجائے تو میں واٹر گیٹ کے سوال کا جواب دے سکوں گا، جنرل ضیاء کے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ضیاء صاحب نے یہ دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ کی کارروائی قرآن پاک کی تلاوت سے سے ہوئی، یہ غلط دعویٰ تھا کیونکہ اقوام متحدہ کی انتظامیہ نے کہا کہ یہ ایک لبرل اور سیکیولر ادارہ ہے، اگر آج قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی اجازت دی تو پھر دیگر مذہب کے لوگ اپنی اپنی مقدس کتابوں کے ساتھ آجائیں گے، پھر ہم نے دیکھا کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک قاری تلاوت کررہا ہے، اس کے بعد ضیاء الحق کی تقریر دکھائی گئی، ہمارے حکمران اس طرح کی فنکاریاں کرتے رہے ہیں، ہمارے حکمران وہاں کچھ کہتے ہیں، ترجمان کچھ اور کہانیاں بیان کرنے لگتے ہیں، نوازشریف صاحب کے نیویارک کے دورے کے دوران واجپائی سے ملاقات کا کُل 22 منٹ کا وقت تھا جس میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانا پروٹوکول کے معاملات بھی تھے، میں نے معلومات حاصل کرلیں پھر ان کی ملاقات بل کلنٹن سے ہوئی جو مختصر تھی، میں نے انڈر سیکریٹری ساؤتھ ایشیا سے تفصیلات پوچھی تو انہوں نے کہا کہ سینڈی برگر سے پوچھ لو ان سے مجھے چار سے پانچ لائن کی خبر ملی، پھر میں روز ویلٹ ہوٹل میں آیا تو وہاں فارن سیکریٹری رانا شمشاد خان نے 45 منٹ کی طویل بریفنگ دے دی۔ زرداری صاحب آئے تو ان کی CIA کے ہیڈ سے ملاقات ہوئی، اس کی خبر آگئی لیکن CIA والے تصدیق یا ترید نہیں کرتے، حسین حقانی صاحب ذہین ہیں مگر مستقل مزاج نہیں ہیں، ان سے متعلق بھی بڑی دلچسپ خبریں ہیں، جنرل مشرف آئے تو شیخ رشید وفاقی وزیر اطلاعات تھے، میری کوشش تھی کہ مشرف صاحب کا انٹرویو کر لوں، شیخ صاحب اپنی عادت کے مطابق غیرضروری بھرم دکھا رہے تھے، منیر اکرم نے مجھے بتایا کہ صدر مشرف کے پاس 20 منٹ ہے، اس وقت خورشید محمو قصوری وزیرخارجہ تھے، اُس وقت صدر مشرف کے بیٹے امریکا میں تھے اور ان کے گھر میں ولادت ہونے والی تھی، میں نے صدر مشرف کو دادا بننے کی پیشگی مبارکباد دی تو وہ حیران رہ گئے مگر دلچسپ انداز میں کہا کہ دادا بننا تو اچھی بات ہے مگر داداگیر بننا بُری بات ہے۔ ان دنوں افغانستان پر امریکی چڑھائی کا معاملہ تھا میں نے پوچھا کہ آپ نے کولن پاؤل کے سامنے صرف 8 منٹ میں ہتھیار ڈال دیئے جبکہ مصر نے کہا کہ ہمارے 20 ارب ڈالر قرض ادا کردیں تو ہم اس مطالبے پر غور کریں گے، اس انٹرویو کی بھی بڑی دلچسپ کہانی ہے، پہلے تو راشد قریشی جو آئی ایس پی آر کے ڈی جی تھے وہ انکار کرتے تھے کیمپ ڈیوڈ میں مشرف صاحب کا وفد گیا تو جارج بش جونیئر نے گفتگو کے اختتام پر جنرل مشرف کے کندھوں پر ہاتھ رکھا، میرے کیمرامین نے وہ ویڈیو بنا لی وہاں میزبان اور مہمان صدر کے صرف دو جرنلسٹ کو سوال کرنے کی اجازت ہوتی ہے، راشد قریشی نے انگلینڈ کی کسی پاکستان خاتون جرنلسٹ کو بلایا ہوا تھا جنرل مشرف نے میرے بارے میں پوچھا تو راشد قریشی نے بیوروکریسی والا روایتی انداز اختیار کیا پھر میں نے بش سے سوال کیا کہ آپ کا اتحادی پاکستان ہے مگر آپ کا جھکاؤ بھارت کی جانب کیوں ہے؟ انہوں نے کندھے اچکائے اور جنرل مشرف کے کندھے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے، میرے کیمرامین نے ویڈیو بنا لی، انور مسرور فارن سیکریٹری تھے ان کے ساتھ کرنل الیاس بھی تھے، آپ لوگ یقین کریں کہ اُس کندھے والی ویڈیو کا مجھ سے ان سب نے شدید مطالبہ کیا کیونکہ یہ بات ان کے لئے قابلِ فخر تھی کہ بش نے جنرل مشرف کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ دیا تھا، میں نے اس ویڈیو کو دینے کی شرط پر مشرف صاحب سے انٹرویو کا وقت طے کروایا تھا۔ عمران خان صاحب آئے تو انہوں نے اقوام متحدہ میں ایک گھنٹہ تقریر کر ڈالی حالانکہ اقوام متحدہ میں ہر ملک یا حکومت کے سربراہ کے لئے 10 سے 15 منٹ کا وقت مقرر ہوتا ہے، صرف امریکی صدر طویل تقریر اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں پالیسی دینا ہوتی ہے، اگر کسی ملک کا سربراہ 15 منٹ سے زیادہ تقریر کرنے لگے تو وہاں موجود شرکاء دلچسپی نہیں لیتے وہ صرف 10 سے 15 منٹ بغور سنتے ہیں، عمران خان کی طویل تقریر پر کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا لیکن پاکستان میں ان کی طویل تقریر پر واہ واہ سبحان اللہ کی خبریں تھیں کہ ہمارے لیڈر نے کیسے ساری دُنیا کے حکمرانوں کو گھنٹہ بھر اپنی طرف متوجہ رکھا، یہ سب جھوٹ ہوتا ہے، شاہ محمود قریشی وزیرخارجہ تھے ان سے کثیر ایجنڈے سے متعلق ٹرمپ سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا وزیراعظم عمران خان سے افغانستان کے ایجنڈے پر بات ہوگی، ٹرمپ سے کشمیر سے متعلق میں نے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ میں دونوں ملکوں کے درمیان اس دیرینہ مسئلہ پر ثالثی کرانے کے لئے تیار ہوں، مودی دوست ہے میں ثالثی کراؤں گا، اُس وقت یہ سائفر والے اسد مجید ہمارے سفیر تھے، میں نے ثالثی والی بات بریک کردی تو بھارت میں بھونچال آ گیا، اس وقت وہاں رات کے 12 بج رہے تھے، بھارتی فارن آفس رات کو کھولا گیا، مودی صاحب کو جگایا گیا کہ کیا ردعمل دیں، 22 جولائی 2019ء کا یہ واقعہ ہے جب عمران خان پاکستان آئے تو خوب پروپیگنڈا ہوا کہ ہم نے کشمیر فتح کرلیا، ان کی بڑی واہ واہ کی گئی مگر چند دنوں بعد ہی بھارت نے 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کردیا اور ہماری حکومت جواب میں صرف ہفتہ وار ریلیاں نکالتی رہ گئی، ہمارے حکمران اقوام متحدہ کی اسمبلی میں جانا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں، انہیں ملکی مفاد سے زیادہ اپنے استقبال اور پروٹوکول کی فکر ہوتی ہے لیکن وہاں کسی کو گھانس نہیں ڈالی جاتی، سب لاوارث کی طرف گھوم رہے ہوتے ہیں، یوسف رضا گیلانی بطور وزیراعظم آئے تو اُن سے سوال کچھ ہورہا تھا وہ جواب کچھ اور دے رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو فیڈرل کاسترو، معمر قذافی، ہوگوشاویز جیسے لیڈر اگر طویل تقریر کرتے تو شرکاء بغور سنتے تھے۔ نشست کے دوران سینئر صحافی مبشر میر نے روز ویلٹ ہوٹل کے فروخت کئے جانے سے متعلق سوال کیا تو عظیم ایم میاں نے کہا کہ اِس کی موجودہ مالیت 400 ملین ڈالر ہے، اس کی لوکیشن بہت اچھی ہے، کووڈ 19 کے دوران اس پر بورڈ لگا کر بند کردیا گیا تھا۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی اس ملکیت کو اونے پونے بیچنے کے انتظامات کر لئے گئے تھے۔ عمران خان کے دور میں یہ پلان بنایا گیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ جیت جانے پر ان کے داماد کو 36 ملین ڈالر میں فروخت کردیا جانا تھا مگر پاکستان کی قسمت کے ٹرمپ کو شکست ہوگئی، اس طرح ہمارا یہ قیمتی اثاثہ بچ گیا، اگر ہوٹل کو اچھی طرح منیج کئے جانے کے بعد فروخت کیا جائے تو 129 ملین ڈالر کا منافع مل سکتا ہے۔