Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

طالبان حکومت کو درپیش مسائل اور اوسلو مذاکرات

عالمگیر آفریدی
افغانستان کے قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں طالبان وفد نے اپنے پہلے بیرون ملک دورے کے سلسلے میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں یورپی ممالک کے حکام اور افغان سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرکے دُنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر دُنیا ان کی حقیقت تسلیم کرلے تو وہ کسی بھی ملک اور بین الاقوامی ادارے سے روابط استوار کرکے افغان عوام کے وسیع تر مفاد میں نہ تو کوئی ہچکچاہٹ محسوس کریں گے اور نہ ہی اس ضمن میں کسی مداہنت سے کام لیں گے۔ 23 جنوری 2022ء سے شروع ہونے والے اس تین روزہ دورے کے دوران طالبان وفد نے بند کمرے میں ہونے والی میٹنگز میں ناروے کے حکام کے ساتھ ساتھ امریکا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور یورپی یونین کے نمائندوں کے علاوہ افغان تارکین وطن سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ طالبان کا گزشتہ سال اگست میں افغانستان میں دوبارہ کنٹرول سنبھالنے کے بعد مختلف یورپی ملکوں کے ساتھ یہ پہلا براہ راست رابطہ ہے جبکہ اس موقع پر اوسلو میں موجود افغانستان کی سول سوسائٹی اور افغان تارکین وطن کے نمائندوں نے مغربی سفارت کاروں کو اپنے مطالبات اور جنگ زدہ ملک کی زمینی صورتِ حال سے آگاہ کرکے طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں انسانی حقوق سے متعلق امور کو بھی موضوع بحث لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پہلے روز کے مذاکرات کے بعد افغان نائب وزیرثقافت و اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اجلاس کے شرکاء نے تسلیم کیا کہ افغانستان کے تمام مسائل کا واحد حل افہام و تفہیم اور مشترکہ تعاون میں مضمر ہے اور شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ تمام افغانوں کو ملک میں بہتر سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے نتائج کیلئے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اوسلو کے ان مذاکرات کے بارے میں توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ اس موقع پر طالبان اپنے اس مطالبے پر زور دیں گے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک افغانستان کے منجمد کردہ قریباً 10 ارب ڈالر کے اثاثے بحال کریں کیونکہ ملک کو اس وقت غیریقینی انسانی صورتِ حال کا سامنا ہے اور بروقت مالی وسائل مہیا نہ ہونے کی صورت میں ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اوسلو مذاکرات میں طالبان کی جانب سے فنڈز کی درخواست کے جواب میں مغربی طاقتیں افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو اپنے ایجنڈے میں شامل کروا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک طالبان انتظامیہ سے افغانستان کے اقلیتی، نسلی اور مذہبی گروہوں کو اقتدار میں شامل کرنے کا اپنا پرانا اور دیرینہ مطالبہ بھی دہرا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ طالبان نے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد سے خواتین پر بعض پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ان پر صحت اور تعلیم کے شعبوں سے باہر دوسرے محکموں میں ملازمتوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان کی تعلیم تک رسائی چھٹی جماعت سے آگے محدود کردی گئی ہے اور انہیں گھروں سے باہر نکلتے وقت جہاں حجاب پہننے کا حکم دیا گیا ہے وہاں انہیں بغیر محرم کے اپنے گھروں سے باہر نہ نکلنے کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ طالبان نے اس مرتبہ اپنی ماضی کی حکومت کے برعکس مکمل برقعہ پہننے کی سخت پابندی عائد نہیں کی ہے۔ اسی طرح طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اپنے ایک حالیہ بیان میں بچیوں کی تعلیم سے متعلق یہ وضاحت بھی کرچکے ہیں کہ وہ مارچ سے بچیوں کی تعلیم پر عائد پابندی ختم کردیں گے اور انہیں الگ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے برابر مواقع فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ طالبان حکومت کو ابھی تک کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے اور ناروے کے وزیرخارجہ اینیکن ہیٹ فیلڈ نے بھی اس بات کو واضح کیا ہے کہ اوسلو مذاکرات طالبان کی قانونی حیثیت تسلیم کرنے کیلئے نہیں کئے جارہے ہیں بلکہ ان کا مقصد طالبان کے ساتھ افغان عوام کے وسیع تر مفاد میں ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ملک کے ڈی فیکٹو حکام سے بات کرنی چاہئے۔ ہم سیاسی صورتِ حال کو اس سے بھی بدتر انسانی تباہی کی طرف لے جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ بقول ان کے اگست کے بعد سے افغانستان میں انسانی صورتِ حال انتہائی ابتر ہوچکی ہے۔ بین الاقوامی امداد جو افغان بجٹ کے تقریباً 80 فیصد پر مشتمل ہوتی تھی، اچانک رک گئی ہے اور امریکا نے افغان مرکزی بینک کے 9.5 بلین ڈالر کے اثاثے بھی منجمد کر دیئے ہیں۔ بیروزگاری آسمان کو چھو رہی ہے اور کئی مہینوں سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں، ایک ایسے ملک میں جو پہلے ہی شدید خشک سالی کا شکار ہے اس کو اپنے حال پر چھوڑنا انسانیت کی توہین ہوگی۔ اقوام متحدہ کے مطابق بھوک سے 23 ملین افغانوں یا 55 فیصد آبادی کو خطرہ لاحق ہے جس کیلئے اس سال عطیہ دینے والے ممالک سے 4.4 بلین ڈالر کی فوری ضرورت ہے۔ دوسری جانب طالبان کے ماضی پر نظر رکھنے والے بعض تجزیہ کار طالبان کی جانب سے مغربی ممالک کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور اس سلسلے میں اوسلو مذاکرات میں بخوشی شریک ہونے کے طالبان کے فیصلے کو اگر ایک طرف طالبان کی پالیسیوں اور رویے میں لچک کا واضح مظہر قرار دیا جارہا ہے تو دوسری جانب اس پیش رفت کو ماضی کے برعکس مغربی دنیا کے طالبان سے متعلق موقف میں بھی ایک بڑی اور حقیقت پسندانہ تبدیلی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ دراصل اس حقیقت کو کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا کہ طالبان گورننس کے معاملے میں نئے اور ناتجربہ کار ہیں البتہ ان کے پاس اپنے آپ کو مغربی دنیا سے تسلیم کروانے کے سلسلے میں اوسلو مذاکرات ایک اچھا موقع اور نیک شگون ثابت ہوسکتے ہیں۔

مطلقہ خبریں