میر افسر امان
اس بات میں ذرا برابر بھی شک نہیں کہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے انصاف کیا، مداخلت نہیں کی جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اچھا شگون ہے، ویسے بھی اگر سیاستدان ملک میں ای ووٹنگ کا طریقہ رائج کردیں تو انتخابی جھگڑوں سے جان چھوٹ سکتی ہے، اس طرح جیتنے والی پارٹی کو کھل کر کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور عوام کی بھلائی کی طرف حکومت کو دھیان دینے کا وقت مل جاتا ہے۔۔۔۔۔
معمولی سی جیت پر ن لیگیوں نے شور مچایا ہوا ہے کہ ’’بھاگ گئے تحریک انصاف والے، جانے نہیں دیں گے ان کو‘‘ ن لیگی پروپیگنڈا سیل نے کہنا شروع کیا ہوا ہے کہ تحریک انصاف کو شکست دے دی ہے، ہمیشہ کی طرح نون لیگ کے پروپیگنڈا سیل نے پاکستانی عوام کو مس گائیڈ کرنے کا پرانا وطیرہ اپنائے رکھا ہے۔۔۔
صاف اور شفاف ضمنی انتخابات مکمل ہوگئے، اپوزیشن کو مناسب سیٹیں مل گئیں، اسی لئے سیاسی جماعتوں کا روائتی شور شرابہ سننے کو نہیں ملا، یہ ملک میں سیاسی طور پر خوش آئند ہے۔ ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی 11 سیٹوں میں سے 4 سیٹیں پاکستان تحریک انصاف کو ملیں اور 4 ہی سیٹیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کو 2 سیٹیں ملیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت متحدہ مجلس عمل کو ایک سیٹ ملی۔ اتحادی پوزیشن پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت کی 6 سیٹیں اور اپوزیشن اتحاد کی 5 سیٹیں بنتی ہیں۔ اس طرح حکمراں اتحاد کو اپوزیشن اتحاد پر ایک سیٹ کی برتری حاصل ہے۔ ضمنی الیکشن کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں 155، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی 85، پاکستان پیپلزپارٹی کی 54، متحدہ مجلس عمل کی 16 اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کی 5 سیٹیں ہوگئی ہیں۔ جہاں تک پنجاب صوبائی اسمبلی کا تعلق ہے تو پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح ہے۔ پاکستان تحریک انصاف 181، پاکستان مسلم لیگ (ن) 168، پاکستان مسلم لیگ (ق) 10، پاکستان پیپلزپارٹی 7، راہ حق پارٹی 1 اور آزاد 4 ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان تحریک انصاف نے 15 سیٹیں اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 11 سیٹیں حاصل کیں۔ اس طرح پنجاب اسمبلی میں بھی پاکستان تحریک انصاف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) پر 4 سیٹوں کی برتری حاصل ہے۔
معمولی سی جیت پر مسلم لیگ (ن) والوں نے شور مچایا ہوا ہے کہ ’’بھاگ گئے تحریک انصاف والے، جانے نہیں دیں گے ان کو‘‘۔ نون لیگ کے پروپیگنڈا سیل نے کہنا شروع کیا ہوا ہے کہ تحریک انصاف کو شکست دے دی ہے۔ ہمیشہ کی طرح نون لیگ کے پروپیگنڈا سیل نے پاکستانی عوام کو مس گائیڈ کرنے کا پرانا وطیرہ اپنائے رکھا ہے۔ جیسے سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے جس میں دو ججوں نے نواز شریف کو ہمیشہ کے لئے نااہل قرار دیا اور تین ججوں نے کہا کہ مزید انکوائری کرلی جائے۔ اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ تھا کہ پانچ کے پانچ ججوں نے نواز شریف کو بے قصور قرار نہیں دیا تھا۔ صرف اتنی بات تھی کہ دو ججوں نے نااہل قرار دیا اور تین ججوں نے کچھ وقت مزید دے دیا تھا۔ اب نون لیگ کے میڈیا سیل نے کہا کہ نواز شریف کی جیت ہے کہ پانچ میں تین ججوں نے نواز شریف کو چھ ماہ کا مزید وقت دے دیا۔ پورے ملک میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ واہ سے پروپیگنڈا سیل والے اور واہ نون لیگ کے لیڈرو! پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جے آئی ٹی بنی اور اس نے تحقیق کی۔ تحقیق کی روشنی میں نیب عدالت نے نواز شریف کو منی ٹرائل نہ پیش کرنے یعنی پیسہ کس طرح پاکستان سے باہر گیا اور فلیٹس کیسے خریدے گئے۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفٖدر کو سزائے قید سنائی۔ کارروائی کے دوران نیب عدالت میں کسی وقت یہ بات ریمارکس میں آئی کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ نون لیگ میڈیا نے اس بات کو خوب پھیلایا کہ کرپشن تو ثابت نہیں ہوئی۔ جناب ملزم کو سزا ہوگئی۔ وہ قید میں بند تھے اور میڈیا کہہ رہا تھا کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ چلو یہ بات مان لیتے ہیں کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ وہ بھی نیب قانون کے مطابق نیب جس کے بھی آثاثے اس کی آمدنی سے زیادہ ہوں یہ اس شخص کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ اس نے یہ مال کس طرح کمایا۔ ثابت کرنا نیب کا کام نہیں بلکہ یہ اس شخص کا کام ہے جس کو نیب نے تحقیق کر کے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا، کہ جناب آپ ثابت کریں کہ آپ کی آمدنی سے زیادہ پیسہ کہاں سے آیا؟ ایسے نہیں چلے گا کہ جیسے آپ نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہا کہ جناب اسپیکر یہ ہیں وہ ذرائع اور اس کا ہمارے پاس ریکارڈ ہے۔ ہم نے پہلے دبئی میں مل لگائی۔ اس کو فروخت کر کے یو اے ای میں پراپرٹی میں پیسہ لگایا۔ پھر جدہ میں مل لگائی اسے فروخت کر ہم نے فلیٹ خریدے۔ جب عدالت نے پوچھا کہ ملک سے پیسہ کس طریقے سے گیا تو اس کا ثبوت پیش نہ کرسکے۔ بس ایک محمل سا خط قطری شہزادے سے حاصل کر کے عدالت میں پیش کیا۔ قطری شہزادے نے عدالت میں پیش ہو کر اس خط کی تصدیق بھی نہیں کی۔ خیر یہ باتیں ہم نے اس لئے بیان کی ہیں کہ اب پھر کہا جارہا ہے کہ نون لیگ نے تحریک انصاف کو شکست دے دی ہے جبکہ اوپر درج گئے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کا پلڑا پھر بھی بھاری ہے۔ گو کہ پیپلزپارٹی، ایم ایم اے اور ساری پوزیشن نے مل کر نمائندے کھڑے کئے تھے۔ زیادہ پروپیگنڈا عمران خان کی خالی سیٹوں پر جیتنے پر ہو رہا ہے۔ اس پر اگر آزادانہ تجزیہ کیا جائے تو تحریک انصاف نے اس پر بھی انصاف کیا ہے۔ وزیراعظم کی سیٹوں پر اپنے امیدواروں کو جیتوانے کے لئے حکومتی وزیروں نے کہیں بھی جا کر ترقیاتی پروگراموں کا اعلان نہیں کیا۔ نہ ہی حکومتی اداروں نے مداخلت کی۔ ویسے بھی سارے اداروں میں تیس سال حکومت کرنے والی نون لیگ کے لوگ اب بھی موجود ہیں۔ جو عمران خان حکومت میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ کیا اس سے پہلے ضمنی انتخابات میں اقتدار میں رہ کر نون لیگ نے ضمنی انتخابات جیتنے کے لئے حلقوں میں ترقیاتی پروگراموں کا اعلان نہیں کیا تھا، نوکریاں دینے کے وعدے نہیں کئے تھے، حکومت کی ساری مشینری حکومتی پارٹی کو جیتوانے کے ناجائز طریقے اختیار نہیں کرتے رہے؟ اس دفعہ کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے یہ سارے کام نہیں کئے، ہاں صرف حلقوں میں صحیح نمائندے کھڑے نہیں کئے، لاہور میں جس امیدوار کو کھڑا کیا گیا اس نے عام انتخابات میں نون لیگ سے ٹکٹ مانگا تھا۔ نہ ملنے پر پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوگیا۔ اس کے لئے تحریک انصاف کے کارکنوں نے بہتر طریقے سے انتخابی مہم نہیں چلائی۔ اسی طرح بنوں کی سیٹ بھی تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکل گئی۔ اسلام آباد اور کراچی کی سیٹ پر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے ہی امیدوار کامیاب ہوئے۔ اگر عمران خان کی خالی کی گئی سیٹوں کی بات کی جائے تو معاملہ برابر کا رہا۔ دو سیٹیں ہارنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اپوزشن نے ضمنی انتخابات میں مل کر امیدوار کھڑے کیے۔
صاحبو! اس بات میں ذرا برابر بھی شک نہیں کہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے انصاف کیا۔ مداخلت نہیں کی جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اچھا شگون ہے۔ ویسے بھی اگر سیاست دان ملک میں ای ووٹنگ کا طریقہ رائج کردیں تو انتخابی جھگڑوں سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ اس طرح جیتنے والی پارٹی کو کھل کر کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ عوام کی بھلائی کی طرف حکومت کو دھیان دینے کا وقت مل جاتا ہے۔ جیسے پہلے دو حکومتوں کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا پورا پورا موقع ملا، اسی طرح پی ٹی آئی حکومت کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہئے تاکہ وہ عوام کے بھلائی کے کام کرسکے۔ اس طرح عوام کو معلوم ہوجائے گا کہ پہلی دو حکومتوں نے ان کی صحیح خدمت کی یا نئی آنی والی حکومت کی کارکردگی صحیح ہے۔ اللہ ہمارے ملک کو سیاسی جھگڑوں سے پاک رکھے۔ آمین۔