نصرت مرزا
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جب سے قائم ہوئی ہے وہ صورتِ حال کو قابو کرنے کی بجائے اپنے بیانات و عمل سے اکھاڑنے کا تصور دے رہی ہے جو کسی بھی حکومت کے لئے سودمند نہیں ہوتا، ویسے بھی اپوزیشن کی سیاست اور حکمرانوں کی سیاست میں یہی فرق ہوتا ہے کہ مخالفت اپوزیشن کا کام ہے اور صورتِ حال سے نمٹنا حکمراں پارٹی کا فریضہ ہے۔ حکمراں جماعت کا کہنا یہ ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف مینڈیٹ لے کر آئی ہے اس لئے وہ اپوزیشن یا خود اُن کی جماعت میں کرپٹ لوگوں کو کرپشن پر سزا دلوا کر رہے گی۔ یہ درست قدم تو گردانا جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے پاس کوئی جامع منصوبہ موجود ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی گئی تو یہ سارا نظام بیٹھ جائے گا کیونکہ پاکستان میں اتنے برسوں تک کوئی نظام موجود نہیں تھا، قوانین موجود تھے مگر اُن پر عمل درآمد سرے سے نہیں ہوتا، اس لئے رائج الوقت قانون یہ تھا کہ جس طرح چاہے چلتے رہو یا سب چلتا ہے کہ مقولہ روبہ عمل تھا۔ اب اگر سارے ملک کو ایک نظام میں ڈھالنا ہے تو باقاعدہ ایسا نظام وضع کرنا پڑے گا جس میں لوگ خودبخود کھنچے چلے آئیں، گو فائلر اور نان فائلر یعنی جو لوگ ٹیکس کے نظام سے وابستہ ہیں اُن کو کچھ مراعات اور جو ٹیکس نظام سے باہر ہیں اُن کے لین دین میں رکاوٹ، اُن کی ملکیت، خرید و فروخت پر پابندی لاگو کردی گئی ہے، مگر اِس سلسلے میں مزید کئی کام کرنا پڑیں گے۔ دوسری طرف سیاسی پارٹیوں کے سربراہان اور سیاسی قائدین کافی امیر ہیں اُن کے ملک اور غیرممالک میں جائیدادیں ہیں، بینک بیلنس ہیں، رقوم کی منتقلی ہوتی رہی ہیں، تیسرے اس پر جب شور مچا تو ایک نئی صورتِ حال سامنے آئی کہ سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بے نامی اکاؤنٹ نکلنا شروع ہوگئے، جس کی تعداد 30 تک جا پہنچی ہے اور جن کی تنخواہ دس سے پندرہ ہزار روپے ہے اُن کے جعلی اکاؤنٹ بنوا کر کروڑوں اور اربوں روپے کی ہیرپھیر کی گئی۔ اخباری اطلاعات کے بموجب ایسی رقوم کی اِدھر سے اُدھر منتقلی سیاسی رشوت دینے کے لئے استعمال ہوئی، اس پر جب آصف علی زرداری کوچیئرمین پی پی پی سے پوچھا گیا کہ سندھ میں جو بے نامی یا ملازمین یا غریب لوگوں کے اکاؤنٹس سے پیسے نکل رہے ہیں کیا وہ آپ کے ہیں تو انہوں نے طنزاً کہا کہ اگر ایسا ہے تو آپ کو ثابت کرنا پڑے گا اور اُن کو اپنے دفاع کا اختیار ہے۔ یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ پیسے میں نے کس کے اکاؤنٹ میں ڈالے اور پھر نکالے۔ اس سے پہلے کئی واقعات سننے کو ملے تھے جن میں ایان علی کا نام زیادہ مشہور ہے کہ وہ ماڈل خاتون لاکھوں ڈالرز ملک سے باہر لے جاتی رہی ہے۔ یہ معاملات اپنی جگہ جو بات تشویش کا باعث ہے وہ یہ کہ حکمراں جماعت کے وزراء سخت بیانات دے رہے ہیں جس سے سیاسی فضا کشیدہ ہورہی ہے، جیسے یہ کہا جائے کہ بے جا نہ ہوگا کہ حکومت کے وزرا جان بوجھ کر ایسا کررہے ہین یا وہ اگر انجانے میں کررہے ہیں تو پھر غلطی ہوگی، اس لئے کہ وہ سارا نظام کو اکھاڑ رہے ہیں، آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں حکومت کو دوستی کا پیغام یہ کہہ کر دیا تھا کہ وہ پاکستان کے اِس مشکل وقت میں حکومت کی مدد کرنے کو تیار ہیں مگر اسمبلی میں بھی اس پیغام کا مثبت جواب نہیں دیا گیا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح زرداری صاحب بچ کر نکلنا چاہتے ہیں جبکہ حکومت اُن کی گرفتاری کے درپے ہے، جس کا ادراک زرداری صاحب کو ہے کہ وہ کہہ چکے ہیں کہ اُن کی گرفتاری کا جواز اور راستے تلاش کئے جارہے ہیں لیکن انہوں نے اس پر کسی قسم کی تشویش کا اظہار نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ اُن کے اور حکومت کے درمیان یہ کھیل چلتا رہتا ہے وہ اِس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ حکومت کے وزراء کا سخت اور بے احتیاطی سے کام لیتے ہوئے بیان بازی جان کر کرنے کا شبہ اس لئے ہوتا ہے کہ اُن کے پاس عوام کو بتلانے کے لئے اچھی خبر نہیں ہے اس لئے اُن کے خلاف باتیں کرکے عوام کو اپنے ساتھ جڑے رہنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات کافی خراب ہیں، سعودی عرب نے پاکستان کو چھ بلین ڈالرز کا معاشی پیکیج دیا اور اس کے بعد چین کے پانچ روزہ دورے میں وزیراعظم عمران خان کی ملاقاتیں اچھی ہوئی ہیں، اگرچہ چین سے پہلے ہی 6 بلین ڈالرز کی مالی پیکیج کی خبر لیک ہوئی تھی جس میں سے ڈیڑھ بلین ڈالرز امداد اور ڈیڑھ بلین ڈالرز کا قرضہ جبکہ تین بلین کی سرمایہ کاری شامل تھی مگر بعد میں چین کی ایما پر شاید ان اعدادوشمار کو دہرایا نہیں گیا بلکہ 6 نومبر 2018ء کو پاکستان کے وزیرخزانہ اسد عمر نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ وہ قرضوں کی ادائیگی کے بحران سے نکل آئے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ 12 ارب ڈالرز کا خلاء تھا جس کو ہم نے پُر کرلیا ہے اور سی پیک پر غلط فہمی دور کرنے کا موقع، اُن کا کہنا تھا کہ اب توجہ طویل المعیاد استحکام پر مرکوز ہے جس کے لئے پاکستان کو اپنی ایکسپورٹ بڑھانا ہوگی، چین موجودہ ایکسپورٹ کو دگنی کردی جائے گی، یہ ایک مثبت خبر ہے، یوں وزارت خزانہ کو بے یقینی کی صورتِ حال سے بھی پُراعتماد ہو کر کام کرنے کا موقع ملے گا۔ اسی لئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جنوری 2019ء میں ٹیکس نادہندگان پر توجہ دی جائے گی تاکہ پاکستان کے اندر سے ٹیکس کی ادائیگی کو بہتر بنا کر معیشت کو مستقل بنیادوں پر بہتر بنایا جاسکے۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان کا معاشی بحران انجام کو پہنچا، اب استحکام کی طرف اگر بڑھنا ہے تو اِس میں عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر مشکلات بڑھیں تو بے چینی بڑھے گی تاہم گمان یہ ہے کہ وزراء کی سخت بیان بازی اِس بے چینی میں اضافے کا باعث نہیں بے گی۔ مزید برآں کئی اور اہم معاملات ہیں جو بے چینی اضافہ کرسکتے ہیں ایک تو کراچی میں عدالت عظمیٰ کے حکم پر تجاوزارت کو ہٹایا یا گرایا جارہا ہے، کراچی کے علاقے صدر اور دیگر کئی علاقہ جات میں تجاوزات حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں مگر یہ جب قائم ہوئے تھے تو معاملہ لے اور دے کر نمٹا دیا گیا اب وہ لوگوں کی روزی کا ذریعہ بن گیا ہے، اُن کو ہٹانے سے تاجروں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہوجائے گی جس سے شکایات بڑھیں گی اور یہ شکایات سے نمٹنا صوبائی اور مرکزی حکومت کا کام ہے جس میں دانائی اور حکمت سے کام لینے کی سخت ضرورت ہے۔ ایک مذہبی معاملے نے پورے ملک میں افراتفری پیدا کردی تھی، اس کو اب کیسے ہینڈل کرنا ہے وہ بھی تدبر کا تقاضا کرتا ہے مگر سب سے اہم بات تو یہ ہے دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان اور رہنما اس وقت احتساب یا عتاب کی زد میں ہیں، اُن کے معاملے کو دبانے اور عوام میں یہ تاثر دینے کے لئے پاکستان تحریک انصاف کو یہ سخت بیانات کی ضرورت پڑی ہے۔ اگر وہ اسی حکمت عملی کو اپنائے رکھتی ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب تک صورتِ حال کو اس طرح چلائے گی۔ آصف علی زرداری نے پہلے سندھ میں ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور سندھ ایک حساس صوبہ ہے اور پی پی پی کے یہ رہنما کیا کچھڑی پکاتے ہیں اور اس سے نمٹنے کے لئے پی ٹی آئی تیار ہے اور اگر کئی معاملات گڈمڈ ہوگئے اور یکجا ہوگئے تو پھر کیا بنے گا، وہ بھی ایک سوال ہے۔ اکھٹے ہونے کی ایک کوشش مولانا فضل الرحمان کی تھی مگر وہ فیل ہوگئی لیکن سیاستداں مستقل بنیادوں اور ہمہ وقت اپنے بچاؤ اور سیاسی حکمت عملی کو بروئے کار لانے میں لگے رہتے ہیں، اس لئے موجودہ حکومت کو کوشش کرنا ہوگی کیہ صورتِ حال کو اپنے بیانات سے نہ بگاڑیں اور یہ یاد رکھے کہ وہ اب حکومت ہیں جہاں ذمہ داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔