ہما میر حسن
½ کیا عورت ہمیشہ دل گذار افسانوں اور رومانی غزلوں کا موجوع ہی رہے گی۔ مرد کو جنم دینے والی اس ہستی کو مرد کی بالاتری کا سامنا کیوں ہے؟ برابری سے خوفزدہ سماج عورت کو کچلنے کیلئے نت نئے، ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ آج کی سیاسی جماعتیں، حکومت، اداروں اور اسمبلیوں میں عورت صنفی امتیاز کا نمونہ نظر آئے گی، وہ ماں بیوی اور بیٹی تو بہتر ہوسکتی ہے۔ ایک سیاسی و سماجی ورکر، ایک ادارے کی سربراہ یا ملازم کیوں اچھی نہیں ہوسکتی؟ عورت کی شمولیت کے بغیر سماج ترقی نہیں کرسکتا، ایک طائرانہ نگاہ دوڑائیں تو ہمیں ہر جگہ عورت صنفی امتیاز کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے صنفی امتیاز کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کے اکثر ملکوں میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں خواتین کی ملازمت کی صورتحال بہتر ہونے کے باوجود دیگر شعبوں میں ملازمتوں اور تنخواہوں کے معاملے میں اب بھی عورتوں کے ساتھ صنفی امتیاز برتا جاتا ہے۔ یہ صورتحال ان ملکوں میں بھی پائی جاتی جہاں عام طور پر خواتین کی حصول تعلیم کیلئے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ 145 ممالک کے اعدادوشمار کے ذریعے مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فن لینڈ، ناروے اور آئس لینڈ نے مردوں اور خواتین کے درمیان فرق دور کرنے میں نمایاں پیش رفت کی ہے جبکہ پاکستان، چاڈ، یمن اور چلی اس حوالے سے بدترین ملکوں میں شامل ہیں۔ فہرست میں جرمنی کا 13واں اور امریکہ کا 16واں نمبر ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا فرمان ہے کہ ’’کوئی بھی قوم اس وقت تک حقیقی ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی جب تک خواتین شانہ بشانہ آپ کا ساتھ نہ دیں۔‘‘ عالمی بینک، اقوام متحدہ اور عالمی مانیٹرنگ اداروں نے معاشی ترقی کے حوالے سے اپنی حقیقی رپورٹس میں یہ اعتراف کیا ہے کہ خواتین کے بھرپور تعاون اور شرکت کے بغیر کوئی بھی ملک حقیقی ترقی کا خواب نہیں دیکھ سکتا بلکہ اس خواب کی تعبیر کیلئے قومی اداروں اور معاشروں سے صنفی امتیاز کا خاتمہ اور خواتین کا ان کے جائز اور قانونی حقوق کی فوری اور بلاتفریق فراہمی ازحد ضروری ہے، کیونکہ اقتصادی ترقی کے فروغ میں خواتین کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خواتین بطور بزنس لیڈرز، بطور صارف اور بطور خریدار سرمایہ دار ہر صورت میں اقتصادیات پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ جن معاشروں میں خواتین کو ترقی کے مساوی مواقع حاصل نہیں اور جہاں خواتین سے مساوی سلوک نہیں برتا جاتا وہاں اقتصادیات اور ترقی کا عمل شدید انحطاط کا شکار ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کچھ عرصہ قبل خواتین کو زبردست رکاوٹوں کا سامنا تھا، انجینئرنگ، ڈرائیونگ، سیکیورٹی اور دیگر شعبہ جات میں روزگار کے تمام مواقعوں پر مرد طبقے کا غلبہ اور قبضہ تھا لیکن خواتین نے محنت کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ہمت نہیں ہاری، انہوں نے ہمت اور حوصلے سے حالات کا مقابلہ کیا، خود کو تعلیم کے ہتھیار سے لیس کیا اور معاشرے کا فعال حصہ بنیں۔ افرادی قوت میں شامل ہونے کیلئے بھی خواتین نے سرتوڑ کوششیں کیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج خواتین نہ صرف اچھی انجینئر ہیں بلکہ ڈرائیونگ، سیکیورٹی اور مختلف شعبہ جات میں بھرپور اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔
پاکستان میں بھی حالات میں بتدریج تبدیلی آئی ہے، اب صرف خواتین کو تعلیم دلانا ہی اہم نہیں سمجھا جاتا بلکہ انہیں ورک فورس یعنی افرادی قوت بھی تسلیم کیا جاتا ہے تاہم صدافسوس ہے کہ جدید تقاضوں کے باوجود پنجاب حکومت کے اپنے شائع کردہ اعدادوشمار برائے سال 2015-16ء خواتین کے حقوق کی پسماندگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ حال ہی میں جاری ہونے والی ’’دا پنجاب کمیشن آن دا اسٹیٹس آف ویمن‘‘ کی رپورٹ کے مطابق مختلف شعبوں میں خواتین کی نمائندگی کی پوزیشن کچھ یوں رہی۔ گزشتہ سال پیدا ہونے والے بچوں میں 47 فیصد لڑکیاں پیدا ہوئیں اسی طرح 2014 اور 2015 میں بھی تقریباً نصف شرح میں لڑکیوں نے آنکھیں کھولیں۔ 2013ء کے الیکشن میں خواتین ووٹرز کی تعداد کُل آبادی کا 43 واں حصہ تھیں لیکن پھر بھی پنجاب اسمبلی میں مخصوص نشستیں ملا کر 371 نشستوں میں صرف 76 نشستوں پر خواتین ہیں جوکہ کُل تعداد کا 20.5 فیصد بنتا ہے۔ شعبہ صحت میں بھی خواتین کے حوالے سے اچھی نوید نہیں ملی۔ رپورٹ کے مطابق خواتین میں زندگی کی شرح 66 سال 9 مہینے ہے جبکہ دنیا میں صحت کے حوالے سے یہ شرح 73.8 سال ہے۔ خواتین کی نشوونما کے حوالے سے گزشتہ سال یہ صورتحال مزید ابتر ہوئی اور شرح 2.8 فیصد تک گرگئی۔ شعبہ تعلیم میں 2013-14ء میں خواتین کی شرح خواندگی بڑھتے ہوئے 55 فیصد تک جا پہنچی تھی جو 2014-15ء میں یہ شرح 70 فیصد پر آگئی جس کی بڑی وجہ ڈی جی خان، راجن پور اور مظفرگڑھ میں تعلیمی اداروں کی کمی ہے۔ زرعی شعبہ اور دفتری اْمور میں خواتین تیزی سے معیشت کی مضبوطی کا حصہ بن رہی ہیں۔ عدالتوں کی بات کی جائے تو پورے پنجاب میں ایک ہزار 703 ججز میں سے 260 خواتین ججز ہیں جوکہ 14.5 فیصد کی شرح بنتی ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے 60 ججوں میں صرف تین خواتین ججز ہیں، اسی طرح پورے پنجاب میں صرف تین پولیس اسٹیشن خواتین کے ہیں۔ 2015ء کی نسبت گزشتہ سال خواتین پر تشدد کے سات ہزار مقدمات رجسٹرڈ ہوئے جو گزشتہ سالوں کی نسبت بڑھ گئے۔ پنجاب کمیشن کی طرح اگر باقی صوبے بھی حقوق نسواں کی سالانہ رپورٹ بنائیں تو بنت حوا کے ساتھ ہونے والے صنفی امتیاز کی صورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔
طبقات میں بٹے ہمارے اس سماج کا رویہ عورت کے بارے میں انتہائی مختلف ہے۔ عورت کے آزادانہ بطور انسان پرورش نچلے درمیانے، اوسط درمیانے اور اوپر کے درمیانے طبقے اور اشرافیہ طبقے سب میں ہی مختلف ہے۔ نچلے طبقے میں چونکہ غربت اور صحت کے مسائل مستقل رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بچی کی پرورش بہتر طریقے سے ناممکن ہی نہیں۔ البتہ کسی قدر عورت کے ساتھ ظلم وزیادتی ان کے ہاں بھی موجود رہتی ہے۔ متوسط طبقے کے ثقافت اور تہذیب کے ٹھیکیدار اور ملکیت کی نفسیات کے حامل لوگوں کے ہاں زن، زر اور زمین ہی زندگی کی تین بنیادی حقیقتیں ہیں۔ لہٰذا ان کے ہاں عورت ایک شے ہوتی ہے اور اس کی تمام تر تربیت میں اس کو اسی طرح ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اپنی نفسیات کے ہاتھوں مجبور یہ طبقہ عورت کے ساتھ بطور انسان رویہ روا رکھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہوتا ہے۔ وہ اسے گوشت پوشت کا بنا انسان جس کے اپنے احساسات و جذبات ہوتے ہیں، سمجھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ یہ طبقہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ سماج کی اعلیٰ اقدار اور روایات کا امین ہے جو ان کی ثقافت، کلچر اور تہذیب ہے اور ا س میں عورت کا ایسا ہی مقام کا تعین ہے اور وہ ان روایات کے پاسدار ہیں۔ انہیں عورت کو اسی طرح ڈھالنا چاہئے۔ لہٰذا وہ عورت کی تربیت ہی اْسی انداز میں کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اشرافیہ طبقے کی خواتین کی تربیت بھی ’’انسان‘‘ کی طرح کم اور ’’شے‘‘ کی طرح زیادہ کی جاتی ہے۔ ہاں البتہ خواتین کو دوسری خواتین کا استحصال کرنے کیلئے آلہِ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا عورت ہی عورت کا استحصال کرتی ہے اور اس کو قطعاً غیراخلاقی اور ناانصافی نہیں گردانتی۔ حالانکہ کتابی دنیا، انسانی حقوق اور مذہب میں اْن کے اس استحصال کو ظلم اور زیادتی ہی سمجھا جاتا ہے۔ تضادات سے بھرے اس معاشرے میں عورت کے یہ تمام روپ موجود ہیں لیکن حقیقی عورت غائب ہے۔ کتابِ زیست، جس میں حقیقی خوشی، غم، راحت، آرام، تکلیف، زندگی اور موت کے تمام جذبات ہوتے ہیں، کو کھولنے کیلئے عورت کی ایک انسان کے طور پر پرورش کرنا ضروری ہے نہ کہ بطور ایک جنس اور شے کے۔ جب تک اس بنیادی نکتے کو نہیں سمجھا جاتا خواتین کے استحصال کو بدلا نہیں جاسکتا ہے۔
پاکستان کی کُل آبادی میں خواتین کا تناسب 52 فیصد کے قریب ہے مگر عملاً 3 سے 5 فیصد خواتین عملی زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں جبکہ باقی ماندہ خواتین ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں مردوں کے بالادست معاشرے میں ان کے زیر نگہبان ہونے کی وجہ سے غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ یہ غلامی معاشرتی جبر کی وجہ سے رضاکارانہ اور خاندانی نظام کو برقرار رکھنے کی عورت کے کندھوں پر ذمہ داری کا بھی شاخسانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر عورتیں خود مردوں کے شاونزم کو برقرار رکھنے میں برابر کی شریک ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے مڈل کلاس کے گھرانوں میں بیٹیوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق سوچ میں بڑی روشن خیال تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ وہ قدامت پرست گھرانے جو کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کی بیٹیاں ڈاکٹر یا استاد بننے کے علاوہ کوئی اور پروفیشن اختیار کرسکتی ہیں، آج ان کی بچیاں وکیل، انجینئر، اداکارائیں، ماڈل، فیشن ڈیزائنر، سیاستدان، ایئرفورس میں پائلٹ، سول سروس آفیسر، کرنل، میجر اور میڈیا میں اینکر پرسن کے طور پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہیں۔ آج پاکستان کے گھرانوں کی اکثریت کو اپنی بیٹیوں کے مخلوط تعلیمی اداروں میں اور مختلف دفاتر میں مردوں کے ساتھ کام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں رہا تاہم اب بھی جہاں خواتین مردوں سے بہتر لیڈر شپ یا منتظم یا تخلیقی صلاحیتوں والی ادیبہ، شاعرہ، مصورہ یا کھلاڑی دکھائی دیتی ہیں۔ وہیں اسے مردوں کی بالادست سوسائٹی میں صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ انسانی سماج کی اول صورت ماں اور دوسری سماج تھا اور بڑی اماں ہی بطور سردار سارے قبیلے کے نظام کو چلاتی تھیں۔ دنیا میں بھی جہاں عورت اور مرد میں برابری تسلیم کرلی گئی ہے وہاں سماج کا ارتقائی عمل بہت تیز ہے۔ مقبوضہ عورت والے سماجوں میں عورتوں میں سماجی شرمیلاپن، بذباتیت، جھجک اور احساس کمتری نسل درنسل وراثت میں منتقل ہوتی ہے۔ آج کے زمانے میں علم سیکھنے میں عورت کے ذہن میں مردوں کے مقابلے میں کوئی کمی نہیں لہٰذا اس سے خوفزدہ ہو کر ہم انہیں میڈیکل کالجوں، قومی اسمبلیوں، صوبائی اسمبلیوں اور سرکاری ملازمتوں میں صنفی امتیاز برتتے ہوئے زیادہ صلاحیتوں کے باوجود محض اس لئے آگے بڑھنے نہ دیں کہ وہ عورت ہے۔ یہ قرین انصاف کیسے ہوسکتا ہے؟ عورتیں میڈم کیوری کی طرح سائنسدان بھی ہوتی ہیں، ملکہ صبا، ملکہ الزبتھ اور رضیہ سلطانہ کی طرح حکمران بھی ہوتی ہیں اور مارگریٹ تھیچر، اندارگاندھی اور گولڈ امیئر کی طرح طاقتور وزیراعظم بھی ہوتی ہیں اور جون آف آرک کی طرح فوجوں کی سپریم کمانڈر بن کر مردوں سے بڑھ کر قوم کی نجات دہندہ بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں عورتوں کو زندگی کے اہم اور فیصلہ کن معاملات میں شمولیت سے باز رکھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی اکثریت کو مردوں نے اپنے تعصب اور تنگ ذہنیت اور محدود سوچ کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا کردیا ہے اور آج یہ احساس کمتری ہماری ثقافت اور تہذیب کو گھن بن کر چاٹ رہا ہے، حالانکہ آج عورت اور مرد زندگی کے ہر شعبے میں برابری کی سطح پر اپنا رول اس لئے بھی نبھا سکتے ہیں کہ ٹیکنالوجی نے جسمانی مشقت کو مشینی عمل میں بدل دیا ہے۔ اس خودکاری نے گھریلو فرائض سے فراغت اور اخراجات زندگی میں اضافے نے آج کی عورت کو مردوں کے غلبے والے معاشرے میں چاردیواری کے حصار سے باہر اچھال دیا ہے اور وہ فطری طور پر معاشرے کے ارتقا میں سماجی اور معاشی عمل میں ضم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ٹیکنالوجی ریمورٹ ایکشن، سوشل میڈیا اور فیس بک نے نئے عالمی اور نئے انسانی شعور کو جنم دیا ہے۔ انسانوں کے تنگ نظر زاویۂ نگاہ میں وسعتیں بھر دی ہیں لہٰذا آج پاکستان کی پڑھی لکھی عورت عمران خان، کم پڑھی لکھی عورت طاہر القادری کے دھرنوں میں نظام کی تبدیلی کا نعرہ بلند کررہی ہیں۔ خدا کرے کہ جن عورتوں کو ونی اور کاروکاری اور جائیدادوں کی تقسیم بچانے کیلئے جاگیردارانہ معاشرے میں قرآن سے بیاہ دیا جاتا ہے، وہ بھی سماجی تسخیر کے اس عمل میں باشعور اور سمجھدار عورتوں کے ہم رکاب بن جائیں۔ صنفی امتیاز کے خاتمے کیلئے سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ صنفی امتیاز کے خاتمے کیلئے قوانین بنائے، خواتین کو مردوں کے تناسب کے برابر اداروں میں ملازمتیں فراہم کرے اور دیگر اداروں کو بھی اس کا پابند بنائے۔ اسی حوالے سے علامہ اقبال کا کیا خوب کہنا تھا
وجودِ زند سے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں