اشتیاق بیگ
روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے گزشتہ دنوں اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں دلیرانہ بیان دے کر پوری امتِ مسلمہ کے دل جیت لئے۔ روسی صدر کا کہنا تھا کہ حضور اکرمؐ کی توہین آزادی اظہار رائے ہرگز نہیں بلکہ یہ مذہبی آزادی کی کھلی خلاف ورزی اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال فرانسیسی جریدے چارلی ایبڈو میں نبی کریمؐ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ایسے اقدامات انتہاپسندانہ انتقامی کارروائیوں کو جنم دیتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آزادی اظہار کی ایک حد ہوتی ہے اور ہمیں دوسروں کی مذہبی آزادی کی حدود کو پار نہیں کرنا چاہئے۔ فرانس اور دیگر یورپی ممالک کا نام لئے بغیر روسی صدر نے انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک بھی مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا احترام کریں۔ انہوں نے کہا کہ روس میں کئی مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں، ہمیں ایک دوسرے کی مذہبی آزادی اور روایات کا احترام کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 2018ء میں یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق اپنے فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی آزادی اظہار کی جائز حدوں سے تجاوز کرتی ہے۔
پیوٹن کا حالیہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یوکرین کے معاملے میں مغرب کے ساتھ روس کے تعلقات کشیدہ ہیں اور یہ پہلا موقع ہے جب کسی بڑی عالمی طاقت کے رہنما نے یورپ بالخصوص فرانس میں حضور اکرمؐ کی شان میں ہونے والی گستاخیوں کو کھلے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا اور پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کے خلاف آواز بلند کی۔ یوں وہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور دیگر مسلمان لیڈروں کے بعد پہلے غیرمسلم عالمی رہنماؤں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلامؐ اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز بلند کی۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ فرانسیسی میگزین چارلی ایبڈو وقتاً فوقتاً گستاخانہ خاکے شائع کرتا رہتا ہے اور گزشتہ سال مذکورہ میگزین نے پیغمبر اسلامؐ کے خاکے دوبارہ شائع کئے تھے اور ردِعمل کے طور پر پیرس میں مقیم پاکستانی نژاد نوجوان نے میگزین کے دفتر کے باہر کھڑے دو افراد کو چاقو کے وار کرکے شدید زخمی کردیا تھا جبکہ ایک اور واقعہ میں پیرس کے مضافات میں ہائی اسکول کے ٹیچر کا نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کرنے پر ایک مسلمان نوجوان نے سر تن سے جدا کردیا تھا جس پر فرانسیسی صدر نے ملعون ٹیچر کو ”قومی ہیرو“ قرار دیتے ہوئے قومی ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کیا تھا اور گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو آزادی اظہار رائے قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ فرانس خاکے بنانا نہیں چھوڑے گا اور اِن خاکوں کو عوامی مقامات پر لگایا جائے گا۔ فرانسیسی صدر کے اس بیان سے گستاخانہ خاکے بنانے والوں کی حوصلہ افزائی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی تھی۔ فرانسیسی صدر کے بیان پر ترکی کے صدر طیب اردوان نے اپنے ردعمل میں انہیں دماغی معائنے کا مشورہ دیا تھا۔
روسی صدر کے حالیہ بیان کو صرف امت مسلمہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ انہوں یہ بیان ایسے عالمی منظر نامے میں دیا ہے جب مختلف تہذیبوں اور مذہبوں کے درمیان تصادم کی صورتِ حال پیدا ہورہی ہے اور ردِعمل کے طور پر پیش آنے والے واقعات کو یورپ انتہاپسندی کا نام دے رہا ہے۔ اس سے قبل مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروع کئے جانے پر صرف اسلامی ممالک کے لیڈران ہی عالمی سطح پر آواز بلند کرتے تھے مگر یہ پہلا موقع ہے جب کسی غیرمسلم ملک روس، جو سپر پاور اور سلامتی کونسل کا سرگرم رکن ہے، کے صدر نے پیغمبر اسلامؐ اور مسلمانوں کے حق میں بیان دیا ہے، جسے روس کی نئی سرکاری حکمت عملی کے طور پر تسلیم کیا جارہا ہے۔
روسی صدر پیوٹن نے نبی کریمؐ کے بارے میں جو موقف پیش کیا، وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا موقف ہے۔ دنیا کے دو ارب مسلمان خوش ہیں کہ آج روسی صدر کی شکل میں دنیا میں ایک مضبوط آواز مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوگئی جس پر وہ اُن کے شکر گزار ہیں اور یہ رواداری پوری دنیا کو دکھانی چاہئے۔ اسلامی ممالک اور ان کی تنظیم او آئی سی کو چاہئے کہ وہ کھل کر روسی صدر کے بیان کی حوصلہ افزائی کریں۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ حضور اکرمؐ کی شان میں دلیرانہ بیان دینے پر پیوٹن کو پاکستان مدعو کیا جائے اور پاکستانی عوام ان کا فقید المثال استقبال کریں۔ وقت آگیا ہے کہ اس آواز میں چین کو بھی شامل کیا جائے اور او آئی سی، اقوام متحدہ پر زور دے کہ عالمی سطح پر جس طرح ہولوکاسٹ کی توہین کو جرم تصور کیا جاتا ہے، اسی طرح ایسے قوانین بنائے جن کی رو سے پیغمبر اسلامؐ یا قرآن پاک کی توہین عالمی جرم تصور کیا جائے۔