رانا اشتیاق احمد
شنگھائی تعاون تنظیم ایک یوریشیائی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون کی تنظیم ہے، جسے شنگھائی میں 2001ء میں چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماؤں نے قائم کیا۔ یہ تمام ممالک شنگھائی پانچ کے اراکین تھے سوائے ازبکستان کے جو اس میں 2001ء میں شامل ہوا۔ تب اس تنظیم کا نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔ 10 جولائی 2015ء کو اس میں بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان 2005ء سے شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر ملک تھا جو تنظیم کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا اور 2010ء میں پاکستان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے لئے درخواست دی گئی۔ تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان نے جولائی 2015ء میں اجلاس میں پاکستان کی درخواست کی منظوری دی اور پاکستان کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کے لئے طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا۔
پاکستان کی مستقل رکنیت
قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے 17 ویں سربراہی اجلاس کے موقع پر پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے حوالے سے ذمہ داریوں کی یادداشت پر دستخط کردیئے، جس کے بعد پاکستان تنظیم کا مستقل رکن بن گیا اور پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت دے دی گئی۔ پاکستان کی شمولیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد 8 ہوگئی ہے۔ قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس جوکہ 9 جون 2017ء منعقد ہوا، اس میں پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف نے بھی شرکت کی اور دوسرے ممالک کے سربراہان سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے اس دن کو پاکستان کے لئے تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج سے پاکستان مکمل رکن کی حیثیت سے تنظیم میں شامل ہورہا ہے۔ سربراہ اجلاس کی میزبانی پر قازقستان کے صدر اور عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا مکمل رکنیت کے لئے ایس سی او کے رکن ملکوں کی حمایت پر مشکور ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ہم نے تنظیم کے سربراہ اجلاس اور اس کے فورمز میں موثر شرکت کی ہے اور ایس سی او کے رکن ممالک کے ساتھ ہمارے گہرے تاریخی اور ثقافتی رشتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایس سی او کے چارٹر اور شنگھائی اسپرٹ پر دملدرآمد کے لئے پُرعزم ہے، ساتھ ہی انہوں نے تجویز پیش کی کہ ایس سی او رکن ملکوں کے درمیان اچھی ہمسائیگی کا آئندہ 5 سال کے لئے معاہدہ ہونا چاہئے۔
وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ ایس سی او مستقبل میں مختلف خطوں کے درمیان کلیدی رابطے کا ذریعہ بنے گا۔ وزیراعظم نواز شریف نے مزید کہا کہ اس تنظیم میں شمولیت اختیار کرکے پاکستان کو فخر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم سے بہت سی توقعات بھی وابسطہ ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ تنازعات کے بجائے ہمیں بطور رہنما اپنی آنے والی نسلوں میں امن اور ہم آہنگی کی میراث چھوڑنی چاہئے۔
ایس سی او کے ارکان کو سی پیک کی پیشکش
وزیراعظم نواز شریف نے مزید کہا کہ ہم سی پیک کے عظیم منصوبہ کی تکمیل کے لئے بڑھ چڑھ کر کام کررہے ہیں اور شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان ممالک بھی اس بے مثال منصوبے سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں اور ہم اس سلسلے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبران کے ساتھ مکمل تعاون مہیا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا بھی ذکر کیا اور مل کر آگے بڑھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اعلامیے کے مطابق پاکستان مبصر کی حیثیت سے تنظیم کی سرگرمیوں میں متحرک کردار ادا کررہا ہے جو شنگھائی اسپرٹ کا مظہر ہے۔ دفتر خارجہ سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان ایس او سی کے اراکین میں شامل تمام مضبوط معیشت اور اسٹرٹیجک اہمیت کے حامل ممالک کے ساتھ تاریخی اور ثقافتی رشتوں میں جڑا ہوا ہے۔ ایس او سی کی رکنیت سے پاکستان کو خطے کے مفادات، ترقی اور دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف تعاون میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کو مفاد پرست دوست ممالک سے ہٹ کر اپنے بل بوتے پر حکمت عملی اور خارجہ پالیسی بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
بھارت کی رکنیت
پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی ایس سی او کی مکمل رکنیت مل گئی ہے، پاکستان اور انڈیا کی کُل آبادی دُنیا کی آدھی آبادی کے قریب ہے۔ اس طرح دونوں ملکوں کی شمولیت سے ایس سی او سب سے بڑی علاقائی تنظیم بن جائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ بھارت کی بھی یہی پوزیشن ہوگی، دونوں ممالک مشترکہ ایکنڈے پر دہشت گردی کے خاتمے دوستانہ تعاون میں پیشرفت اور اپنے عوام کے سماجی اقتصادی مفادات کو مشترکہ شراکت داری کے تحت مل کر کام کرسکتے ہیں، پاکستان کو حالیہ برسوں کے دوران دُنیا بھر میں اس کے موقف اور خطے میں امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے قربانیاں دینے کی بنا پر وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ سعودی عرب کے موقع پر پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی جانے والی قربانیوں کا ذکر نہیں کیا گیا تھا جبکہ وزیراعظم نواز شریف کو خطاب کا موقع بھی نہیں ملا جبکہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کو تنہا کرنے اور کئی اسلامی ممالک کو قطر سے تعلقات ختم کرنے کے اعلان کے تناظر میں شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کی ان حالات میں کانفرنس میں شرکت بھی دونوں رہنماؤں کو ملاقات کا باعث بنی۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ہمیں ایس سی او پر مکمل اعتماد ہے کہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو آگے بڑھائے گا۔
پاکستان اور بھارت کی رکنیت کے متعلق پیشین گوئی چند روز قبل ہی ایک چینی اخبار نے کردی تھی، چائینیز اکیڈمی آف سوشل سائنس میں رشیا اور سینٹرل ایشیا اسٹڈیز کے سینئر محقق ژنگ گوانگ چنگ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اخبار کو بتایا کہ نئے ارکان تنظیم کو مزید توانا اور مستحکم بنائیں گے جس سے اس کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تنظیم کی کوئی بھی توسیع اس کے لئے دودھاری تلوار ثابت ہوسکتا ہے۔ تنظیم کے ارکان باہمی افہام و تفہیم اور ڈائیلاگ کے ذریعے معیشت، تعلیم اور ثقافت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں۔ چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی مشترکہ تعمیر میں تعاون کے کئی مواقع سامنے لائے گا۔ واضح رہے کہ چینی صدر اور قازقستان کے صدر نذر بایوف حالیہ برسوں کے دوران پندرہ مرتبہ ملاقات کر چکے ہیں۔ اس سال دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 25 ویں سالگرہ ہے۔ قازقستان نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر عملدرآمد کرنے پر مثبت کردار ادا کیا ہے، دونوں ممالک نے شاہراہ ریشم اقتصادی بیلٹ کے فریم ورک میں تعاون کو فروغ دینے کے لئے کئی دستاویزات پر دستخط کر رکھے ہیں جبکہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں پاکستان کی حیثیت بھی ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔ امید ہے کہ اس دو روزہ کانفرنس میں جس میں پاکستان اور بھارت پہلی بار بحیثیت مستقل رکن شرکت کریں گے اور یوں دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ چین کی قیادت میں شنگھائی تعاون تنظیم اپنے رکن ممالک کے درمیان باہمی ترقی اور تعاون کی شراکت داری میں غیرجانبدارانہ اور موثر کردار ادا کرنے کی وجہ سے بڑی تیزی سے مقبولیت اور اعتماد حاصل کررہی ہے۔ یہ ایک بڑا اور رکن ممالک کے لئے قابل عمل پلیٹ فارم بن چکا ہے تاکہ وہ امن کے لئے خدمات انجام دے سکیں اور سماجی و اقتصادی چیلنجوں کا مقابلہ باہمی مفادات کے لئے مل جل کرسکیں۔ چین نے ہمیشہ دوطرفہ تعلقات کو مذاکرات اور باہمی صلاح مشورے کے ذریعے حل کرنے کی حمایت کی ہے، جس میں مسئلہ کشمیر بھی سرفہرست ہے۔ وقت نے ایک بار پھر ان دونوں ممالک کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کریں کیونکہ تصادم سے گریز نہ صرف ان کے اپنے مفاد میں ہے بلکہ یہ وسیع پیمانے پر امن و سلامتی کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ موجودہ شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے پس منظر میں نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی خدمات بہتر مستقبل کے لئے بڑی امید ہیں۔ 9 جون 2017ء کو ہونے والے اجلاس میں چین کے صدر نے بھی آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔
ایس سی او میں پاکستانی رکنیت کی اہمیت
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ارکان کی تعداد میں اضافے سے تنظیم میں مختلف آراء کو تقویت ملے گی اور کوئی بھی اختلاف رابطوں اور مشاورت کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ پاکستان اور بھارت کی اس میں شمولیت سے تنظیم کے گلوبل اثرات اور نمائندگی کی نوعیت میں اضافہ ہوگا۔ دونوں ملکوں کی مکمل رکنیت سے ایس سی او کا جغرافیائی کوریج جنوبی ایشیا تک پھیلے گا۔ ڈاکٹر رسول بخش رئیس جوکہ بین الاقوامی امور کے متعلق تجزیہ پر مہارت رکھتے ہیں، نے ایس او سی میں نئے ممبران کی رکنیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت پاکستان کے لئے بہت ہی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کافی عرصہ سے یہ کوشش کررہا تھا کہ وہ شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بن جائے تاکہ روس، چین اور وسطی ایشیا سے تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جائے اور رابطوں کے لئے مواصلاتی نظام کو مضبوط بنانے کے لئے انفرااسٹرکچر تعمیر کیا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ممالک کی منڈیاں اگر آپس میں مربوط نہیں ہوں گی تو لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار نہیں ہوسکتے اور نہ ہی باہمی انحصار بڑھ سکے گا۔ لہٰذا یہ عمل انتہائی ضروری ہے اور اس طرح پاکستان کا شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر بننا بہت بڑی کامیابی ہے۔ ایک سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی طویل عرصے سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے اقتصادی روابط کو وسطی ایشیا تک بڑھائیں، ان کا پرانا خواب شنگھائی تعاون تنظیم میں رکنیت حاصل کرکے پورا ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا مقصد یہ ہے کہ علاقائی تعاون کو ہرممکن طریقوں سے بڑھایا جائے اور ان کے الفاظ کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر بننے کی حیثیت سے بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے اور ان کے درمیان دوریاں ختم ہوجائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا مقصد ہے کہ دہشت گردی اور فساد کو ختم کیا جائے اور بھارت اور پاکستان مل کر منصوبہ کریں اور مشترکہ طور پر فوجی مشقوں میں شریک ہوں۔ اس حکمت عملی کے تحت دہشت گردی کو ختم کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل ہوگی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو بھی شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت حاصل کرکے بہت زیادہ کامیابی ملی ہے۔ اس طرح بھارت افغانستان اور پاکستان کے ذریعے وسطی ایشیا اور روس کے ساتھ مل سکتا ہے۔ ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن بننے کی حیثیت سے پاکستانی حالات میں بہت بہتری واقع ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ فوجی مشقوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت پاکستان، چین، روس اور دیگر ممالک آپس میں مل کر خطے کی اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ امن وامان کی صورتحال کو کنٹرول کرسکتے ہیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے انتہائی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ چین سمیت شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام اراکان یہی امید کررہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر مل جل کر چلیں گے، لیکن ایک مشہور کہاوت ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ پاکستان نے تو کئی مرتبہ عملی طور پر کوشش کی ہے کہ امن قائم کرنے کی خاطر بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کئے جائیں اور تمام تر مسائل کا حل مذاکرات کی میز پر نکلا جائے مگر بھارت نے کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور ہمیشہ حالات بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ لہٰذا ہم بھارت سے خیر کی امید نہیں کرسکتے۔ اور یہ کیسے ممکن ہوگا کہ پاکستان اور بھارت باہمی طور پر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فوجی مشقیں کریں۔ بھارت تو ہمیشہ افغانستان سے مل کر اور ایران کے ساتھ سازباز کرکے پاکستان کو سنگین گرز کے نقصانات پہنچائے ہیں۔ ایسی مکروہ سازشوں کے علاوہ آئے دن بھارت پاکستانی حدود میں دراندازی کرتا ہے اور رہائشی آبادیوں پر بے دریغ فائرنگ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں کئی بار جانی نقصان ہوا ہے اور عالمی ادارے بھی کئی بار یہ رپورٹ دے چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ کلبھوشن کا اعتراف جرم بھی بھارت کی جارحیت کی ایک کڑی ہے بلکہ اگر سیدھی بات کی جائے تو کردار کے لحاظ سے بھارت بھی دہشت گردی کی جڑوں میں سے ایک جڑ ہے۔ ایسے سیاق و سباق میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کا امید کرنا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوریاں ختم ہوجائیں گی یا یہ کہنا اور سوچنا کہ بھارت مخلص ہو کر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کام کرے گا یا ساتھ دے گا تو یہ سب بے معنی محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کو مکمل رکنیت ملنے کو ایک اہم کامیابی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایس سی او میں شمولیت اختیار کرنے پاکستان کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد ملے گی۔ ان کے مطابق پاکستان کے مسائل سارک کے ذریعے نہیں بلکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے حل ہوں گے۔ اب تقریباً 16 برس بعد پاکستان اور بھارت بھی شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت حاصل کرچکے ہیں اور شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کی تعداد آٹھ ہے اور ہم امید کرتے ہیں یہ آٹھ ارکان مل کر مثبت سمت میں مثبت انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے اور اقتصادی ترقی کا باعث بنیں گے۔
وزیراعظم کی بھارتی ہم منصب اور روسی صدر سے ملاقاتیں
قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں پاک بھارت وزرائے اعظم کا آمنا سامنا ہوا۔ وزیراعظم نواز شریف اور نریندر مودی نے لیڈرز لاؤنج میں ہاتھ ملایا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستانی ہم منصب کی والدہ اور اہل خانہ کا احوال دریافت کیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان دسمبر 2015ء کے بعد یہ پہلی ملاقات تھی۔ پاکستان اور بھارت دونوں شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل رکن بن گئے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خطاب کے دوران مودی نے پاکستان کے لئے کسی نیک خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ دونوں رہنما مصافحہ کرتے ہوئے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ چونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں اور خاص طور پر کشمیر میں ’’لائن آف کنٹرول‘‘ پر آئے روز دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان فائرنگ و گولی باری کے تبادلے کے واقعات ہوتے آرہے ہیں جس سے دونوں جانب جانی نقصان ہوا ہے۔ رواں سال اپریل میں بھارت کی ایک معروف کاروباری شخصیت سجن جندل نے نجی حیثیت میں پاکستان کا دورہ کیا اور وزیراعظم نواز شریف سے اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ اس کا مقصد شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات کی راہ ہموار کرتا تھا۔ لیکن حکومت میں شامل عہدیداروں نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات کا دوطرفہ تعلقات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دوسری طرف شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں وزیراعظم پاکستان اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی بھی دوطرفہ ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں دونوں ملکوں میں بڑھتے ہوئے تجارتی روابط پر اطمینان کا اظہار کیا گیا اور ان روابط کو مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
وزیراعظم نواز شریف کی افغان صدر سے ملاقات
پاکستان اور افغانستان میں حالیہ کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں افغان صدر اور وزیراعظم محمد نواز شریف کی بھی ملاقات ہوئی جس میں دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائیوں کی تصدیق کے لئے ایک نظام کی تشکیل پر اتفاق ہوا۔ وزیراعظم نواز شریف اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کے درمیان یہ ملاقات 10 جون کو قزاقستان کے شہر آستانہ میں شنگھائی تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں ہوئی۔ اس ملاقات میں اس بات پر بھی اتفاق رائے ہوا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے ایک دوسرے ملک کو آگاہ رکھنے کے باہمی رابطوں اور چہار ملکی رابطہ گروپ کو استعمال کیا جائے گا۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے اور اس کے لئے تعاون فراہم کرتا رہے گا۔ یاد رہے کہ کابل میں حالیہ دہشت گردی کی واردات کے بعد پاکستان کو ایک مرتبہ پھر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، ڈاکٹر اشرف غنی کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ نواز شریف اور ڈاکٹر اشرف غنی کے درمیان یہ ملاقات ایک گھنٹہ جاری رہی اور پاکستان کی طرف سے اس ملاقات میں وزیراعظم پاکستان کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے بھی شرکت کی۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق نواز شریف نے افغانستان میں پاکستانی طالبان کی موجودگی کے بارے میں بھی اپنی تشویش سے افغان صدر کو ایک مرتبہ پھر آگاہ کیا۔ خطے میں دہشت گردی کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی دلچسپی کے امور جن میں پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا معاملہ بھی زیربحث رہا۔ نواز شریف نے افغان صدر کو یقین دلایا کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے اندر دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دے گا۔