تنویر قیصر شاہد
چین پاکستان اکنامک کوریڈور، جسے عرفِ عام میں ’’سی پیک‘‘ (سی پیک) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، میں چینی سرمایہ کاری 60 ارب ڈالر کے ہندسے کو چھْو رہی ہے۔ پاکستان کی پچھلی سات عشروں کی تاریخ میں دنیا کے کسی ملک نے ہمارے ہاں اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کی۔ گویا کہا جاسکتا ہے کہ چین نے پاکستان کے ساتھ گزشتہ سات دہائیوں پر پھیلی دوستی اور اعتماد کی بنیاد پر ’’سی پیک‘‘ کے نام سے پاکستان میں بیک وقت 60 ارب ڈالر کا سرمایہ لگانے کا فیصلہ کیا، چنانچہ پاکستان کے نکتہ نظر سے اسے بجا طور پر صرف گیم چینجرہی نہیں بلکہ فیٹ چینجر بھی کہا جارہا ہے۔
اور یہ بات کسی کو پسند آئے یا نہیں، لیکن یہ تاریخی واقعہ ہے کہ اِس عظیم منصوبے کا سہرا جناب محمد نوازشریف کے سر بندھتا ہے۔ یقیناً اس میں جناب شہباز شریف کی بھی برابر کی توانائیاں صَرف ہْوئی ہیں۔ جناب احسن اقبال کی بھاگ دوڑ بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ سیاسی حاسدین اور مخالفین کی طرف سے ’’سی پیک‘‘ کے پس منظر میں دونوں شریف برادران پر چند ایک الزامات بھی لگے ہیں لیکن اِس کے باوصف پاکستان کامیابیوں سے ہمکنار ہو کر رہے گا۔ انشا اللہ۔
رابطہ کاری میں آسانیاں پیدا ہوں گی، توانائی کے میدان میں وطنِ عزیز کو جو سنگین مسائل درپیش ہیں اْن کا خاتمہ ہوگا اور ملک بھر کا انفرااسٹرکچر جدید خطوط پر استوار ہوسکے گا۔ ’’سی پیک‘‘ کے پیش منظر اور پس منظر میں ہمیں اچھے خواب دکھائے گئے ہیں۔ ہم سب ان خوابوں کی مثبت تعبیر کے منتظر ہیں۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ہماری عسکری اور سیاسی قیادتیں اس معاملے میں ایک پیج پر ہیں۔ متعلقہ فریقین ہاتھوں میں ہاتھ دے کر آگے بڑھنے اور طے شدہ وقت میں ایک مشترکہ منزل پر پہنچنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہمارے خواب اور منصوبے جتنے بڑے ہیں، ہمارے دشمن بھی اْتنے ہی بڑے اور منصوبہ ساز ہیں۔ ان دشمنوں میں پرائے تو شامل ہیں ہی، بدقسمتی سے چند ایک ’’اپنے‘‘ بھی ہیں۔ یہ مگر کوئی غیرحقیقی اور غیرفطری بات نہیں ہے۔ جہاں جہاں مالی مفادات ہوں گے، وہاں وہاں ایسے تصادم اور سازشیں جنم لیتی رہی ہیں اور آئندہ بھی جنم لیتی رہیں گی۔ ہمارا مگر خاص امتحان یہ ہے کہ ہم متحد اور متفق ہو کر ’’سی پیک‘‘ کے دشمنوں کو کیسے مات دے سکتے ہیں؟
معاندینِ پاکستان کی، سی پیک کے ریفرنس میں، پاکستان کے خلاف جھوٹ اور کذب پر مبنی بساط کو ہم مل کر کیسے اْلٹ سکتے ہیں؟ یعنی تْو خنجر آزما، ہم جگر آزمائیں۔ یہ مقابلے کی دنیا ہے۔ کمزور پر کوئی ترس نہیں کھاتا۔ یہاں وہی زندہ رہتا ہے جس میں زندہ رہنے کی رمق باقی ہے اور جو اپنے اندر مخالف کے مقابل مزاحمت کی ہمت بھی رکھتا ہے: ’’ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ، پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے۔‘‘ لازم ہے کہ ہم اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر بھی یقین رکھیں۔ قوی امید ہے کہ ہمارے خفیہ اداروں کے جملہ وابستگان بھی ’’سی پیک‘‘ کے مختلف النوع دشمنوں پر ایسی کڑی نگاہ رکھیں گے کہ قوم کو کسی مقام پر اْن سے شکوہ کرنے کا موقع نہ ملے۔
ہمارے اور ’’سی پیک‘‘ کے دشمن بخوبی جانتے ہیں کہ اگر 60 ارب ڈالر کا یہ ترقیاتی منصوبہ کامیابی سے تمام منازل اور زینے طے کر گیا تو پاکستان ایک طاقتور علاقائی کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے گا، چنانچہ معاندینِ پاکستان کی کوششیں ہیں کہ ترقی کی جانب جاتے پاکستان کے راستے مسدود کر دیئے جائیں۔ اس مقصد کے لئے ’’سی پیک‘‘ کے مخالفین میدان میں ہیں اور اپنے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں۔ ان مخالفین کے چہرے اتنے عیاں اور جانے پہچانے ہیں کہ ہمیں ان کے نام بھی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہی میں سے ایک نے چھاتی بجاتے ہْوئے اعلان کیا تھا کہ ’’ہم پاکستان کو دنیا کی قوموں میں اتنا تنہا کردیں گے کہ یہ سی پیک کی تکمیل کا خواب بھول جائے گا۔‘‘
اتنا تکبّر!! ہمارے ان دشمنوں نے ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر محاذ کھولے ہیں۔ ایل او سی کے اِس پار ہمارے سیکڑوں شہریوں کا خون کیا ہے۔ ہمارے سب سے بڑے صوبے، جہاں گوادرکے مقام پر ’’سی پیک‘‘ کو اختتام پذیر ہونا ہے، میں انارکی اور بدامنی پیدا کرنے کی منصوبہ بندیاں بروئے کار لائی گئی ہیں۔ ہمارے دشمنوں نے اس صوبے کے خلاف برطانیہ اور جنیوا میں اشتہارات اور بینروں کا سہارا لے کر غلط فہمیاں پھیلانے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔
مقصد فقط یہی تھا کہ ’’سی پیک‘‘ کا تیزی سے آگے بڑھتا راستہ رْک جائے۔ اِسی سلسلے میں ایک نئی شیطانی مہم بروئے کار ہے۔ پاکستان کے ایک سیاسی ادارے کا نام لے کر کہا جا رہا ہے کہ ’’گوادر کی بندرگاہ سے ہونے والی آمدنی کا 91 فیصد حصہ اگلے چالیس برسوں تک چین کو ملتا رہے گا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ہمارے میڈیا میں یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ ’’چین نے گوادر میں چینی کرنسی رائج کرنے کے لئے پاکستان سے درخواست کی ہے۔‘‘ اِسے مسترد کردیا گیا۔
یہ بیہودہ خبر بھی زیرگردش ہے کہ ڈھائی کروڑ چینی شہری بلوچستان میں بسائے جانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ یا جیسا کہ 5 دسمبر 2017ء کو ایک انگریزی معاصر نے یہ خبر شائع کی کہ ’’چین نے سی پیک کے تحت بننے والی تین سڑکوں (کْل لمبائی 456 کلومیٹر) کے فنڈز (ایک کھرب روپے) عارضی طور پر روک لئے ہیں۔‘‘ آخر ان خبروں کو پھیلانے کا مقصد کیا ہے؟ یہ کون پھیلارہا ہے؟ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ چین کے خلاف اتنی بے بنیاد غلط فہمیاں پھیلا دی جائیں کہ ’’سی پیک‘‘ کے راستے میں پہاڑ کھڑے ہوجائیں۔
بِلاشبہ ’’سی پیک‘‘ کا راستہ دشواریوں اور کانٹوں بھرا ہے۔ قدم قدم پر آزمائش۔ ان کانٹوں کو کامیابی سے چْننے اور دشواریوں کو عبور کرنے میں ہی ہماری قومی کامیابی ہے۔ ’’سی پیک‘‘ کے راستے کی تعمیر میں اب تک ہمارے کئی سویلین اور فوجی جوان شہادتیں پا چکے ہیں۔ کسی کو ان کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہے لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق، دو درجن سے زائد ہوچکے ہیں۔ چین کو بھی ہماری ان شہادتوں کا بخوبی علم ہے کہ چین کے اپنے کئی شہری اور انجینئرز بھی اِسی راہ میں جانیں نچھاور کر چکے ہیں۔ دشمنوں کی توقعات مگر پوری نہیں ہوسکی ہیں کہ پاکستان اور چین اب بھی ہمقدم اور ہمنوا ہیں۔
ضرورت مگر اِس امر کی بھی ہے کہ پاکستان میں پندرہ ہزار سے زائد جو چینی کارکنان مختلف پروجیکٹس پر کام کررہے ہیں، اْن کے تحفظ کے لئے ’’نیکٹا‘‘ کو بھی بروئے کار آنا چاہئے۔ اِس کے علاوہ ’’سی پیک‘‘ کے تمام منصوبوں اور ان پر مامور چینی انجینئرز کی حفاظت کے لئے مبینہ طور پر سیکورٹی فورسز کے جن خصوصی دستوں کی تعیناتی کا اعلان کیا جا چکا ہے، انہیں بھی سامنے لایا جائے تاکہ دشمنانِ ’’سی پیک‘‘ کو بھی معلوم ہوسکے کہ اْن کی سازشوں کا کامیاب ہونا اتنا آسان اور سہل نہیں ہے۔ وہ ہزاروں چینی کارکنان جو ’’سی پیک‘‘ کے تحت پاکستان بھر میں کام کررہے ہیں، وہ ثقافتی اور اپنے لائف اسٹائل کی بنیاد پر پاکستانی عوام سے بالکل ہی الگ تھلگ ہیں۔
ان چینیوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے، چنانچہ پاکستانی عوام اور چینی کارکنان کے درمیان جو مختلف النوع ’’خلیج‘‘ حائل ہے، ہوسکتا ہے کہ پاکستانی اور چینی نوجوان وفود کے بکثرت باہمی تبادلے ہوں۔ ایک دوسرے کی چنیدہ فلموں کو سینماؤں میں دکھایا جائے۔ ہماری اور چینی لائبریریوں میں پاکستان اور چین کے جدید و کلاسیکل ادب پر مشتمل اچھی اچھی کتابیں رکھی جائیں تاکہ دونوں ممالک کے متعلقہ افراد ایک دوسرے کو بخوبی سمجھ سکیں۔ ’’پیمرا‘‘ کو بھی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں تاکہ الیکٹرانک میڈیا پر ’’سی پیک‘‘ کے خلاف کوئی بے بنیاد اور منفی بات نشر نہ ہوسکے۔ ایسا ہو جائے تو ’’سی پیک‘‘ کے خلاف دشمنوں کا ہر ممکنہ راستہ روکا جاسکتا ہے۔