Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سی پیک کہانی۔۔ امریکی دیوالی

چین نے سب سے زیادہ یہودی مصنوعات کی عالمی منڈی کو متاثر کیا ہے، سی پیک عالمی تجارتی شہ رگ ہے جو گوادر سے شروع ہوتی ہے اور خلیج عرب سے گزرتی یعنی یمن بحر اوقیانوس اور بحر احمر سے گزرتی یورپ اور امریکا تک پہنچتی ہے

پروفیسر یوسف عرفان

امریکا نے بھارت کی طرح سی پیک کی کھل کر مخالفت شروع کردی۔ امریکا کا موقف ہے کہ سی پیک متنازع علاقے سے گزرتا ہے۔ لہٰذا سی پیک پائیدار اور محفوظ راہداری نہیں۔ اہل علم اور اہل نظر کے نزدیک امریکا مخالفت غیرمتوقع نہیں۔ سی پیک کی اہمیت اس حقیقت سے لگائی جا سکتی ہے کہ امریکا نے پاک افغان ٹریڈ ٹرانزٹ معاہدے کو صدی کی اہم ترین کامیابی قرار دیا تھا۔ امریکا کے نزدیک متنازع علاقے اور راستے آزاد کشمیر بشمول گلگت بلتستان ہیں۔ دریں تناظر امریکی بیان ’’تاریخی غلطی‘‘ نہیں بلکہ تاریخ ساز پالیسی کا اعلان ہے۔ امریکی فکر و عمل کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ اس نے سی پیک میں ’’من مانی شرکت اور مداخلت‘‘ کے لئے خطے میں سازی عمل اور جاسوسی آپریشنل نیٹ ورک اس حد تک مکمل کر رکھا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی اسیری اور ڈرامائی رہائی کے دورانیہ میں کہا تھا کہ اب ہمیں پاکستان کے اندر امریکی اہداف کے لئے فو ج اور آئی ایس آئی سے پیشگی اجازت اور معلوماتی شراکت کی ضرورت نہیں رہی۔ اس میں شک نہیں کہ انصاف اندھا یعنی غیرجانبدار ہوتا ہے مگر منصف اندھے نہیں ہوتے۔ اہم قومی عدالتوں کو فیصلوں سے پہلے حالات، واقعات اور اثرات کا بھی بھرپور جائزہ لینا چاہئے۔ 27 جولائی 2017ء سے پہلے میڈیا کاری کے ذریعے خیالی پیالی میں طوفان بپا کیا گیا تھا۔ ملک ایک جہاندیدہ قومی اور بین الاقوامی شخصیت کے زیرحکمرانی ترقی اور استحکام کا سفر بخوبی طے کر رہا تھا۔ ’’نااہل وزیراعظم‘‘ کے دور میں سی پیک پر تیزی سے کام ہورہا تھا۔ جب امریکی ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر اور افغانستان پر نخریلی عدم توجہ کا اظہار کیا تو چین نے کشمیر اور افغانستان جیسے گمبھیر مسائل پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی آفر دے دی تھی۔ پاک چین تجارتی دوستی کا سفر پاک چین مشترکہ دفاعی محاذمیں ڈھل جاتا ہے تو خطے کو ایک نیا مضبوط اور منظم بلاک میسر آجاتا جو خطے میں امریکی اور بھارتی موجودگی کا بہترین متبادل ہوتا۔ مگر امریکا کو اتنی جلدی پڑی کہ اس نے پاناما پیپرز میں نام نہ ہونے کے باوجود موجود اور منتخب وزیراعظم کو مزید آٹھ ماہ حکومت نہیں کرنے دی۔
سی پیک کی کہانی پرانی ہے۔ زار روس کی تمنا تھی کہ گرم پانیوں (کراچی، گوادر وغیرہ) تک رسائی ہو۔ مگر 1857ء میں برطانیہ ہندوستان پر قابض ہوگیا۔ اشتراکی روس کی تمنا بھی گرم پانیوں کا حصول تھا۔ جس کے لئے روس نے 27 دسمبر 1979ء کی شب افغانستان پر قبضہ کیا۔ روس کی استعماری دہشت سے ساری دنیا لرزہ براندام تھی۔ عالمی طاقتوں اور اداروں نے جنرل ضیاء الحق کو روس کی ذیلی ریاست بن کر وجود بچانے کا مشورہ دیا جو ضیاء الحق نے نہیں مانا۔ آج امریکا مذکورہ گرم پانیوں یعنی سی پیک پر غالب شرکت، مداخلت اور تسلط کے لئے کوشاں ہے۔ امریکی نیو ورلڈ آرڈر کا یہی مقصود ہے اور دہشت گردی کی جنگ اسی مقصود کے حصول کا ذریعہ ہے۔
یاد رہے مغربی استعمار، روسی اشتراکیت اور امریکی سرمایہ داریت یہودی کارستانیاں ہیں اور اب یہودی اسرائیلی استعمار کے لئے مزید سازشی جال پھیلا رہا ہے۔ چین نے سب سے زیادہ یہودی مصنوعات کی عالمی منڈی کو متاثر کیا ہے۔ سی پیک عالمی تجارتی شہ رگ ہے جو گوادر سے شروع ہوتی ہے اور خلیج عرب سے گزرتی یعنی یمن بحر اوقیانوس اور بحر احمر سے گزرتی یورپ اور امریکا تک پہنچتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ پس منظر میں یہودی بے تعلق نہیں رہ سکتا۔ اس ضمن میں یہودی کے فوری اہداف درج ذیل ہیں۔ پہلا ہدف سی پیک کی مخالفت اور دوسرا ہدف جنرل پرویز مشرف کی ’’تھرڈ آپشن‘‘ کے تحت حل نکالنا ہے۔ تھرڈ آپشن سے پہلے مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے برائے الحاق پاکستان یا بھارت تھا۔ اب کشمیری عوام کی جمہوری رائے کے مطابق خودمختارکشمیر بھی ہے۔ غیور قبائلی عوام نے آزاد کشمیر بشمول گلگت بلتستان تسخیر کر کے حکومت پاکستان کے حوالے کیا تھا اور حکومت پاکستان کے قادیانی وزیرخارجہ ظفر اللہ چوہدری نے آزاد کشمیر کے مفتوحہ علاقوں کو لاہور، پشاور، کوئٹہ، کراچی کی طرح پاکستان کا حصہ نہیں بنایا۔ بلکہ ان کی متنازع حیثیت بحال رکھی۔ جس کی بنیا د پر آج امریکا بہادر فرما رہا ہے کہ سی پیک متنازع علاقے سے گزرتا ہے۔ لہٰذا پہلے اس کا فیصلہ ہونا چاہے۔
کشمیر کا مسئلہ بھارت، امریکا اور اسرائیل کی مرضی کے مطابق طے ہونے کا سفر شروع ہونا ہے۔ اس ضمن میں بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ میں طے ہے کہ آزاد کشمیر کا موجودہ علاقہ اقوام متحدہ کے حوالے کیا جائے اور بھارت سری نگر یا جموں کا کچھ علاقہ اقوام متحدہ کے حوالے کرے گا۔ اسرائیلی دستاویزات میں سری نگر اسرائیلی استعمار کا مجوزہ ریموٹ کنٹرول دارالحکومت ہے۔ بھارت نے مذکورہ عالمی طاقتوں کے تعاون سے گلگت دراس روڈ پہلے ہی بنا لی ہے جو کارگل کو گلگت سے ملاتی ہے۔ یہی وہ روڈ ہے جو بھارت کا چندی گڑھ پنجاب تک کا سی پیک ہے۔ اگر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر متنازع علاقے کی بنیاد پر امریکا متحدہ کے حوالے ہوجاتے ہیں تو پاکستان کا سی پیک امریکی، اسرائیلی اور بھارتی گٹھ جوڑ کی نذر ہوجائے گا۔
سی پیک عالمی تجارت کی جان ہے۔ سی پیک کی نسبت نہر سوئز کی کوئی حیثیت نہیں ہے مگر اس کی معمولی تجارتی اہمیت بھی تاحال دشمنوں کو گوارا نہیں۔ لہٰذا مصر اب تک عالمی طاقتوں کی محاذ آرائی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ پاکستان کے لئے بھی راستہ آسان نہیں۔ سی پیک پاکستان کی سلامتی کے مطابق ضرور بنے گا۔ مگر یہ راستہ کٹھن اور دشوار ہے۔ البتہ اگر پاک چین تجارتی اور دفاعی معاہدے سابق وزیراعظم نوازشریف کے دور میں عملی شکل اختیار کر لیتے تو آج حالات مختلف ہوتے۔ کیونکہ پاک چین دفاعی بلاک مضبوط ہوتا اور امریکا دیوانہ بن کر سی پیک پر حملہ آور نہ ہوتا۔ پاک چین دفاعی بلاک یقیناً غیور افغان اور کشمیری مزاحمتی قوتوں کو بھی قومی اور عالمی دھارے (مین اسٹریم) میں شامل کیا جاتا۔ اور انہی مزاحمتی قوتوں کی شمولیت کی وجہ سے علاقہ کی ترقی، خوشحالی اور خوشی دوبالا ہوجاتی۔ اور جنوبی ایشیا میں امن قائم بھی ہوتا اور پائیدار بھی رہتا۔ اس وقت پاک چین دوستی بھی منجدھار میں کھڑی ہے اور پاک چین دفاعی محاذ بھی ادھورا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے نمائندہ برائے چین اس تندہی سے کام نہ کرسکے جو کرنا چاہئے تھا۔ پاکستان کے نمائندہ صحیح کام کرتے تو برکس اور برما میں پاک چین تنازعات جنم نہ لیتے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اس وقت پاکستان کے اردگرد امریکی، اسرائیلی اور بھارتی سازشوں کے مزید سائے منڈلا رہے ہیں اللہ ہمیں ان سے محفوظ رکھے اور دوراندیشی اور دانشمندی کا راستہ اپنانے کی توفیق دے۔ واللہ اعلم باالصواب۔

مطلقہ خبریں