Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سی پیک پاکستان کو نئے قالب میں ڈھال سکتا ہے

حسن اسلم شاد
پاکستان عمیق تضادات کی حامل سرزمین ہے۔ اس کی 22 کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی مختلف نسلی گروہوں کا مجموعہ ہے جنہیں ایک ملک کی صورت یکجا کرنا دشوار ہے۔ یہ ایک سال میں چار موسموں کے بدلتے رنگوں کا نگر بھی ہے۔ یہاں دنیا کے سب سے اونچے، پُرشکوہ اور سب سے سحر انگیز پہاڑ ہیں۔ اس کے تزویری محلِ وقوع نے اسے عالمی ارتباط و اتصال کے قلب کا مقام عطا کیا ہے۔ اپنے قیام سے اب تک کے 74 برسوں میں پاکستان ایسے تباہ کن واقعات سے دوچار ہوا ہے کہ اس کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا تو پارہ پارہ ہوجاتا۔ چنانچہ تمام تر مشکلات و مصائب کے باوجود لچکداری پاکستان کے خون میں شامل ہے۔ بہرکیف بدقسمتی اور غلط فیصلوں نے پاکستان کو خاصا نقصان بھی پہنچایا ہے۔ عشروں پر محیط بدانتظامی اور بدعنوانی کے باعث اس کی معیشت برباد ہوچکی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 24 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر سے نیچے جی رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام اس کے ڈی این اے میں سرایت کرچکا ہے۔ عوام عدم اعتماد کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں جس کے باعث پاکستان کو بہتر بنانے والی بیشتر ترقیاتی پیش قدمیاں ملکی اور بین الاقوامی شک و شبہے اور تلخی سے دیکھی جاتی ہیں۔ چین پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) کی مثال لیجئے، چین اور امریکا کی مخاصمت کے باعث یہ امر قابلِ فہم ہے کہ سی پیک امریکا کی تنقید کا مرکزی ہدف ہے، جس کی وجہ سے پاکستان بھی زد پر ہے تاہم پاکستان کو درپیش چیلنج صرف یہ نہیں کہ اسے امریکا کی تنقید کا سامنا ہے بلکہ اس نے دُنیا کو بھی قائل کرنا ہے کہ سی پیک بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لئے یکساں طور سے فائدہ بخش ہے۔ اس کے علاوہ رکاوٹیں ڈالنے والے داخلی عناصر بھی پاکستان کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ چین کے قونصل جنرل کے دیئے گئے انٹرویو پر غور کیجئے، انہوں نے پاکستان کے لئے سی پیک کے اقتصادی فائدوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ بعض پاکستانی ذرائع ابلاغ چینی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کو نظرانداز کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سی پیک سے متعلق بیانیہ تبدیل کیا جانا چاہئے اور عوام کو آگاہ کیا جانا چاہئے کہ چینی کمپنیاں اور سرمایہ کار کس طرح پاکستان کی مدد کررہے ہیں۔ سی پیک سے متعلق بیانیے میں تبدیلی پاکستان کا کمزور پہلو رہا ہے، مغرب اپنے چین مخالف بیانیے کو عالمی سطح پر قبول کرانے کے لئے سی پیک کی ناخوشگوار تصویر پیش کررہا ہے، جسے ہچکچاتے ہوئے قبول کرنا پاکستان کے لئے ایک چیز ہے لیکن پاکستان کے اپنے ذرائع ابلاغ کا ان بیانیوں کو قبول کرکے سی پیک کی تصویر کشی اس انداز سے کرنا کہ اس پروجیکٹ سے پاکستان کا کوئی بھلا نہیں ہورہا، یہ دوسری چیز ہے۔ چین کے قونصل جنرل نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی عوام کو چین کی قربانیوں اور اعانتوں کو تسلیم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جب چینی سرمایہ کار اور کام کرنے والے افراد پاکستانی ذرائع ابلاغ کو چین مخالف طاقتوں کی زبان بولتا سنتے ہیں تو انہیں شدید صدمہ پہنچتا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر یہ صورتِ حال برقرار رہی تو چینی سرمایہ کار دوری اختیار کرسکتے ہیں۔ چین کے قونصل جنرل نے بجا کہا ہے، پاکستان کو چاہئے کہ پہلے اپنے عوام کو سی پیک کے بارے میں آگاہ کرے۔ میں نے 13 جنوری کو کراچی میں منعقدہ ”فیوچر سمٹ“ میں شرکت کی، جس میں وزراء، عالمی سطح کی بااثر شخصیات اور پاکستانی کے ممتاز کاروباری افراد بھی شریک تھے۔ میں نے سمٹ کے دوران ایک پینل ڈسکشن میں حصہ لیا جس کا عنوان ”سی پیک۔۔۔ آگے کا راستہ“ تھا۔ وزیرِمملکت اور وزیرِاعظم کے خصوصی مشیر برائے سی پیک خالد منصور میرے ساتھ پینل میں تھے۔ خالد منصور نے اپنے خطاب میں سی پیک کے بارے میں تفصیل سے پراگریس رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ آج تک اس میں کیا پیشرفت ہوچکی ہے۔ انہوں نے دوسری باتوں کے علاوہ پانچ سو سے زیادہ حاضرین کو یہ بھی بتایا کہ اب سی پیک دوسرے مرحلے میں داخل ہورہا ہے جس میں پاکستان کی سوشو اکنامک ترقی پر توجہ دی جائے گی۔ سوال و جواب کے مرحلے میں خالد منصور نے سی پیک کے بارے میں پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے کی حقیقت پُرزور انداز سے عیاں کی۔ انہوں نے دوٹوک انداز سے کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں پاکستان کے مستقبل کی خوشحالی اور ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ میں نے اپنے خطاب میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹو (بی آر آئی) کے تحت ”مشترکہ تجربات“ اور ”بہترین بین الاقوامی قانونی طریقوں“ کی تفصیل پیش کی اور بتایا کہ ان کا اطلاق سی پیک کے دوسرے مرحلے پر کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ صاف گوئی اور کسی لگی لپٹی کے بغیر میں نے دو خاص پہلوؤں پر تنقید کی۔ اوّل، پاکستان کی بیوروکریسی کا لال فیتہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری روک رہا ہے۔ دوم، پاکستان کی عدالتیں بھی ایسا کررہی ہیں جنہوں نے بعض بین الاقوامی معاہدوں کو، جن کا پاکستان فریق تھا، پاکستانی قانون کے برخلاف قرار دیا، حالانکہ ان معاہدوں میں بین الاقوامی غیرملکی رائج قوانین اور اختلافات حل کرنے والی شقیں موجود تھیں۔ میں نے نشاندہی کی کہ اگر پاکستان سی پیک میں وسیع تر بین الاقوامی شراکت چاہتا ہے تو اسے ان دو معاملات پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ میں نے یہ تجویز بھی دی کہ پاکستان اور چین کو سی پیک کے سارے معاہدوں سے متعلق اختلافات سلجھانے اور انہیں جھگڑوں میں ڈھلنے سے بچنے کی غرض سے ”ثالثی کا بالائی فریم ورک“ بنانے پر غور کرنا چاہئے۔ میں اپنے تجربات کی روشنی میں کہہ رہا ہوں کہ مقدمہ بازی، جو بے فائدہ عمل ہے (اس میں ایک فریق جیت جاتا ہے جبکہ دوسرا ہار جاتا ہے)۔
پاکستان اور چین کے لئے موزوں نہیں جن کا تعلق تجارتی پہلوؤں سے ماورا ہے۔ میں نے چین کی بین الاقوامی تجارتی عدالت کے بارے میں بھی مختصراً بات کی۔ اس عدالت میں جھگڑے سلجھانے کے لئے ایک ہی مقام پر مقدمہ، ثالثی اور تصفیہ ہوتا ہے۔ وقت کی کمی کے باعث میں اپنے سارے نکات پیش نہیں کرسکا۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ سی پیک سے متعلق بیانیہ تبدیل کیا جائے۔ اس کی نشاندہی چین کے قونصل جنرل نے بھی کی۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان اظہار کی آزادی، جس کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے، اور پروپیگنڈے، آدھے سچ اور جھوٹی خبروں سے پاکستان کے عوام کو محفوظ رکھنے کے ان کے حق میں توازن قائم کرے، جو پاکستان کے بعض ذرائع ابلاغ سی پیک اور دوسرے قومی پروجیکٹوں کے بارے میں مسلسل پھیلا رہے ہیں۔ اس ضمن میں میری پہلی تجویز یہ ہے کہ پاکستان کو سی پیک کے بارے میں حقائق عام کرنے کی غرض سے بالائی سطح سے نیچے تک ایک پالیسی پر عمل کی حکمتِ عملی اپنانا چاہئے۔ پاکستان میں یہ آگاہی عام کرنا ضروری ہے کہ سی پیک کی پاکستان اور اس کے مستقبل کے لئے کیا اہمیت ہے۔ پاکستان میں تلخ سیاسی تقسیم کے باوجود ہم ”کم از کم مشترک پہلو“ پر اتفاق کرسکتے ہیں یا اس امر پر اتفاقِ رائے پیدا کیا جاسکتا ہے کہ سی پیک وہ ابتدائی تحریک تھی جس کی پاکستان کو اپنی معیشت کے احیا کے لئے ضرورت تھی۔ روایتی طور سے پاکستان دو مسائل کا شکار رہا ہے، ایک توانائی اور دوسرا ناقص بنیادی ڈھانچا۔ سی پیک کے پہلے مرحلے میں پاکستان بڑی حد تک یہ دو مسائل حل کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سی پیک کے بنیادی ڈھانچے والے اہم ترین سہارے کے بغیر پاکستان اپنی معیشت کا انجن چلانے کے قابل نہیں ہوسکتا تھا۔ ہمیں یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگاہی مہم کے ذریعے عوام اور ذرائع ابلاغ کو آگاہ کرے۔ میری دوسری تجویز یہ ہے کہ پاکستان اپنے عوام کو کذب و افترا، پروپیگنڈے اور جھوٹی خبروں سے محفوظ رکھنے اور ان کا توڑ کرنے کے لئے قانون بنائے۔ اس قانون سازی کا مقصد ذرائع ابلاغ کا منہ بند کرنا یا صحت مند تنقید کی حوصلہ شکنی کرنا بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ صحت مند مباحثہ اور تنقید ایک زندہ معاشرے کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ اس قانون سازی کا مقصد جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے کی حوصلہ شکنی ہونا چاہئے نیز ایسے صحافیوں کو سزا دینا ہو جو جان بوجھ کر عوام کو گمراہ کرنے میں ملوث ہوں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کے عوام کے سچ جاننے سے پاکستان کا عوامی فائدہ ہوگا۔ پاکستان پر اس کے عوام کی جانب سے فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ انہیں سی پیک کے بارے میں حقائق سے آگاہ کرے اور بتائے کہ یہ کس طرح پاکستان کا مستقبل بدل سکتا ہے اور پاکستان کو نئے قالب میں ڈھال سکتا ہے۔ میری تیسری تجویز یہ ہے کہ پاکستان بی آر آئی کے تناظر میں ایسے ”مشترک تجربات“ لازماً دریافت کرے جو سی پیک کے بارے میں بیانیہ ترتیب دینے میں پاکستان کو فائدہ دے سکیں۔ پاکستان واحد ملک نہیں جو چین کے ساتھ قریبی تعلق کے باعث مغرب کی سخت تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ چین کا بی آر آئی، جو دنیا کے چاروں کونوں کو باہم ملاتا ہے، ایک ایسے سمندر جیسا ہے جو دوسرے ملکوں کے تجربات سے معمور ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ اس سمندر سے ایک دو قطرے حاصل کرے اور دوسرے ملکوں سے سبق سیکھے جنہوں نے چین کے بی آر آئی کے جزو کے طور سے اپنے قومی پروجیکٹ مکمل کئے ہیں۔ اس سے پاکستان کو سی پیک کے پاکستان کے لئے فائدے واضح کرنے کے لئے بیانیہ ترتیب دینے میں مدد ملے گی۔ آج کی ڈیجیٹلائزڈ دُنیا میں دشمن کو روایتی عسکری ذرائع سے زیادہ نقصان میڈیا لافیئر سے پہنچایا جاسکتا ہے۔ ایک متاثر کن شخصیت کی ایک ٹویٹ سے اسٹاک مارکیٹ بیٹھ سکتی ہے۔ افراد کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنا کر ان کی ساکھ تباہ کی جاسکتی ہے۔ سائبر حملے ملکوں کے گھٹنے ٹِکوا سکتے ہیں۔ اسی طرح قومی پروجیکٹوں کے بارے میں جھوٹی خبریں اور پروپیگنڈا ان پروجیکٹوں سے فائدہ پانے والوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کے بیج بوسکتا ہے، لہٰذا سائبر حملوں اور لا فئیر کی سطح پر بھی ہمیں سی پیک اور پاکستان اور چین مخالف پروپیگنڈا کا بھی موثر جواب دینا ہوگا۔ اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ چین نے ہر آڑے اور مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے اور پاکستان بھی چین کو خطے کا اہم اور دوست ملک تصور کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان بی آر آئی اور سی پیک کے بارے میں مغرب کا بیانیہ تبدیل نہیں کرسکتا، تاہم یہ امر یقینی بنانا پاکستان کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ اس کے اپنے ذرائع ابلاغ سی پیک کو بُرا بنا کر پیش نہ کریں بلکہ اس کے پاکستان کے لئے مفید اور مثبت پہلوؤں اور اس سلسلے میں چین کے پاکستان کی مدد اور ترقی کی خواہش کو نمایاں کریں، اس سے نا صرف چین اور پاکستان کے مابین تعلقات کی مخالف قوتوں کے پروپیگنڈا کا توڑ کیا جاسکے گا بلکہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کا رشتہ مزید مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کو سی پیک کے تحفظ کے لئے معمول سے بڑھ کر اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ پاکستان کا اپنے عوام کا مستقبل خوشحال بنانے والا سب سے اچھا اقدام ہوگا۔

مطلقہ خبریں