Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سی پیک نشانے پر

نوید چوہدری

سال 2014ء کے اوائل میں کوئٹہ میں ایک اہم سرکاری شخصیت سے ملاقات ہوئی۔ نئی حکومت قائم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور ہر طرف سی پیک کا چرچا ہورہا تھا۔ اس شخصیت کی باتوں نے شرکائے محفل کو حیران و پریشان کردیا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ عالمی قوتوں کو پسند نہیں۔ سو اس کے حوالے سے جو بھی کرنا ہے بہت دھیمے انداز میں بلکہ چھپ چھپا کر کیا جائے۔ بعد میں ملاقاتیوں نے آپس میں گفتگو کی تو متفقہ رائے یہی بنی کہ میزبان سرکاری شخصیت سی پیک کے بارے میں واضح طور پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہی ہے۔ سیٹلائٹ دور میں کہ جب زمین پر ایک تنکا بھی ہلے تو نوٹ کرلیا جاتا ہے وہاں کیسے ممکن ہے کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھ کر مکمل کرلیا جائے۔ اس ملاقات میں یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ خود ہمارے اپنے بڑے بھی بین الاقوامی دباؤ کا بہانہ کر کے سی پیک پر غیرسنجیدہ ہیں۔ یہ عام تاثر حقیقت پر مبنی ہے کہ امریکا اور بھارت ہی نہیں ایک دوست خلیجی ریاست اور ہمارے دو پڑوسی ممالک بھی اس منصوبے کے خلاف ہیں۔ سفارتی حلقوں تک رسائی رکھنے والوں کو زیادہ بہتر علم ہے کہ امریکی سی پیک کا نام سنتے ہی غصے میں آجاتے ہیں اور اس کے بارے میں پاکستانیوں پر لیکچر جھاڑتے ہوئے بتاتے ہیں کہ چینی آپ کا سب کچھ لوٹ کر لے جائیں گے۔ ان کی گفتگو سے لگتا ہے کہ شاید انہیں ہماری فکر ہم سے بھی زیادہ ہے، ظاہر ہے کہ ایسا کچھ نہیں۔ دنیا میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی چینی تجارت دیگر تمام صنعتی ممالک کے لئے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ پھر یہ کہ سی پیک کا روٹ اتنا مختصر اور آسان ہے کہ اسے ہر لحاظ سے ایک مثالی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کا درجہ حاصل ہے۔ منصوبے سے خائف ایک امریکی رکن کانگریس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا یہ شاہراہ دہشت گردوں کو اپنی کارروائیاں پوری دنیا تک پھیلانے کا ایک ذریعہ بنے گی۔ اس قسم کی احمقانہ باتیں سی پیک کے دیگر اندرونی و بیرونی مخالفین بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کے اندر سی پیک کے حوالے سے سب سے بڑی چال 2014ء میں چلی گئی۔ اس وقت کی ن لیگی حکومت ہی نہیں بلکہ مقتدر حلقوں سے تعلق رکھنے والے بعض ذمہ داران بھی واشگاف الفاظ میں کہہ رہے تھے کہ اسلام آباد میں دیئے جانے والے دھرنے کا مقصد سی پیک کو الٹانا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض افراد کو یہ بات عجیب لگے کیونکہ بظاہر مطالبات تو الیکشن دھاندلی اور پھر وزیراعظم کے فوری استعفے کے تھے۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھی جانی چاہئے کہ جب بھی کسی ملک میں کوئی بڑی سرگرمی ہوتی ہے یا کوئی بڑی منظم تحریک چلتی ہے، کاروبار حکومت روک دینے والا احتجاج کیا جاتا ہے تو مقصد دوسرے سے الگ لیکن منزل ایک ہوتی ہے۔ ایسی ہی کہ جیسے 2014ء کے دھرنوں کے نتیجے میں حکومت اگرچہ نہیں گرائی جا سکی لیکن چین کے صدر کا دورہ جو خالصتاً سی پیک معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے تھا، منسوخ ہوگیا۔ ملک کو شدید مالی نقصان پہنچا اور غیریقینی کی کیفیت نے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ دھرنے والوں کے اسٹیج سے بار بار کہا جارہا تھا کہ حکومت کی چھٹی ہو کر رہے گی۔ جوڈیشل مارشل لاء کی باتیں بھی سنی گئیں۔ ظاہر ہے ان حالات میں کون سا ملک ہوگا جو شورش زدہ ریاست میں جا کر سرمایہ کاری کا سوچے بھی۔ بہرحال اس معاملے پر اسٹیبلشمنٹ اس وقت تقسیم تھی۔ حکومت تو نہ گر سکی مگر کئی کردار واضح ہوگئے۔ سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کے ذریعے میڈیا پر ان ممالک کے نام بھی پوری قوم کو بتا دیئے گئے جو دھرنوں کو سپورٹ فراہم کررہے تھے۔ معاملہ ایک بار بظاہر ٹل گیا مگر کھیل جاری رہا۔ یہ بات اسٹیبلشمنٹ کے حامی حلقے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ 2014ء کے دھرنوں کے دوران چینی صدر کا دورہ پاکستان شیڈول کے مطابق یقینی بنانے کے لئے اسلام آباد میں متعین چینی سفیر نے دھرنا قیادت سے ملاقاتیں کیں تو ان سے اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ ایک موقع پر یہ تجویز بھی آئی کہ چینی صدر کو دھرنوں کی لپیٹ میں آئے وفاقی دارالحکومت کے بجائے لاہور مدعو کر کے معاہدہ کرلیا جائے لیکن اسے قبولیت نہ مل سکی۔ اب جبکہ ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوچکی ہے اور سابق حکمران جماعت ن لیگ کے رہنما جیلوں اور مقدمات کا سامنا کرتے پھر رہے ہیں۔ ویسے بھی سی پیک کے حوالے سے باقاعدہ حکومتی سطح پر مخالفانہ بیانات اور اشارے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے دیرینہ دوست اور مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو عین اس وقت ایک انٹرویو دیا جب چینی وزیرخارجہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ عبدالرزاق داؤد نے سی پیک معاہدے پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے منصوبے کو ایک سال کے لئے منجمد کرنے کا کہا۔ ان کے اس انٹرویو پر پورے ملک سے شدید ردعمل سامنے آیا تو ایک مبہم سی وضاحت کردی گئی۔ مشیر تجارت نے جو بات کی وہ اپنی جانب سے پوری طرح سے ناپ تول کر کی تھی۔ انہیں یہ بھی بخوبی علم تھا کہ خاصا ردعمل آئے گا۔ سو کہا جا سکتا ہے کہ وضاحت بھی پہلے ہی سے سوچ کر رکھی ہوگی۔ انٹرویو چونکہ تفصیلی تھا اور اس میں چین کے حوالے سے اور منفی باتیں بھی کی گئی تھیں، اس لئے ہدف کافی حد تک پورا ہوگیا۔
یہاں یہ بات بتانا بہت ضروری ہے کہ دنیا بھر کے تجارتی حلقوں میں فنانشل ٹائمز کو بائبل سمجھ کر اس کی رپورٹوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ سو پاکستان کے مشیر تجارت کے ذریعے جہاں جہاں ٹھوس پیغام پہنچانا مقصود تھا پہنچا دیا گیا۔ یہ بات سچ ہے کہ پاناما لیکس کے دوران اسلام آباد لاک ڈاؤن اور پھر معاملہ سپریم کورٹ میں جانے کے بعد حکومت کو ڈولتا دیکھ کر چین نے سی پیک سے متعلق فنڈز اور قرضے روک لیے تھے لیکن جو پیسہ آچکا تھا اس پر کام جاری رکھا گیا۔ پاکستان میں نئی حکومت آنے کے بعد چینی حکومت نے معاملات پھر سے آگے بڑھانے کے لئے اپنے وزیرخارجہ کو بھجوایا تو ہوائی اڈے پر ٹھنڈے ٹھار استقبال کا سامنا کرنا پڑا۔ انہی دنوں سعودی وزیر اطلاعات اچانک پاکستان کے دورے پر آئے تو انہیں ریسیو کرنے کے لئے وفاقی وزیر اطلاعات خود موجود تھے۔ چینی وزیر خارجہ کا استقبال ایک سرکاری افسر نے کیا جو تصویر جاری کی گئی اس میں سردمہری کا عنصر نمایاں تھا۔ حق تو یہ تھا کہ چینی وزیرخارجہ کا استقبال بھی سعودی وزیر اطلاعات کی طرح کیا جاتا۔ اپنے دورے کے دوران چینی وزیر خارجہ نے پاکستانی ہم منصب کے علاوہ آرمی چیف سے بھی مذاکرات کیے۔ نئے صدر عارف علوی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کر کے جذبہ خیرسگالی کا مظاہرہ کیا۔ مہمان وزیر خارجہ نے وزیراعظم عمران خان کو دورہ چین کی دعوت بھی دی۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ معاملات اب پہلے کی طرح نہیں رہے۔ اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس میں پیش آنے والے واقعہ کی گونج آج سنی جا رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ’’مشہور زمانہ‘‘ وزیر نے نہایت کھردرے لہجے میں مطالبہ کیا کہ سب سے پہلے سی پیک کو رول کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔ وہ ضرورت سے زیادہ جذباتی ہونے لگے تو جواب ملا فکر نہ کریں سارا منصوبہ کیس ٹو کیس دیکھ لیں گے۔ اگر کوئی یہ تاثر دے کہ سی پیک چین کی مجبوری ہے تو بالکل غلط ہوگا۔ ہاں! مگر یہ راستہ اس کے لئے بہت بڑی سہولت ہوسکتا ہے اور اگر منصوبہ پوری طرح سے مکمل ہوجائے تو چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی اتنا مالی فائدہ ہوسکتا ہے کہ جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ چین کی پاکستان سے دوستی اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے لیکن ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں چینی حکومت کا سب سے زیادہ فوکس تجارت پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی ناراض ہوجائے تو تحمل کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے انتظار کیا جاتا ہے۔ وقفے وقفے سے پھر آفرز دی جاتی ہیں اگر کوئی پھر بھی نہ مانے تو متبادل ذرائع ڈھونڈ لیے جاتے ہیں۔ چین کے پاس برما کا راستہ بھی موجود ہے۔ اگرچہ طویل ہے مگر پوری طرح سے قابل عمل ہے۔ افغانستان، تاجکستان، ایران کے راستے بھی تجارتی راہداری کا آپشن موجود ہے۔ دنیا بھر میں تیزی سے فروغ پاتی تجارت میں چین کا سب سے بڑا پارٹنر بھارت ہے۔ 84 ارب سے لے کر 100 ارب ڈالر تک بزنس سالانہ ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی حکومت پاکستان پر زور دیتی آرہی ہے کہ وہ اپنے تنازعات مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی کوشش کرے۔ چینی وزیرخارجہ کے دورے کے بعد فالو اپ جاری ہے۔ یہ طے کیا جا رہا ہے کہ فوری طور پر کون سے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ تجارت کے حوالے سے چین کی تحمل والی پالیسی کا اطلاق یقیناً پاکستان پر بھی ہوگا۔ خصوصاً ان حالات میں کہ جب ہماری اپنی مالی ضروریات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں۔ اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ اس حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے تو اس کا جواب صرف ایک ہے، امریکی ایسا نہیں چاہتے۔ سی پیک کے مخالفین تو اور بھی کئی ہیں لیکن امریکا تو امریکا ہی ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ یہ دباؤ کب ختم ہوگا؟ تو اس کا سادہ سا جواب اتنا ہے کہ جب سول حکمرانوں، جرنیلوں، ججوں، جاگیرداروں، صنعتکاروں سمیت ملک کی حکمران اشرافیہ اپنے سہانے مستقبل، بعد از ریٹائرمنٹ رہائش اور اولاد کی پرورش، تعلیم و تربیت کے لئے امریکا، برطانیہ دیگر یورپی ممالک اور آسٹریلیا کے بجائے خود پاکستان میں رہنے اور اولاد کو یہیں پڑھانے یا پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے چین بھجوانے پر تیار ہوجائے تو امریکی دباؤ اپنے آپ کم ہوتا جائے گا۔ اس تمام عمل کو کتنا وقت لگے گا، یہ حساب آپ سب خود لگا لیں۔

مطلقہ خبریں