روہیل اکبر
دُنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک چین اب اقتصادی ترقی میں دُنیا کا پہلا بڑا ملک بننے جارہا ہے خاص کر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو منصوبہ جو 2013ء میں شروع ہوا اور 2023ء میں پہلی دہائی مکمل کرچکا ہے، جس میں اس نے رابطوں اور اقتصادی ترقی کا ایک نیا طرز متعارف کرایا، اب تک چین نے 151 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ 200 سے زیادہ بی آر آئی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ چائنیز اکیڈمی آف سائنسز نے بیرون ملک 10 سائنس اور تعلیمی مراکز قائم کردیئے۔ بی آر آئی ممالک کے ساتھ 100 سے زیادہ تحقیقی تعاون کے منصوبے شروع ہوچکے ہیں اور تقریباً 5000 اعلیٰ سطح کے سائنسدانوں کو تربیت دی گئی ہے، بی آر آئی ایک جامع فریم ورک میں تیار ہوا ہے جس میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی، تجارتی سہولت، مالی تعاون اور ایشیا، یورپ، افریقہ اور اس سے آگے ثقافتی تبادلے شامل ہیں، بی آر آئی علاقائی اور بین الاقوامی دونوں طرح کی ناگزیریت کا حامل ہے جس میں اقتصادی معجزات کو لنگرانداز کرنے چیلنجوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کی صلاحیت موجود ہے، چونکہ اقتصادی عالمگیریت نظر نہ آنے والی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، عالمی اقتصادی بحالی مشکلات سے دوچار ہے ایسے میں بی آر آئی کی عالمی چمک ایک روشن لکیر بن گئی ہے جو متعلقہ ممالک اور خطوں کی اقتصادی ترقی کو بڑھانے میں زیادہ اہم کردار کو ظاہر کرتی ہے، بی آر آئی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے، تجارت کو فروغ دینے اور ثقافتی تفہیم کو بڑھا کر عالمی ترقی کو آگے بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے، سڑکوں، ریلوے، بندرگاہوں اور توانائی کی سہولیات سمیت بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے ذریعے، بی آر آئی اقتصادی ترقی اور ملازمتوں کے مواقع پیدا ہورہے ہیں جبکہ کنیکٹیویٹی کو بہتر بنا کر اور لاجسٹک رکاوٹوں کو کم کرکے یہ اقدام سامان اور خدمات کی نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرتا ہے جس سے کاروباری اداروں کو اپنی رسائی کو بڑھانے اور نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے، عالمی بینک کی جانب سے 2019ء میں جاری کردہ ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بی آر آئی کے تحت نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے اگر مکمل طور پر لاگو ہوتے ہیں تو 2030ء تک عالمی آمدنی میں سالانہ 1.6 ٹریلین ڈالر کے فوائد حاصل ہوسکیں گے جوکہ عالمی جی ڈی پی کا 1.3 فیصد ہے بی آر آئی چین کی طرف سے تجویز کیا گیا ایک منصوبہ تھا جو پوری دنیا کیلئے مالی فوائد کے مواقع پیدا کررہا ہے، مثال کے طور پر چین یورپ ریلوے چینی شہروں کو پولینڈ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک سے جوڑتی ہے اور گزشتہ سال دونوں سمتوں میں 16000 مال بردار ٹرینیں چلائی گئیں، بی آر آئی کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی ابھرتے ہوئے چیلنجوں کیلئے موافقت اور لچک اور پائیداری کیلئے اس کی وابستگی ہے، ماحولیاتی خدشات کو دور کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے بی آر آئی نے ماحولیاتی تعاون صاف توانائی اور پائیدار ترقی پر زور دیتے ہوئے گرین سلک روڈ کا تصور شامل کیا ہے، ماحول دوست بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو ترجیح دینے گرین فنانس کو فروغ دینے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ منصوبہ بندی اور عملدرآمد کے عمل میں ماحولیاتی تحفظات کو شامل کیا جائے، بی آر آئی سرسبز اور ہریالی سمیت پائیدار ترقی کو فروغ دے رہا ہے جو اقوام متحدہ کے 2030ء کے ایجنڈے کے مطابق گرین انفرااسٹرکچر، گرین انرجی اور گرین فنانس میں تعاون کی کوششوں میں سے ایک ہے، یہ منصوبہ صحت عامہ میں تعاون پر بھی زور دیتا ہے، چین اور اس کے بی آر آئی شراکت دار وبائی امراض سے نمٹنے اور روکنے، صحت عامہ کی تحقیق اور ترقی کو بڑھانے اور عالمی صحت عامہ کی حکمرانی کو بہتر بنانے کیلئے مل کر کام کرتے ہیں لچک کے لحاظ سے بی آر آئی نے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ ہونے اور جغرافیائی سیاسی چیلنجوں سے گزرنے کی پوری صلاحیت ہے اور اس سلسلہ میں چین نے اس منصوبہ میں شریک والے ممالک الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کے تاثرات اور خدشات کا جواب دینے میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے جس سے اس منصوبہ کی عالمی سطح پر پذیرائی بھی ہوئی اور چین نے اس منصوبہ میں شفافیت، جوابدہی اور گورننس کے معیار کو بھی بڑھایا ہے، دوطرفہ اور کثیرجہتی تعاون کے ذریعے بی آر آئی فورم میں شریک ممالک کے خدشات کو دور کرنے اور بہترین طریقوں کا اشتراک کرکے آگے بڑھنے کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے ایک پلیٹ فارم بھی دیا۔