بے مثال دوستی کا عکاس سی پیک، چینی قیادت اور عوام کا پاکستان کے لئے ایک ایسا عظیم اور شاندار تحفہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، ان منصوبوں کی تکمیل سے نیشنل گرڈ میں ہزاروں میگاواٹ بجلی شامل ہوگی، چینی قیادت کی جانب سے پاکستان کو غیرمشروط یہ عظیم تحفہ ان کی پاکستان کے ساتھ مخلصانہ محبت اور ایثار کا بین ثبوت ہے
ضیاء شاہد
چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک)، چین کے اس صدی کے سب سے بڑے ترقیاتی منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کا انتہائی اہم جز ہے یا یوں کہیں کہ سی پیک، ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا فلیگ شپ پروجیکٹ ہے اور سی پیک کو سمجھنے سے پہلے ون بیلٹ ون روڈ کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک پٹی ایک شاہراہ منصوبہ آج کا نہیں اس کی بنیاد توہان خاندان کی چار سو سالہ دور میں رکھ دی گئی تھی، جسے چین کی معاشی تاریخ میں سنہرے دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ توہان خاندان نے تجارتی مقاصد کے لئے ایشیا کو افریقا اور یورپ کے ساتھ براہ راست جوڑنے کا منصوبہ بنایا جو آگے چل کر سلک روڈ یا شاہراہ ریشم کہلایا، تاہم بعد میں یہ تجارتی انقلابی منصوبہ مختلف وجوہات کی بنا پر بتدریج ختم ہوتا گیا اور ماضی کی پنہائیوں میں کہیں گم ہوگیا۔ وقت گزرتا رہا۔۔۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں ایک بار پھر چینیوں کے دماغ میں یہ خیال انگڑائی لے کر بیدار ہوگیا۔ اس کی بازگشت ستمبر اکتوبر 2013ء میں سنی گئی، جب چینی صدر شی جن پنگ نے ایشیا اور یورپ کے دورے کے دوران میری ٹائم سلک روڈ اور سلک روڈ اکنامک بیلٹ کا تصور پیش کیا اور دنیا بھر کے ممالک کو اس میں شمولیت کی دعوت دی۔ اس تصویر میں حقیقت کا رنگ بھرنے لگا جب نومبر 2014ء میں چینی حکومت نے ون بیلٹ ون روڈ کے چھ کاریڈورز میں ایک اور ون بیلٹ ون روڈ کے فلیگ شپ پروجیکٹ، چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) منصوبے کی شکل میں پاکستان میں چھیالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔
ون روڈ ون بیلٹ دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلی کو سلک روڈ اکنامک بیلٹ کہا جاتا ہے جو بنیادی طور پر زمین سے متعلق ہے اس میں ہائی ویز، ریلویز کے ذریعے چین کو وسطی ایشیا، مشرقی یورپ اور مغربی یورپ سے جوڑے گا۔ دوسرے کو اکیسویں صدی کی میری ٹائم سلک روڈ کہا جاتا ہے جو سمندر پر مبنی ہے اور توقع ہے کہ یہ چین کے جنوبی ساحل کو بحیرہ روم، افریقا، جنوبی مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیا تک لے جائے گی۔ بیلٹ دراصل سڑکوں اور ریلوے کا نیٹ ورک ہے جبکہ روڈ سمندری روٹ ہے۔ ایک پٹی ایک شاہراہ منصوبہ چھ اقتصادی راہداریوں پر مشتمل ہے۔
۔ نیو یوریشین لینڈ برج: مغربی چین کو مغربی روس سے ملاتا ہے۔
۔ چائنا، منگولیا، رشیا کوریڈور: شمالی چین کو منگولیا کے راستے مشرقی روس سے ملاتا ہے۔
۔ چائنا، وسطی ایشیا، غربی ایشیا کوریڈور: مغربی چین کو وسطی اور مغربی راستے سے ترکی سے ملاتا ہے۔
۔ چائنا انڈو چائنا جزیرہ نما کوریڈور: جنوبی چین کو ہند چین کے راستے سنگاپور سے ملاتا ہے۔
۔ چائنا پاکستان کوریڈور: جنوبی مغربی چین کو پاکستان کے راستے عرب سمندری راستے سے ملاتا ہے۔
۔ بنگلا دیش، چین، بھارت، میانمر کوریڈور: جنوبی چین کو بنگلا دیش اور میانمر کے راستے بھارت سے ملاتا ہے۔
اسی طرح میری ٹائم سلک روڈ ساحلی چین کو سنگاپور ملایشیا، بحیرہ ہند، بحیرہ عرب اور آبنائے ہرمز کے ذریعے بحیرہ روم سے جوڑتی ہے۔
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اْبلنے لگے
ایک صدی قبل علامہ اقبال کی چین کے عروج کے حوالے سے یہ پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ گراں خواب چینی سنبھلے تو خوب سنبھلے۔
اپریل 2015ء میں چینی صدر شی جن پنگ نے چائنا پاک اکنامک کوریڈور منصوبے کی صورت میں پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کئے اور اب ان منصوبوں کی مالیت 64 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ جس میں 500 ملین ڈالر کے دیامیر بھاشا ڈیم، 333 ملین ڈالر کے گوادر ایئرپورٹ، حویلیاں ڈرائی پورٹ اور ریلوے ٹریک کے منصوبوں کے چھ اضافی معاہدوں پر دستخط کئے۔ اقتصادی ترقی کے لئے توانائی کا شعبہ طاقت کا سرچشمہ کہلاتا ہے اور پاکستانی معیشت کی پائیدار ترقی بھی توانائی کے شعبے پر ہی منحصر ہے، اسی لئے منصوبے کے تحت 35 ارب ڈالر صرف توانائی کے منصوبوں پر خرچ کئے جارہے ہیں۔ ان منصوبوں میں سندھ میں پورٹ قاسم الیکٹرک کول 1320 میگاواٹ، پنجاب میں ساہیوال کول پاور پلانٹ 1320میگاواٹ، گوادر کول پاور پروجیکٹ 300 میگاواٹ، رحیم یار خان کول پاور پروجیکٹ 1320 میگاواٹ، قائداعظم سولر پارک بہاولپور میں 1000 میگاواٹ، دادو ونڈ فارم بمبور میں 50 میگاواٹ، سندھ میں یو اے پی 100 میگاواٹ، سچل ونڈ فارم 50 میگاواٹ، جھمپیر سینک ونڈ فارم 50 میگاواٹ، خیبرپختونخوا سکی کناری ہائیڈرو پاور اسٹیشن 870 میگاواٹ، گڈانی پاور پروجیکٹ 2640 میگاواٹ، حب کو کول پاور پلانٹ 660 میگاواٹ، ٹھٹھہ میں پاکستان ونڈ فارم 100 میگاواٹ، سالٹ رینج مائن ماؤتھ پاور پروجیکٹ 300 میگاواٹ، تھرمائن ماؤتھ اوریکل 1320 میگاواٹ، ایس ایس آر ایل تھرکول بلاک 6، 1320 میگاواٹ، مظفر گڑھ کول پاور پروجیکٹ 1320 میگاواٹ، کو ہالہ ہائیڈل پروجیکٹ 1100 میگاواٹ، آزاد کشمیر و پنجاب میں کروٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ 720 میگاواٹ کے منصوبے شامل ہیں۔ آزاد کشمیر و پنجاب میں دریائے جہلم پر 720 میگاواٹ 1.7 بلین ڈالر کے اس منصوبے پر دن رات کام جاری ہے۔ کروٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ سی پیک کے اس پہلے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ نے آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔ اس کے ایک یونٹ سے بننے والی 180 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کردی گئی ہے۔ جبکہ باقی تین یونٹوں کی تکمیل پر تیزی سے کام جاری ہے جس کے بعد اس منصوبے کی کل نصب صلاحیت 720 میگاواٹ ہوگی، یہ تقریباً 3.2 ارب کلو واٹ سالانہ صاف توانائی فراہم کرے گا۔ جو پچاس لاکھ گھروں کو روشن کرنے کے لئے کافی ہوگی۔
چینی کہاوت ہے کہ اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہو تو اسے مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھا دو۔ چین دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے دنیا بھر میں خام مال کی درآمد اور تیار مال کی برآمد اس کی ضرورت ہے۔ چین اس سے نہ صرف خود اپنے لئے معاشی فوائد حاصل کرنا بلکہ مختلف ممالک کو آپس جوڑ کر شیئرڈ پراسپیرٹی کی بنیاد پر سب ممالک کو ساتھ لے کر چلنا بھی چاہتا ہے۔ 75 سے زائد ممالک پر محیط اس منصوبے سے اقتصادی ترقی اور معاشی استحکام کے نئے در بھی کھلیں گے اور پاکستان کے لئے چائنا، پاکستان اکنامک کوریڈور خوشحالی اور ترقی کا ضامن بننے جا رہا ہے۔ بے مثال دوستی کا عکاس سی پیک، چینی قیادت اور عوام کا پاکستان کے لئے ایک ایسا عظیم اور شاندار تحفہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے نیشنل گرڈ میں ہزاروں میگاواٹ بجلی شامل ہوگی۔ چینی قیادت کی جانب سے پاکستان کو غیرمشروط یہ عظیم تحفہ ان کی پاکستان کے ساتھ مخلصانہ محبت اور ایثار کا بین ثبوت ہے۔