Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سی پیک۔۔تضادات کیوں؟

ضمیر آفاقی

بلاشبہ سی پیک پورے خطے کا سیاسی جغرافیہ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ثقافتی اور سیاسی اعتبار سے پاکستان جنوبی اور مغربی ایشیا کے کناروں پر واقع ہے، سندھ اور پنجاب جنوبی ایشیا کا حصہ ہیں، بلوچستان اور خیبرپختونخوا جنوبی سے زیادہ مغربی ایشیا میں واقع ہیں، ایک پنجاب بھارت میں بھی ہے اور ایک بلوچستان ایران میں ہے، بھارت، پاکستان کے پنجاب میں یکساں نوع کی پنجابی بولی جاتی ہے جبکہ پاکستانی بلوچستان اور ایرانی سیستان بلوچستان میں بلوچی کے علاوہ فارسی بھی بولی جاتی ہے۔ 

افسوس کہ یہاں قومی سطح کے منصوبے بھی سیاسی مخالفت کی نذر کر کے متنازع بنا دیئے جاتے ہیں، حکومت کی مدت پوری ہونے کے ساتھ ہی اْس کے جاری منصوبے بند کر دیئے جاتے ہیں یا ان کے خلاف تحقیقات شروع کرا دی جاتی ہیں، جس سے سرمایہ کار خوف زدہ ہو کر ملک سے بھاگ جاتے ہیں، نتیجتاً ملک میں سرمایہ کاری رک جاتی ہے۔ سی پیک کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ اس خطے کی حالت بدلنے والا منصوبہ ہے، لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اسے بھی متنازع بنا دیا ہے اور اس پر سوال اٹھائے جانے لگے ہیں، حالانکہ کہا جاتا ہے کہ سی پیک پاکستان کے لئے گیم چینجر بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ اتنا بڑا منصوبہ ہے کہ بروقت اور اعتبار سے جامع تکمیل کی صورت میں ملک کا معاشی جغرافیہ تبدیل کردے گا۔ اس سے قبل جس منصوبے نے پاکستان میں بہت بڑے پیمانے پر معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی تھی، وہ انڈس واٹر ورکس تھا، جس کے تحت منگلا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر کے ساتھ ہزاروں کلومیٹر طوالت کی نہریں بنائی گئی تھیں۔ نتیجتاً اب وہاں سال میں دو فصلیں ہوتی ہیں، جہاں پہلے گھاس کا تنکا بھی نہ اْگتا تھا اور جہاں 1970ء کے عشرے تک ویرانے تھے، وہاں اب ہنستے بستے شہر ہیں۔ انڈس واٹر ورکس منصوبے کا ایک نتیجہ یہ بھی برآمد ہوا کہ دو مشرقی صوبے (پنجاب اور سندھ) تیزی سے پروان چڑھے اور اْن میں شہری علاقوں کا رقبہ بھی وسعت اختیار کر گیا جبکہ مغربی صوبے (خیبر پختونخوا اور بلوچستان) پسماندہ رہ گئے اور اب تک مجموعی قومی معیشت کے رحم و کرم پر ہیں۔ اب سی پیک کا مغربی روٹ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے لئے ترقی کے امکانات کی نوید سنا رہا ہے۔
بلاشبہ سی پیک پورے خطے کا سیاسی جغرافیہ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ثقافتی اور سیاسی اعتبار سے پاکستان جنوبی اور مغربی ایشیا کے کناروں پر واقع ہے۔ سندھ اور پنجاب قطعی طور پر جنوبی ایشیا کا حصہ ہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا جنوبی سے زیادہ مغربی ایشیا میں واقع ہیں۔ ایک پنجاب بھارت میں بھی ہے اور ایک بلوچستان ایران میں بھی۔ بھارت، پاکستان کے پنجاب میں یکساں نوع کی پنجابی بولی جاتی ہے جبکہ پاکستانی بلوچستان اور ایرانی سیستان بلوچستان میں بلوچی کے علاوہ فارسی بھی بولی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان اور وادی خیبر کے چین میں سنکیانگ اور وسط ایشیا سے صدیوں پرانے ثقافتی و معاشی تعلقات ہیں۔ اگر اس منصوبے میں کوئی بُرائی تھی یا ملک کے لئے نقصان دہ تھا تو پی ٹی آئی جب اپوزیشن میں تھی، اْس وقت اس کے لیڈر تھوڑی دیر کے لئے کنٹینر سے اتر کر اسمبلی میں گئے ہوتے تو وہاں اس منصوبے پر بات کرتے یا ان کے قریباً 33 ارکان لب کشائی کرتے مگر اس وقت وہ صرف سڑک کی سیاست کررہے تھے، اتنے اہم منصوبے کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا، لیکن اب خود حکومت میں ہیں تو انہیں اس میں خامیاں نظر آنی شروع ہوگئی ہیں۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے سی پیک کے حوالے سے متضاد بیانات سامنے آنے کے بعد کئی ماہرین اور سیاست داں حیران ہیں۔ تجزیہ نگار اور سیاست دان ان بیانات کی تشریح کئی مختلف طریقوں سے کررہے ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ معاملہ وفاقی حکومت کی طرف سے ایک اور ’’یوٹرن‘‘ ہے، بعض دیگر تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ سی پیک کو ختم کیا جارہا ہے۔ چند ماہرین کے بقول ان بیانات کے تانے بانے چین کی ناراضی سے جڑے ہیں تو کچھ کے خیال میں بنیادی طور پر سعودی عرب امریکی دباؤ کے تحت سی پیک میں سرمایہ کاری سے پیچھے ہٹا ہے۔ پاکستانی حکومت نے بہت جوش و خروش سے کچھ دن پہلے اعلان کیا تھا کہ قدامت پرست عرب بادشاہت سعودی عرب پاکستان میں دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ پھر کہا گیا کہ سعودی عرب کو سی پیک میں شامل کیا جارہا ہے اور ریاض حکومت کو ریکوڈک اور کاپر مائننگ کے پروجیکٹس کے علاوہ گوادر میں ایک آئل ٹرمینل بنانے کی دعوت بھی دی جارہی ہے۔ ان اعلانات پر اپوزیشن جماعتوں میں شدید غصے کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے سینیٹ میں احتجاج بھی کیا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے ایک اور بیان سامنے آیا۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی خسرو بختیار اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نئی وضاحت یہ کی کہ سعودی عرب پاکستان میں ایک دوطرفہ معاہدے کے تحت سرمایہ کاری کرے گا اور سی پیک کا حصہ نہیں بنے گا جبکہ معروف تجزیہ نگاروں کے خیال میں عمران حکومت نے چینی دباؤ کی وجہ سے ’’یوٹرن‘‘ لیا ہے۔ پہلے حکومت نے کہا کہ اس نے چین کو اعتماد میں لے کر سعودی عرب کو سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے، لیکن ایسا تاثر بھی ہے کہ چین سعودی عرب کی شمولیت پر ناراض تھا اور چونکہ چینی باشندے سرعام اپنی ناخوشی کا اظہار نہیں کرتے، اس لئے ممکن ہے کہ بیجنگ نے خاموش سفارت کاری کے ذریعے اسلام آباد حکومت کو اپنی ناراضی سے آگاہ کیا ہو، نتیجتاً پی ٹی آئی کو ’’یوٹرن‘‘ لینا پڑ گیا ہو۔
کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ پیش رفت امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے اور ’’یوٹرن‘‘ حکومت نے نہیں لیا بلکہ سعودیہ خود پیچھے ہٹا ہے۔ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی سمجھا جاتا ہے، جس کے ساتھ ٹرمپ نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد سے 300 بلین ڈالر سے زائد کے کاروباری معاہدے کیے ہیں۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کے خیال میں سی پیک امریکی مفادات کے خلاف ہے اور سعودیہ امریکا کی مرضی کے بغیر ہی اس کا حصہ بننے کی کوشش کررہا تھا مگر واشنگٹن کے سخت ردّعمل نے اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ ’’امریکا چین کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ چین کو معاشی طور پر بہت طاقتور بنا دے گا۔ سی پیک اس پالیسی کا ایک اہم جزو ہے، تو امریکا کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ سعودی عرب، اس منصوبے کا حصہ بنے۔ تجزیہ نگار ٹرمپ کا سعودیہ کے حوالے سے بیان بھی اسی کا عکاس قرار دے رہے ہیں، جو واشنگٹن کو سعودی عرب کے سی پیک کا حصہ بننے کے ارادے پر تھا۔‘‘
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ٹرمپ کے بیان کی تشریحات کو دیکھا جائے، تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ سعودی عرب کے سی پیک کا حصہ بننے کے ارادے پر ناخوش تھے اور ریاض کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس لئے بھی کہ سعودی رہنماؤں کو خطرہ ہے کہ چین اور امریکا کی مخاصمت شدت اختیار کرتی ہے، تو واشنگٹن سعودی عرب سے کہہ سکتا ہے کہ وہ امریکا اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے۔ ظاہر ہے سعودیہ امریکا کی دوستی نہیں کھونا چاہے گا۔ اسی دوران پاکستان میں ایسی باتیں بھی گردش کررہی ہیں کہ ملائیشیا، سری لنکا، مالدیپ اور دیگر ممالک کی طرح اب پاکستان بھی اپنے ہاں چینی سرمایہ کاری کو خیرباد کہنا یا پھر اس میں کافی حد تک کمی چاہتا ہے۔ معروف سیاست دانوں کے خیال میں پی ٹی آئی حکومت سی پیک کو ختم کرنے کی طرف جارہی ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ پہلے یہ سعودی سرمایہ کاری اور دوسرے ممالک کی حصے داری کا شوشہ چھوڑ کر سی پیک کے کاموں کی رفتار کم کریں گے اور بعد میں انہیں ختم کر دیں گے۔ بلوچستان میں انہوں نے سی پیک کے کئی منصوبے ختم کرنے کے اشارے دیئے ہیں۔ سی پیک رول بیک ہوا تو اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

مطلقہ خبریں