روس اور پاکستان کے مرکزی بینکوں کے درمیان اعلیٰ سطح کا رابطہ خوش آئند اقدام
’’سی پیک منصوبے کا مالیاتی حجم 110 ارب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے‘‘ ماہر جنوبی ایشیائی امور، رابرٹ ہیتھ وے
سید علی عمران
چین نے پاکستانی منصوبہ سازوں کو مشورہ دیا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کو اپنی نیشنل اسٹرٹیجی کا حصہ بنائیں تاکہ جب بھی ملکی مفاد میں کوئی منصوبہ بنایا جائے تو سی پیک کو مدنظر رکھا جائے کیونکہ سی پیک منصوبہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لئے بہت اہم ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کو طویل مدتی ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا بلکہ خطے کی ترقی میں بھی مثبت کردار ادا کرے گا۔ پاکستان پر سی پیک منصوبے کے مثبت و منفی اثرات کی ذمہ داری پاکستان کے اقتصادی منصوبہ سازوں پر عائد ہوتی ہے مگر حال ہی میں اس منصوبے کے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات کی نوید ورلڈ بینک نے سنائی ہے جبکہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر اور امریکی مصنف روبرٹ ہیتھ وے (رابرٹ ہیتھ وے) نے تو یہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ سی پیک کا مالیاتی حجم 110 ارب ڈالر تک پہنچنے کی اُمید ہے، جس کے بعد امریکا کے چند لاکھ ڈالروں کی پاکستان کے لئے کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ واضح رہے کہ سی پیک منصوبے کی وجہ سے ہی پہلی بار روس اور پاکستان کے مرکزی بینکوں کے درمیان باقاعدہ اعلیٰ سطح کا رابطہ ہوا ہے جو ایک انتہائی خوش آئند قدم ہے اور اب وہ وقت دور نہیں جب دنیا ون بیلٹ ون روڈ کی صورت میں ایک نئی عالمی قوت دیکھے گی جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کسی صورت قبول نہیں۔ اسی لئے امریکا پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھا رہا ہے اور بھارت کے ذریعے آئے دن بلوچستان میں تخریب کاریاں کروائی جا رہی ہیں تاکہ سلک روٹ منصوبے میں شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے سی پیک منصوبے کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں تعینات چینی سفیر یاؤینگ نے کہا کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ سی پیک کو اپنی نیشنل اسٹرٹیجی کا حصہ بنائے۔ اسلام آباد چیمبر اور اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ آف کانٹلیکٹ ریزولیشن کے تحت منعقدہ ’’سی پیک، اے ون، ون پروجیکٹ‘‘ نامی سیمینار سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے یاؤینگ نے کہا کہ سی پیک پاکستان اور چین کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو مزید مضبوط کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کو بہترین اور قابل اعتماد دوست سمجھتا ہے اور اسے معاشی طور پر مضبوط دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ مضبوط پاکستان چین اور خطے کے بہتر مفاد میں ہے۔ یاؤینگ نے کہا کہ چھ راہداری منصوبوں میں سے سی پیک سب سے تیزی سے ترقی کررہا ہے، چین کو یقین ہے کہ سی پیک پاکستان میں صنعت کاری کو فروغ دینے، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور علاقائی روابط کو بہتر کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک پاکستان کے توانائی کے مسئلے کو حل کرے گا اور سڑکوں و ریلوے نظام کا نیٹ ورک قائم کرنے سے پاکستان کی اقتصادی ترقی کو بہتر کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ چین کی خواہش ہے کہ پاکستان کا نجی شعبہ سی پیک کے ذریعے بہتر ترقی اور وسعت حاصل کرے۔ یاؤینگ نے پاکستان کی تاجر برادری پر زور دیا کہ وہ سی پیک کے تحت اسپیشل اکنامک زونز میں چین کے اہم منصوبوں کے ساتھ جوائنٹ وینجرز قائم کرنے پر توجہ دیں۔ چینی سفیر نے مزید کہا کہ سی پیک کے تحت پاکستان کے صنعتی شعبے کو جدید بنانے اور اس کی بہتر ترقی کے لئے نئے مواقع پیدا کئے جائیں۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر اور امریکی مصنف روبرٹ ہیتھ وے نے کہا ہے کہ سی پیک کا مالیاتی حجم 110 ارب ڈالر تک پہنچنے کے بعد امریکا کے چند لاکھ ڈالروں کی پاکستان کے لئے کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ انہوں نے یہ انکشاف پاک امریکا تعلقات پر مبنی اپنی کتاب ’’دی لیوریج پیراڈوکس‘‘ میں کیا ہے کہ اس کے علاوہ امریکی دباؤ کے باوجود پاکستان کبھی اپنی سالمیت خطرے میں نہیں ڈالے گا چاہے امریکی امداد ہی داؤ پر کیوں نہ لگ جائے۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ پاکستان امریکا کے لئے فائدہ مند رہا ہے جبکہ ساتھ ہی ٹرمپ کی 21 اگست والی تقریر میں افغانستان کے لئے نئی امریکی حکمت عملی کا خصوصی تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دے رہے ہیں اور اسی دوران وہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررہا ہے لیکن اب اس کو بدلنا ہوگا اور یہ بہت جلد ہوگا۔ بعدازاں امریکا کے نائب صدر مائیک پنس نے لکھا کہ امریکا نے پاکستان کو نوٹس پر رکھا ہوا ہے۔ مصنف نے دو وجوہات کی بنا پر ٹرمپ پالیسی کو خطرناک قرار دیا ہے۔ ایک تو افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے لئے کسی سنجیدہ مذاکرات کی کوشش نہیں کی جارہی جبکہ دوسری جانب پاکستان کے لئے ٹرمپ کی خاموشی سے پاکستان یہ نتیجہ اخذ کررہا ہے کہ افغانستان کے معاملے میں غیرجانبداری اختیار کرلی جائے۔ پاکستان کے لئے مزید پریشان کن صورتِ حال یہ رہی کہ ٹرمپ نے افغانستان میں اقتصادی اور ترقیاتی منصوبوں میں بھارت کی عمل داری کی بھرپور حمایت کی۔ مصنف نے بتایا کہ ٹرمپ کے بیان کے فوراً بعد اسلام آباد نے واضح کردیا کہ امریکا افغانستان میں اپنی ناکامی پر پاکستان کو قربانی کا بکرا نہ بنائے۔ مصنف نے اپنی کتاب میں امریکا کو تجویز دی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی اہمیت کو نظرانداز نہ کرے۔ دنیا پیش گوئیاں کرنے میں مصروف ہے کہ عالمی افق پر سلک روٹ کے ذریعے امریکا کے مقابلے میں چین ایک سپر پاور کی حیثیت سے ابھرتا ہوا نظر آرہا ہے جبکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری اس منصوبے کی شہ رگ ہے۔ اسی لئے اس منصوبے کے مرکز یعنی گوادر جو صوبہ بلوچستان میں ہے، اسے عالمی طاقتوں نے اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ چاہے وہ بلوچستان میں بھارت کی مدد سے تخریب کاری ہو یا پھر بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی چالیں، سب کا مقصد ایک ہے کہ کسی طرح یہ منصوبہ قابل عمل نہ رہے مگر ان سب چالوں کو ایک اور دھچکا تب لگا جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر نے 15 جنوری کو ماسکو میں سینٹرل بینک آف رشین فیڈریشن (سی بی آرایف) ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا۔ یہ اسٹیٹ بینک کے کسی بھی گورنر کی جانب سے سی بی آرایف کا پہلا دورہ تھا۔ اسٹیٹ بینک نے سی بی آرایف کے ساتھ مرکزی بینکاری میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کے حوالے سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ قدم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مفاہمتی یادداشت کا مقصد مالی نظاموں کی ترقی، نظام ادائیگی، مالی انفرااسٹرکچر اور مالی اداروں کی نگرانی کے شعبوں میں دونوں مرکزی بینکوں کے حکام کے درمیان تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اسٹیٹ بینک بین الاقوامی تعاون کے محاذ پر خصوصاً گزشتہ 2 سال سے کافی سرگرم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یہ اب تک اسٹیٹ بینک کی جانب سے 20 واں ایم او یو ہے جس پر دستخط کئے گئے ہیں۔ سی پیک سے متعلق میں اپنے ہر کالم میں بار بار یہ کہتا آیا ہوں کہ یہ منصوبہ بہت عظیم الشان منصوبے کا ایک ایسا حصہ ہے جس کو پاکستان اپنے مفاد میں استعمال کرکے اپنی اقتصادیات کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اپنی تحریروں کے ذریعے حکومتی ایوانوں کو بہت سی تجاویز بھی دیں۔ حکومت کو اس منصوبے سے فوائد حاصل کرنے کے لئے ون ون پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ دونوں ممالک اس منصوبے سے اپنا اپنا حصہ وصول کرسکیں۔ اس کے لئے ہمیں چین کی طرح محب وطن اور محنتی ہونا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کے مسائل حل ہونے چاہئیں اور تمام ترقی کا واضح حصہ اس صوبے کے عوام کو ملنا چاہئے۔