امجد چوہدری
گاؤں کے ایک بزرگ جنہوں نے انگریز کا نوآبادیاتی دور اچھی طرح دیکھا تھا، کہا کرتے تھے کہ ’’سیکھنا ہے تو گوروں سے سیکھو، ان کے بارے میں پڑھو، ان کے رویوں کو غور سے دیکھو، دنیا میں ان سے زیادہ ذہین قوم کوئی نہیں ہے، دانش اور تدبر ان کے ہر قدم سے جھلکتا ہے۔‘‘ ان کی یہ بات گزشتہ روز اس وقت یاد آئی، جب یہ خبر نظر سے گزری کہ برطانوی پولیس نے قرآن پاک کی گستاخی کرکے سوشل میڈیا پر ویڈیو جاری کرنے والے اپنے دو شہریوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ سچ پوچھیں تو یہ خبر پڑھ کر گوروں پر رشک آیا اور خود پر شرم۔ حیران نہ ہوں۔ رشک اس لئے آیا کہ گوروں کو اپنی مسلم اقلیت کے مذہبی جذبات کا کتنا احساس ہے اور شرم اس لئے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر قرآن اور شان رسالت میں گستاخیاں کی جاتی رہیں، بلکہ اب بھی کی جارہی ہیں، لیکن ہماری حکومت نے مسلم اکثریت کے جذبات مجروح ہونے کا اتنا احساس بھی نہیں کیا، جتنا برطانوی حکومت نے اپنی اقلیت کا کیا۔ گستاخی کے ایک ملزم کو تفتیش کے لئے بلایا گیا تو اعلیٰ حکام خود میدان میں آئے اور اسے ’’تنگ‘‘ نہ کرنے کا حکم دیا۔ جب عوام کی جانب سے دباؤ زیادہ بڑھا تو گستاخی میں ملوث ان سارے سانپوں کو بین بجا کر خبردار کیا گیا اور باہر نکال دیا گیا۔ اس کے بعد لوگوں کو دکھانے کے لئے لکیر پیٹی گئی۔ قوم کو بہلانے کے لئے یہ بیان دیئے گئے کہ سوشل اکاؤنٹس تک رسائی مشکل ہے۔ عالمی کمپنیوں کو اخباری تڑیاں بھی لگائی گئیں کہ انہوں نے ڈیٹا نہ دیا تو یہ کردیں گے، وہ کردیں گے۔ لیکن نہ یہ ہوا اور نہ وہ۔ معاملہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا کردیا گیا۔ اگر گستاخوں کو تلاش کرنا مقصود ہوتا تو اسی طرح کرلیا جاتا، جس طرح سوشل میڈیا پر وزیراعظم کے ساتھ چیف جسٹس کی جعلی تصویر لگا کر چلانے والوں کو فوراً تلاش کرلیا گیا تھا۔ حال ہی میں فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کو بھی ایف آئی اے نے پکڑ لیا۔ لیکن گستاخوں کو چونکہ پکڑنا نہیں تھا، منغرب کی ناراضی کا خوف تھا۔ اس لئے ان کے معاملے میں بہانے ہی سامنے آئے۔
لیکن اسی مغرب کے سب سے بڑے نمائندے برطانیہ کو دیکھیں کہ اس نے قرآن پاک کی گستاخی پر کس سرعت کے ساتھ کارروائی کی۔ ملوث دونوں افراد نے قرآن پاک کو شہید کرکے ویڈیو سوشل میڈیا پر چلائی تھی۔ سوشل میڈیا پر تلاش کرنا وقت طلب ہوتا ہے، لیکن اس معاملے میں برطانوی پولیس نے وقت نہ لگایا۔ عام طور پر برطانیہ میں ملزمان کی تصاویر جاری نہیں کی جاتیں۔ صرف عدالتوں سے سزا ملتے ہی ان کی تصاویر سامنے آتی ہیں، لیکن اس معاملے میں ملوث افراد کی تصاویر بھی فوری جاری کردی گئیں۔ گستاخی کے یہ واقعات لندن حملوں کا ردعمل ظاہر کئے گئے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ ان حملوں میں بدقسمتی سے مسلمان ملوث تھے، اس لئے انتہاپسندوں نے ایسی حرکت کی۔ مگر آپ گوروں کی دانش اور تدبر کو دیکھیں کہ انہوں نے اس معاملے کو پھیلنے سے پہلے ہی کنٹرول کرلیا، ملوث افراد کو گرفتار کرکے دوسروں کو یہ پیغام دے دیا کہ اگر کسی نے یہ حرکت کی تو اس کے ساتھ بھی یہ سلوک ہوگا۔ پولیس نے عوام کے لئے باقاعدہ میسج جاری کیا کہ مسلمانوں کے جذبات کی توہین برداشت نہیں کی جائے گی۔ ایسا کرنے پر نفرت پھیلانے کے جرم میں کارروائی کی جائے گی۔ عوام سے کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر ایسی کوئی چیز نظر آئے تو اسے شیئر نہ کریں بلکہ پولیس کو اطلاع دیں۔ شیئر کرنے والے کو بھی قانونی کارروائی سے ڈرایا گیا۔ یہ سب کچھ جانتے ہیں کیوں کیا گیا؟ برطانوی معاشرے کو تقسیم اور انتشار سے بچانے کے لئے۔ مسلمانوں سے زیادہ برطانیہ کے مفادات کی حفاظت کے لئے۔ کیونکہ گورے جانتے تھے کہ اگر مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے گئے تو ان میں مزید انتہاپسند پیدا ہوں گے، عمل اور ردعمل کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ 35 لاکھ مسلمان برطانوی معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔ ان میں اور اکثریت میں تقسیم اور تفریق پیدا ہوگئی تو حالات بگڑ سکتے ہیں، اس لئے انہوں نے صرف قرآن کی گستاخی کرنے والوں کو ہی گرفتار نہیں کیا بلکہ مسلم کمیونٹی کے اہم رہنماؤں سے بھی رابطہ کیا۔ انہیں کارروائی کا یقین دلایا۔ تحفظ کی یقین دہانی کرائی اور اپیل کی کہ وہ عام برطانوی مسلمان کو بھی حکومت کا پیغام پہنچائیں۔
آپ کو گوروں کا تدبر اور دانش 2005ء میں لندن میں ہونے والے سیون سیون حملوں کے موقع پر بھی نظر آئے گا۔ یہاں وضاحت کرتے جائیں کہ عام طور پر گورے سے مراد سفید چمڑی والے سارے یورپی شہری لئے جاتے ہیں، حالانکہ گورے سے مراد برطانوی ہوتے ہیں۔ سیون سیون دھماکے برطانیہ کے دل لندن میں کئے گئے تھے۔ ان میں 52 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے۔ اسے برطانیہ کا نائن الیون قرار دیا گیا۔ لیکن گوروں نے اپنی دانش اور تدبر سے اسے نائن الیون نہ بننے دیا۔ امریکہ میں نائن الیون کے حملوں کے بعد مسلمانوں سے نفرت کو ہوا دی گئی۔ ان کے گھروں اور کاروباری مراکز پر چھاپے مارے گئے۔ ریلوے اسٹیشنوں سے لے کر ہوائی اڈوں تک ان سے امتیازی سلوک شروع کردیا گیا۔ داڑھی اور حجاب کو نشانہ بنایا گیا، حتیٰ کہ مسلم نام رکھنے پر بھی شک کیا جانے لگا۔ جس کے نتیجے میں مسلم اقلیت اور اکثریت میں تقسیم پیدا ہوگئی۔ مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ ان پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا، جس کے جواب میں مسلمانوں میں بھی انتہاپسند پیدا ہوئے۔ آج نائن الیون کے 16 برسوں بعد بھی امریکی معاشرے میں یہ تقسیم قائم ہے۔ مسلم اقلیت اور اکثریت میں اعتماد کا فقدان ہے۔ ابھی تازہ حملہ کچھ روز قبل ہی ہوا ہے، جب ایک انتہاپسند امریکی نے دو باحجاب مسلم خواتین پر ہوٹنگ کی، جس پر اس کے اپنے ہی ہم وطن دو افراد سمجھانے کے لئے آگے بڑھے تو اس نے ان دونوں کو قتل کردیا۔ امریکی معاشرے میں مسلمانوں کے لئے خوف کی فضا بھی برقرار ہے، جس کے نتیجے میں وہاں سے کئی بڑے مسلم سرمایہ کاروں نے سرمایہ نکال لیا، بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہوگی جو امریکہ میں سرمایہ کاری کرسکتے تھے، لیکن وہاں موجود فضا کی وجہ سے انہوں نے دوسرے ملکوں کا رخ کیا ہوگا، مگر سیون سیون دھماکوں کے باوجود برطانیہ میں ایسا کچھ نہ ہوا۔ مسلمانوں کے گھروں پر چھاپے پڑے، نہ ان سے حکومت نے اپنا ہمدردانہ رویہ تبدیل کیا۔ امریکہ کے برعکس انہیں معاشرے سے کاٹنے کے بجائے مزید جوڑنے کے لئے اقدامات کئے۔ اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان نژاد صادق خان ہیں، جو برطانیہ کے دارالحکومت اور اس کے دل لندن کے میئر ہیں۔ ان کی اس عہدے پر موجودگی کو آپ ان سے زیادہ گوروں کی کامیابی قرار دے سکتے ہیں، کیونکہ صادق خان برطانوی معاشرے کے کھلے پن کی علامت ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ سیون سیون دھماکوں کے بعد برطانیہ نے کچھ بھی نہ کیا ہو۔ انہوں نے پالیسی میں تبدیلیاں کیں۔ لیکن غیرمحسوس انداز میں۔ امیگریشن کو انہوں نے کم کیا اور مشکل بنایا۔ مسلم کمیونٹی کی نگرانی بڑھائی لیکن نگرانی کے ساتھ رابطے بھی بڑھائے۔ ان کے لئے تعلیم اور روزگار کی سہولتیں بڑھانے کے لئے بھی اقدامات کئے۔ انہیں اپنے معاشرے سے ہم آہنگ کرنے کے لئے کوششیں تیز کیں۔ اس لئے امریکہ کے برعکس برطانیہ کا تاثر وہاں کی مسلم اقلیت اور دُنیا بھر کے مسلمانوں میں خراب نہیں ہوا۔
آپ کو گوروں کی دانش اور تدبر جنگوں میں بھی نظر آئے گا۔ اپنی ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے برطانیہ عراق جنگ میں امریکہ کے ساتھ تھا۔ امریکہ اس کا سب سے بڑا اتحادی ہے، اس سے وہ اپنی طاقت کشید کرتا ہے، اسی کے ذریعے وہ عالمی سیاست میں اپنا مقام بڑھاتا ہے، پھر معاشی مفادات بھی تھے، اس لئے وہ عراق جنگ میں شریک تو ہوا، لیکن بصرہ جیسے شیعہ اکثریتی اور ساحلی شہر میں اس نے اپنا اڈا بنا لیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ شیعہ علاقے میں لڑائی نہیں ہوگی۔ وہاں کے لوگ صدام کے مخالف تھے، اس لئے کوئی ان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے گا، پھر انہوں نے شیعہ قبائل کے ساتھ بھی روابط قائم کرلئے۔ افغان جنگ میں بھی آپ کو ایسا کچھ ہی نظر آئے گا۔ برطانوی فوج نے ہلمند جیسے علاقے کو اپنے لئے چنا اور وہاں کے قبائل بلکہ الزام تو یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ مقامی طالبان کمانڈروں کے ساتھ بھی بیک ڈور رابطوں کے ذریعے اس علاقے کو باقی افغانستان کے مقابلے میں پُرامن رکھا اور اس کے نتیجے میں اپنی فوج محفوظ رکھی۔
گوروں کی دانش اس بات سے بھی جھلکتی ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کو ایسا مرکز بنا دیا ہے، جہاں دُنیا بھر کے باغی اور اپوزیشن رہنما پناہ حاصل کرتے ہیں اور یہ رہنما برطانوی خارجہ پالیسی کا اہم ہتھیار ہوتے ہیں۔ برطانیہ آپ کو این آر او میں پرویز مشرف اور پی پی پی کے درمیان بھی نظر آئے گا اور ن لیگ اور پی پی پی کے میثاق جمہوریت میں بھی۔ آپ کو وہاں الطاف حسین سے لے کر باغی بلوچ رہنماؤں تک سب پناہ لئے ہوئے نظر آئیں گے۔ سعودیہ سمیت عرب ممالک ہوں یا مصر کے اپوزیشن رہنما، ایران کے مجاہدین خلق ہوں یا خالصتان کے لئے جدوجہد کرنے والے سکھ، سری لنکا کے تامل ہوں یا افریقی ممالک کو لوٹنے والے آمر۔۔۔ آپ گوروں کو ان سب کی میزابانی کرتے دیکھیں گے۔ روس سے لے کر وسط ایشیا کے منحرف اور اپوزیشن رہنما سب آپ کو وہاں مہیں گے۔ کمیونزم کے نام پر جدوجہد کرنے والوں سے لے کر حزب التحریر اور المہاجرون جیسی سخت گیر اسلامی تنظیموں تک ہر ایک کی موجودگی اور نمائندگی آپ کو برطانیہ میں نظر آئے گی، حتیٰ کہ امریکہ کو انتہائی مطلوب وکی لیکس کے بانی جولین اسانچ بھی لندن میں موجود ہیں۔ کہنے کو تو وہ ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لئے ہوئے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ وہ وہاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے تو نہیں گئے بلکہ لندن میں ٹانگوں سے چل کر ہی وہاں پہنچے ہیں۔
دُنیا بھر کے اپوزیشن اور باغی رہنماؤں کو پناہ دینے کے باوجود آپ کو کو کسی بھی حصے میں یونین جیک جلتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ دُنیا میں مغرب کے خلاف مظاہروں میں امریکی پرچم ہی جلتے ہیں۔ اسے بھی آپ گوروں کی دانش اور حکمت عملی کی کامیابی قرار دے سکتے ہیں۔ برطانیہ ایک وقت میں نصب دُنیا پر حکمرانی کرتا رہا ہے، لیکن اب وہ سمٹ گیا ہے، اس کی آبادی بھی ساڑھے 6 کروڑ کے قریب ہے، اسی لئے کچھ عرصہ قبل روسی صدر پیوٹن نے برطانیہ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے قد سے بڑے کام کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پیوٹن اپنی جگہ ٹھیک ہوں گے، لیکن وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ برطانیہ اپنے سائر نہیں، اپنے لوگوں کی عقل کی وجہ سے سب کچھ حاصل کرتا ہے۔
گوروں کی دانش کا ایک نمونہ آپ کو پنجاب کے دیہات میں نمبردار کی صورت میں نظر آئے گا۔ نوآبادیاتی دور میں یہ عہدہ دیہاتوں کے عوام کی بھرتیوں اور کاغذات کی تصدیق وغیرہ سمیت سرکاری کاموں میں معاونت فراہم کرنے کے لئے تخلیق کیا گیا تھا۔ گوروں کو گئے ہوئے 70 برس ہوچکے ہیں، لیکن یہ عہدہ اب بھی اپنی افادیت رکھتا ہے۔ کیونکہ ہم تو آج تک مستقل بلدیاتی نظام بھی قائم نہیں کر پائے۔ آج بھی دیہات کے لوگ شناختی کارڈ سے لے کر پاسپورٹ تک ہر معاملے میں نمبردار سے مدد لیتے ہیں۔ اس تک آسانی رسائی کے باعث کاغذات کی تصدیق اس سے کراتے ہیں۔ لیکن گوروں کی دانش اور تدبر کوئی جنیاتی نہیں ہے۔ یہ دانش اور تدبر کبھی مسلمانوں کی میراث ہوا کرتا تھا۔ وہ قرآن کی تعلیمات پر غوروفکر کرتے تھے، علم اور تحقیق کے لئے اس کی دعوت پر کام کرتے تھے، لیکن جب وہ دُنیا میں مگن ہوگئے۔ دین سے دور ہوگئے، تو دانش اور تدبر کی میراث بھی انہوں نے کھودی اور اس کے ساتھ دُنیا پر حکمرانی کی میراث بھی ان کے ہاتھوں سے جاتی رہی۔