اگر پانی ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظاما ت کئے جائیں تو سیلابوں سے ہونے والی تباہی میں خاطرخواہ کمی لائی جا سکتی ہے اور ذخیرہ شدہ پانی کو خشک موسم میں زرعی اور دیگر مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ ایک طویل مدتی منصوبہ بندی، مالی اور تکنیکی وسائل کی دستیابی اور سب سے بڑھ کر حکمرانوں کے عزم کا سوال ہے کہ وہ پانی کے اس بے قاعدہ بہاؤ کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی دیرپا حکمت عملی وضع کریں
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی
سیلاب قدرتی کے ساتھ ساتھ انسانی آفات میں شامل ہے۔ بارش ایک قدرتی امر ہے مگر اس کے منفی اثرات سے نبردآزما ہونا انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کو ماضی میں زلزلوں، وبائی امراض اور سیلاب جیسی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سیلابوں نے پاکستان میں بار بار تباہی مچائی ہے۔ سویلین انتظامیہ پوری کوشش کرتی ہے کہ آفت زدگان کے لئے ریسکیو اور ریلیف کا کام کیا جائے لیکن سیلابی پانی کو روکنے کے لئے شاید ہی کبھی مستقل بندوبست کرنے کی کوئی کوشش کی گئی ہو۔ ہم سالہا سال سے آبی گزرگاہوں کے بارے میں تو جانتے ہیں مگر ان آبی گزرگاہوں کی مدد سے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لئے ناکافی کوششیں کی گئی ہیں۔ اگر پانی ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظاما ت کئے جائیں تو سیلابوں سے ہونے والی تباہی میں خاطرخواہ کمی لائی جا سکتی ہے اور ذخیرہ شدہ پانی کو خشک موسم میں زرعی اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک طویل مدتی منصوبہ بندی، مالی اور تکنیکی وسائل کی دستیابی اور سب سے بڑھ کر حکمرانوں کے عزم کا سوال ہے کہ وہ پانی کے اس بے قاعدہ بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی دیرپا حکمت عملی وضع کریں۔
یہ امر اس لئے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دنیا کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں موسمیاتی تغیرات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے بیشتر حصے طوفانی بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے گلگت بلتستان اور چاروں صوبوں میں لوگوں کو جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان سیلابوں سے صوبہ بلوچستان شدید متاثر ہوا ہے۔ اس صوبے میں ناقص پلاننگ اور مینجمنٹ، ناکافی وسائل اور جغرافیائی عوامل کی وجہ سے پہلے ہی بنیادی انسانی سہولتوں کا فقدان ہے۔ دوسرے نمبر پر شدید متاثر ہونے والا صوبہ سندھ ہے۔ ان دونوں صوبوں اور پاکستان کے دیگر حصوں میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان نے حالیہ سیلابوں کو ایک قومی المیے میں بدل دیا ہے۔ 2010ء میں بھی پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا تھا جس سے ملک بھر میں بھاری نقصان ہوا تھا۔ 2011ء اور 2012ء میں بھی کم شدت والے سیلاب اور اس کے بعد کے برسوں میں بھی محدود نوعیت کے سیلاب آتے رہے۔ 2005ء میں کشمیر اور اس سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں تباہ کن زلزلہ آیا تھا۔ کئی مرتبہ پاکستان کو وبائی امراض کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ متعدد بار ڈینگی کے چیلنج سے بھی واسطہ پڑ چکا ہے، تاہم حکومت کے بروقت اقدامات کی بدولت یہ چیلنج قابو سے باہر نہیں ہوا۔ 2020-22ء کے عرصے میں پاکستان کو کرونا وائرس کی تباہی کا سامنا رہا جس سے پورا ملک متاثر ہوا۔ کووڈ پر تو بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، تاہم یہ کم شدت کے ساتھ آج بھی پاکستان میں موجود ہے۔ 1947ء سے ہی پاکستان میں سیلاب اتنی کثرت سے آتے رہے ہیں کہ انہیں پاکستانی عوام کے لئے ایک دائمی اور تباہ کن چیلنج قرار دیا جا سکتا ہے، تاہم پاکستانی حکومتوں نے انہیں مستقل بنیادوں پر کنٹرول کرنے کے لئے ناکافی اقدامات کئے ہیں۔ حکومت کی اپروچ یہ رہی ہے کہ فوری ریسکیو اور ریلیف آپریشن شروع کردیا جائے۔ کبھی اس پہلو پر دھیان نہیں گیا کہ سیلابوں سے نبردآزما ہونے کے لئے کوئی مستقل حل نکالا جائے تاکہ ان سے ہونے والے نقصانات اور تباہی کو کم سے کم سطح پر لایا جاسکے۔ اگر ہم حالیہ سیلابوں پر سرکاری ردعمل کا جائزہ لیں تو یہ خاص طور پر بلوچستان میں انتہائی سست رفتار اور بدنظمی کا شکار تھا۔ حکومتی محکموں اور اداروں نے موثر ریسکیو اور ریلیف آپریشن شروع کرنے میں کافی تاخیر سے کام لیا۔ ریلیف ورک میں تیزی لانے کے لئے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنا پڑا۔ ان سیلابوں کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں حکومتی اور اپوزیشن سیاسی اشرافیہ اقتدار کا گھٹیا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف فوجداری اور دہشت گردی کے مقدمات درج کروا رہی ہیں اور انہیں جھوٹی اَنا پرستی میں مبتلا ہو کر ایک دوسرے کو سیاسی منظرنامے سے نیست ونابود کر دینے کے خطرناک نتائج کی ذرہ برابر پروا نہیں ہے۔ اس طرح کی تنگ نظری پر مبنی سیاست کے جمہوریت اور پاکستان کے مستقبل پر یقینا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ہماری سیاسی اشرافیہ کو چاہئے کہ فی الحا ل اپنی اقتدار کی رسہ کشی کی جنگ ترک کرکے ساری توجہ سیلاب زدگان کی مدد اور بحالی پر مرکوز کرے۔ یہ ایک قومی سانحہ ہے اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر قومی اپروچ اپنانے کا متقاضی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا کثیر حصہ غربت، افلاس اور پسماندگی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ ان سیلابوں نے ان کی غربت میں اضافہ کرکے ان کی زندگیوں کو مزید ابتری کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اگرچہ سرکاری محکمے دن رات ریسکیو اور ریلیف آپریشنز میں مصروف ہیں تاہم سویلین انتظامیہ کی نااہلی پوری طرح آشکار ہوچکی ہے۔ یہ امر کسی کے لئے باعث حیرت نہیں ہے کیونکہ ہماری سیاسی اور سویلین اشرافیہ کی طویل مدتی پلاننگ ضرورت پڑنے پر اکثر ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں بڑی سست روی اور غیرمنظم انداز میں امدادی کام شروع کرتے ہیں۔
مستقبل میں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں متعدد ایشوز پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ امدادی کام میں تیز رفتاری لانے کے لئے وزیراعظم کے دورے کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے۔ ضلعی سطح پر ایک خودانحصار اور ہر دم تیار ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کیوں موجود نہیں جو کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں خودکار طریقے سے ریلیف آپریشن شروع کردے۔
ماضی کی طرح ان سیلابوں میں بھی ہمیں فوج اور پیرا ملٹری فورسز پر انحصار کرنا پڑا ہے۔ چونکہ فوج ایک منظم ادارہ ہے اور ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے اس کے پاس تربیت اور وسائل بھی دستیاب ہیں اس لئے ریسکیو اور ریلیف آپریشنز میں وہی سب سے پہلے پہنچتی ہے۔ نیوی اور ایئرفورس بھی امدادی کاموں میں بھرپور ہاتھ بٹاتی ہیں۔ لوگوں کی جانیں بچانے کے علاوہ تینوں افواج نے سیلاب زدگان میں خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ بھی تقسیم کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے صحتِ عامہ سے متعلق سہولتیں بھی فراہم کیں۔ رضاکار تنظیموں کی طرف سے بھی ایک قابلِ قدر سپورٹ مہیا کی گئی جنہوں نے سیلاب زدگان کو خوراک، ادویات اور کپڑے فراہم کئے۔ ان کی رضاکارانہ خدمات سے حکومت کو سیلاب زدگان کو ریسکیو کرنے کی کوششوں میں اضافی مدد مل گئی۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کی جانب سے بھی مفید کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ سیلابی پانی کی سطح کم ہونے کے بعد متاثرہ عوام کی بحالی کے کام پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے محتاط پلاننگ اور وسائل کی فراہمی کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں اولین اور اہم ترین کام یہ ہے کہ بارش کے پانی کو روک کر ذخیرہ کرنے کے مستقل انتظامات کرنے پر توجہ دی جائے تاکہ جانی اور مالی نقصان سے بچا جائے اور ذخیرہ شدہ پانی کو خشک موسم کے دنوں میں زرعی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی اسٹڈی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کو محض چانس پر نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ جوں جوں پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہوگا توں توں طوفانی بارشوں اور سیلابوں سے مزید نقصان ہونے کا احتمال ہے۔ بجائے یہ انتظار کرنے کے کہ سیلاب آنے کے بعد متاثرہ عوام کے لئے ریسکیو اور ریلیف آپریشنز شروع کئے جائیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتِ پاکستان بارشوں اور سیلابوں کو کنٹرول کرنے کے دیرپا اور مستقل انتظامات کرے۔