Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج۔۔ جسٹس عائشہ ملک

جسٹس عائشہ اے ملک نے امریکا میں ہاورڈ لاء اسکول سمیت پاکستان اور بیرون ملک سے تعلیم حاصل کی، وہ سابق چیف الیکشن کمشنراور نامور قانون دان جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی ایسوسی ایٹ رہیں اور لگ بھگ چار برس تک ان کے ساتھ بطور معاون کام کیا
شہزاد ملک
جسٹس عائشہ اے ملک سپریم کورٹ میں جج کے عہدے پر تعینات ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔ یہ امر حیران کن ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت اپنے قیام کے عشروں بعد بھی ملک کی پچاس فیصد آبادی کی نمائندگی سے محروم رہی ہے۔ کئی عشرے پہلے جب عائشہ اے ملک نے اپنے والد ارشد مسعود کو اپنے اس ارادے سے آگاہ کیا کہ وہ قانون کے شعبے کو اپنا کیریئر بنانا چاہتی ہیں تو شعبہ قانون کی مشکلات سے شناسائی رکھنے والے جسٹس عائشہ کے والد نے اس پر خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا بلکہ وہ یہ سن کر بہت متفکر ہوئے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ جسٹس عائشہ کو اپنے لئے کسی اور شعبے کا انتخاب کرنا چاہئے۔ وقت گزرا، زمانہ بدلا، جسٹس عائشہ ہارورڈ لاء اسکول، کیمبرج، میساچوسٹس، امریکا وغیرہ سے اپنی تعلیم مکمل کر کے جب پاکستان واپس پہنچیں تو انہوں نے اس دور کے نامور قانون دان فخرالدین جی ابراہیم کی لاء فرم کو جوائن کرلیا۔ چند ہی سالوں میں اپنی محنت اور قابلیت سے انہوں نے قانون کے حلقوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ اس پر جسٹس عائشہ کے والد نے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
یہ یقیناً ایک اعزاز ہے تاہم اگر ان کی تقرری کی سفارش نہ بھی ہوتی تو امکان یہی تھا کہ وہ 2026ء میں لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس بن سکتی تھیں جو اپنی نوعیت کا ایک الگ اعزاز ہوتا۔ جسٹس عائشہ اے ملک 3 جون 1966ء میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے امریکا میں ہاورڈ لاء اسکول سمیت پاکستان اور بیرون ملک سے تعلیم حاصل کی۔ وہ سابق چیف الیکشن کمشنر اور نامور قانون دان جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی ایسوسی ایٹ رہیں اور لگ بھگ چار برس تک یعنی 1997ء سے لے کر 2001ء تک ان کے ساتھ بطور معاون کام کیا۔ 55 سالہ جسٹس عائشہ اے ملک اُس لا فرم کا حصہ رہی ہیں جس کو قائم کرنے والوں میں سے ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی تھے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کو عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعد 27 مارچ 2012ء کو لاہور ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا اور دس برسوں کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں کسی خامون وکیل کا بطور جج تقرر ہوا۔ جسٹس عائشہ اے ملک کے لاہور ہائی کورٹ میں تقرر کے بعد اُس وقت لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ان کے تقرر کے خلاف ایک قرارداد بھی منظور کی جس میں ان کے تقرر پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہوا۔ اس اجلاس کا ایک نکاتی ایجنڈا تھا جو کہ جسٹس عائشہ اے ملک کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کرنے سے متعلق تھا۔ جسٹس عائشہ اے ملک کا نام دوسری مرتبہ کمیشن کے سامنے رکھا گیا تھا۔ اُن کا نام چیف جسٹس گلزار احمد نے تجویز کیا تھا۔ کمیشن کے پانچ ارکان نے جسٹس عائشہ اے ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی حمایت اور چار نے مخالفت کی۔ چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل تعیناتی کی حمایت کی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج تک کوئی خاتون جج تعینات نہیں ہوئیں۔ گزشتہ برس بھی جسٹس عائشہ ملک کا نام تجویز ہوا تھا تاہم جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کے ارکان کے چار چار ووٹ برابر ہونے کی وجہ سے اُن کی تعیناتی ممکن نہیں ہوسکی تھی۔
پاکستان بار کونسل سمیت ملک بھر کی وکلا تنظیموں کا ایک دھڑا جسٹس عائشہ اے ملک کی بطور سپریم کورٹ جج نامزدگی کو سینیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس تجویز کی مخالفت کررہا تھا جبکہ خواتین وکلا کی تنظیم نے موقف اپنایا ہے کہ سپریم کورٹ میں سینیارٹی کی بنیاد پر ججوں کی تعیناتی ابھی تک ایک معمہ ہے اور اس حوالے سے نہ تو ملکی آئین میں لکھا گیا ہے کہ سینیارٹی کو مدنظر رکھا جائے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی قانونی رکاوٹ ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے گزشتہ دنوں ہونے والے اجلاس کے موقع پر وکلا تنظیموں کی طرف سے احتجاج کے مدنظر پولیس کی بھاری نفری سپریم کورٹ کی عمارت میں تعینات کی گئی تھی۔ گزشتہ اجلاس میں کمیشن کے رُکن اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج دوست محمد نے سینیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے جسٹس عائدہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی مخالفت کی تھی اور وکلا کے موقف کی تائید کی تھی۔ جسٹس ریٹائرڈ دوست محمد کی بطور ممبر کمیشن دو سال کی مدت پوری ہونے کے بعد اُن کی جگہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سرمد جلال عثمانی کو کمیشن کا رُکن مقرر کیا گیا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کی بطور رکن جوڈیشل کمیشن تعیناتی سے متعلق حکومت اور وکلا تنظیمیں یہ دعویٰ کررہی تھیں کہ کمیشن کے نئے رکن بھی اُن کے موقف کی تائید کریں گے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کے مطابق وکلا تنظیمیں جسٹس عائشہ اے ملک کے خلاف نہیں ہیں بلکہ نمائندہ تنظیمیں چاہتی ہیں کہ سینیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے سینئر ترین جج کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا جائے، تاہم اجلاس کے روز ہی لاہور ہائی کورٹ بار نے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کردیا ہے۔ درخواست میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ جب تک جوڈیشل کمیشن کے قواعد و ضوابط (رولز) نہیں بنتے اس وقت تک سینیارٹی کے ہی اصول کو مدنظر رکھ کر تعیناتیاں کی جائیں۔ اس دروخواست میں یہ کہا گیا ہے کہ جونیئر ججوں کی تعیناتی سے سپریم کورٹ کی ساکھ بطور ادارہ متاثر ہورہی ہے۔
اس درخواست میں ماضی میں جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات کرنے کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ جونیئر وکلا کی درخواست کے مطابق سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سندھ ہائی کورٹ کے جونیئر جج منیب اختر کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی منظوری دی جبکہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور میں جسٹس قاضی امین اور جسٹس مظاہر علی نقوی کو سینیارٹی کے اصول کو نظرانداز کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں جج تعینات کیا گیا۔ جسٹس عائشہ اے ملک قانون کی ماہر مانی جاتی ہیں، وہ آئینی، بینکنگ، ٹیکس اور انسانی حقوق کے امور پر دسترس رکھتی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق وہ پاکستان کی مختلف جامعات میں بینکنگ لاء اور مرکنٹائل لاء پڑھا چکی ہیں۔ انہیں انگلینڈ اور آسٹریلیا میں بچوں کی تحویل، طلاق، خواتین کے حقوق اور پاکستان میں خواتین کے آئینی تحفظ کے کیسز میں ماہر کے طور پر بلایا جا چکا ہے۔ انہوں نے مختلف این جی اوز کے ساتھ غربت کے خاتمے، مائیکرو فنانسنگ اور ہنر کی ٹریننگ کے پروگرامز میں معاونت کی ہے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی اشاعت آکسفورڈ رپورٹس فار انٹرنیشنل لاء اِن ڈومیسٹک کورٹس کے لئے پاکستان کی رپورٹر رہی ہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کے مقبول فیصلوں میں جنسی تشدد کی شکار خواتین کے طبی معائنہ کے طریقہ کے بارے میں فیصلہ بہت نمایاں ہے۔ شریف فیملی کی شوگر ملوں کی جنوبی پنجاب کے علاقے رحیم یار خان منتقلی سے روکنے کا فیصلہ بھی ان کے مشہور فیصلوں میں سے ایک ہے۔ ان کی شادی نجی لاء کالج کے پرنسپل اور قانون دان ہمایوں احسان سے ہوئی اور ان کے تین بچے ہیں۔ سپریم کورٹ کا ججا مقرر ہونے کے بعد جسٹس عائشہ اے ملک کی کی معیار عہدہ میں تین برس کی توسیع ہوجائے گی۔ پہلے انہوں نے 2 جون 2028ء کو ریٹائرڈ ہونا تھا لیکن اب 2031ء میں ریٹائر ہوں گی۔ اس توسیع سے سپریم کورٹ کی نئی جج جسٹس عائشہ اے ملک اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک سال پہلے چیف جسٹس بن سکتی ہیں جو ایک منفرد اعزاز ہوگا۔

مطلقہ خبریں