Wednesday, July 30, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سپرپاور کا اعترافِ شکست

محمد ایاز

افغانستان میں امریکی موجودگی کو 17 سال ہوچکے ہیں، نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر قیامت برپا کی اور طالبان حکومت کو تہس نہس کردیا اور اس کی جگہ ایک کٹھ پتلی حکومت لے کر آئی جو بُری طرح ناکام ثابت ہوئی

افغانستان میں امریکی موجودگی کو 17 سال ہوچکے ہیں، نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر قیامت برپا کی اور طالبان حکومت کو تہس نہس کردیا اور اس کی جگہ ایک کٹھ پتلی حکومت لے کر آئی جو بُری طرح ناکام ثابت ہوئی، امریکہ نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح اس حکومت کو مستحکم کیا جائے لیکن طالبان نے نہ صرف اس حکومت کو نہ مستحکم ہونے دیا بلکہ امریکی افواج کے ساتھ بھی دلیرانہ طور پر لڑتے رہے اور افغانستان میں امریکہ کو اس حکومت کے استحکام اور ذاتی مفاد کو حاصل کرنے نہ دیا، امریکہ کو اس مد میں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکہ کے ہزاروں فوجی ہلاک ہوئے اور اربوں ڈالر ان 17 سال میں جنگ کی مد میں خرچ کیے گئے لیکن ان سب کا خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلا، ذیل میں امریکی اداروں کے شائع کردہ رپورٹ سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع ’’پینٹاگون‘‘ امریکی محکمہ خارجہ اور امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس اے آئی ڈی) کے انسپکٹرز جنرل کے مشترکہ جائزے پر مبنی ایک رپورٹ جو جولائی سے ستمبر 2018ء کے تین ماہ کے دوران افغانستان کی فوجی، سیاسی اور سماجی صورتِ حال کے جائزے پر مشتمل ہے جو افغانستان میں جاری جنگ کے 17 سال مکمل ہونے کے موقع پر جاری کی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جولائی تا ستمبر 2018ء کی سہ ماہی کے دوران افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جب کہ تمام تر کوششوں اور سرگرمیوں کے باوجود مفاہمت کے حصول کی کوششوں میں بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افغان سیکیورٹی فورسز کے جانی نقصان میں اضافہ ہورہا ہے اور بنیادی انسانی ضروریات بڑھ رہی ہیں۔ امریکی فوج افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو پہنچنے والے جانی نقصان کی تفصیلات جاری نہیں کرتی لیکن گزشتہ ہفتے ہی اپنے دورۂ واشنگٹن کے دوران افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ گزشتہ چار سال کے دوران افغان فوج اور پولیس کے 28 ہزار 529 اہلکار فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہوئے جب کہ اس کے مقابلے میں اس عرصے کے دوران مرنے والے امریکیوں کی تعداد صرف 58 رہی۔ رپورٹ امریکی مسلح افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفرڈ کے گزشتہ ہفتے کے اس بیان کی بھی تائید کرتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ طالبان کو امن مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوششیں ناکافی ہیں۔ ایک سیکورٹی کانفرنس سے خطاب میں امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ طالبان پر فوجی، سیاسی اور سماجی دباؤ بڑھانے کے معاملے پر امریکہ اب بھی اس مقام سے بہت دور ہے جہاں کھڑا ہو کر وہ کہہ سکے کہ وہ صحیح راستے پر ہے۔وی او اے
امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان میں کمانڈر، جنرل جان نکلسن نے افغانستان کے محاذ پر چار مرتبہ فرائض انجام دیئے ہیں اور شاید ان کے مقابلے میں کوئی دوسرا افسر اس افغان جنگ کی دلدل کی گہرائی اور گیرائی سے آگاہ نہیں ہے۔ جنرل نکلسن اپنی ذمہ داری سے سبکدوشی کے موقع پر الوداعی تقریب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’آج میں اپنے دل کی بات کرنا چاہتا ہوں اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس جنگ کو ختم کردیں‘‘۔ افغانستان کی جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے۔ بدقسمتی سے اس کے ابتدائی مقاصد، جو نائن الیون کے حملوں کا بدلہ لینا تھا، سیاستدانوں اور ملٹری لیڈرز کے ذہنوں سے محو ہوگئے اور پھر یہ جنگ صرف اس وجہ اس لڑی جا رہی تھی کہ امریکی فوجیں وہاں موجود تھیں۔ اوبامہ نے 2014ء میں فوجی انخلا کا وعدہ کیا تھا لیکن ملٹری کمانڈرز نے انہیں مجبور کردیا کہ وہ مکمل انخلا نہ کریں اور کوئی 8 ہزار فوجی افغان فوج کی تربیت اور اسپیشل آپریشنز کے لئے چھوڑ دیئے گئے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ چاہتے ہوئے اور انتخابی وعدوں کے برخلاف اس فوج میں چار ہزار کا مزید اضافہ کردیا اور اس کی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لئے اس کو آزادانہ فیصلے کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ لیکن ایک سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود زمینی حقائق مسلسل ناکامی اور نامرادی کی تصویر پیش کررہے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ ہزار فوج واپس بلانے کا فیصلہ کرلیا ہے جن کا انخلا تاحال جاری ہے۔ نیویارک ٹائمز نے نائن الیون کے 17 سال مکمل ہونے پر ایک طویل رپورٹ شائع کی ہے جو امریکی نقصانات کی نشاندہی کرتی ہے اور اس سلسلے میں حکومت کی تواتر کے ساتھ ان کوششوں کا بھی پتہ دیتی ہے کہ کس طرح اس نے ان حقائق کو عوام سے پوشیدہ رکھا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں اب تک 2 ہزار 500 امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور 850 ارب ڈالر کے اخراجات اٹھانے پڑے ہیں۔ اس قدر خطیر رقم کی سرمایہ کاری نے پالیسی سازوں پر یہ دباؤ ڈالا ہے کہ وہ یہ ثابت کرتے رہیں کہ طالبان ہار رہے ہیں اور افغانستان مستحکم ہورہا ہے۔ اس کے برخلاف حقیقت یہ ہے کہ پچھلے سال سے لے کر آج تک طالبان کے زیرقبضہ علاقوں کی تعداد اور رقبہ، جنگ کے آغاز سے، مسلسل بڑھ رہی ہے۔ امریکی فوجی ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ 56 فیصد علاقہ افغان فوج اور حکومت کے زیراثر ہے جبکہ آزاد ذرائع اس کے برعکس حقائق بیان کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق درحقیقت امریکی دعویٰ ہاتھ کی صفائی ہے، کیونکہ اس علاقہ کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جہاں افغان فوج صرف ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر تک محدود ہے اور باقی علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے۔ بی بی سی کے مطابق افغانستان کا 63 فیصد علاقہ طالبان کے قبضے میں ہے۔ طالبان کی جرأت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے غزنی پر حملہ کرکے کئی دنوں تک اس کے اہم مقامات کو قبضے میں رکھا اس سارے عمل کے دوران، جبکہ افغان فوجیں امریکی نگرانی میں کام کررہی تھیں، کھلی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے یہ تاثر دیا گیا کہ یہ حملہ ایک معمولی جھڑپ تھا جو افغان فورسز نے بخوبی ناکام بنا دیا۔ اس طرح بہت سارے واقعات ہیں کہ جس میں امریکی عوام کو بے خبر رکھا گیا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ فوجی انخلا کے فیصلے پر عوام خاموش ہیں، اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اب امریکی عوام بھی پروپیگنڈے کی دنیا سے باہر نکل آئی ہے۔ امید ہے اس فیصلے سے خطے پر مثبت اثرات رونما ہوں گے کیونکہ یہ خطہ امریکی موجودگی کی وجہ سے انتشار اور بدامنی کا شکار رہا ہے، امریکہ کی 17 سالہ موجودگی ہی کی وجہ سے اس خطے میں بدامنی پھیلی اور نہ صرف یہ کہ افغانستان بلکہ خطے کی دیگر ریاستیں بھی اس سے شدید متاثر ہوئیں۔ اگر صرف پاکستان کی بات کی جائے تو 70 ہزار جانیں اور اربوں ڈالر نقصان ہوا جس کا بنیادی سبب امریکہ کا افغانستان میں موجود ہونا تھا۔ افغانستان کی اندرونی حالات اور تباہی کا ذمہ دار بھی امریکہ ہے کیونکہ اس کی پالیسی ہی کی وجہ سے افغانستان میدان جنگ بنا رہا اور ترقی کے سفر میں دیگر ممالک سے پیچھے رہا۔ بہرحال یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں جذبوں سے لڑی جاتی ہیں اور اس کی زندہ مثال امریکہ ہے جو جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ کئی بار مختلف محاذوں پر پسپا ہوگیا ہے، اس کے برعکس افغان طالبان اور افغان قوم ہے جو کہ بے سروسامانی کی کیفیت میں سپرپاور سے نبردآزما ہوئے اور عالمی طاقت کو بھاگنے پر مجبورکیا ، ان کے پاس نہ تو جنگ کے لئے ضروری سامان اور نہ سر چھپانے کے لئے سایہ تھا لیکن غیرت ایمانی اور جذبہ حب الوطنی سے لب ریز تھے اور یہی ان کے سرخرو ہونے کا بنیادی سبب بھی ہے، بقول وقار مسعود خاں صاحب سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ امریکہ افغانستان آمد کے تھوڑی دیر کے بعد اپنے مقصد کو بھول گیا اور آئے دن وہ اپنی موجودگی کی وجوہات کو بدلتا رہا۔ ایک بے مقصد جنگ کا انجام اس کے سوا اور کیا ہونا تھا، خصوصاً ایک ایسے مقابل کے سامنے جو امریکی تہذیب، ترقی اور جنگی ساز و سامان سے ایک رتی مرعوب نہیں تھا۔ امریکہ کے مقابلے میں طالبان کا اپنی سرزمین کو قابض فوجوں سے چھڑانا بہت بڑا مقصد تھا جس کے لئے ان کے جذبے میں کبھی بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ جس کی بدولت آج امریکہ اس سے مذاکرات کے لئے دوسروں کی منتیں کررہا ہے۔

مطلقہ خبریں