امریکا نے افغانستان، عراق، لیبیا کی بے مقصد جنگ میں 6.4 ٹریلین ڈالر جھونک دیئے، مشاہد حسین سید
چین میں پاکستان کے 25 ہزار طلبا جدید تعلیم حاصل کررہے ہیں، چین پاکستان کو ہتھیاروں کے ساتھ ٹیکنالوجی فراہم کررہے ہے، معین الحق
توانائی کی ضروریات پوری کرنا ایک چیلنج ہے، نیوکلیئر پاور پلانٹس کے ذریعے سستی بجلی پیدا کررہے ہیں، ڈاکٹر انصر پرویز
ون روڈ بیلٹ منصوبہ خطے کے ساتھ پوری دُنیا کو ایک دوسرے سے جوڑ دے گا، چینی پروفیسر ہنگ لی
دو ہزار پندرہء میں پاک چین اقتصادی تعلقات پاکستان اور جنوبی ایشیا کے لئے گیم چینجر ثابت ہوں گے، قاضی خلیل اللہ
عالمی سیاسی شطرنج کی بساط پر پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، ڈاکٹر اسما شاکر خواجہ
خطے میں پانچ ایٹمی طاقتیں ہیں، پاکستان ساؤتھ ایشیا کا اہم ملک ہے اس کی حمایت کے بغیر عالمی طاقت بننا ناممکن ہے، ڈاکٹر حماد اللہ ککپھوٹو
پاکستان عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات چاہتا ہے، خطے میں بھارت کی بالادستی ناقابل برداشت ہے، ڈاکٹر رفیق احمد میمن
رپورٹ: سید زین العابدین
سندھ یونیورسٹی جامشورو میں سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹرٹیجک اسٹڈیز سندھ کے زیراہتمام پاک چین تزویراتی معاشی تعلقات اور عالمی سیاست کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سینیٹ کی ڈیفنس کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان کا محل وقوع تزویراتی اہمیت کا حامل ہے، چین پاکستان کی سلامتی اور فضائی تحفظ کا ضامن ہے، پاک چین اقتصادی راہداری خطے کے ساتھ یورپ و افریقہ کے لئے بھی اہمیت کی حامل ہے، پاکستان مغرب اور مسلم ورلڈ کے لئے چین کی کھڑکی ہے، چین دُنیا کے مختلف خطوں میں تجارت کو فروغ دے رہا ہے، ون روڈ بیلٹ منصوبے پر تقریباً 4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے جبکہ امریکا نے افغانستان، عراق، لیبیا میں بارود برسا کر 6.4 ٹریلین ڈالر جنگ میں جھونک دیئے۔
چین میں پاکستان کے سفیر معین الحق نے کہا کہ چینی صدر کے 2015ء کے دورے پاکستان سے سی پیک منصوبے کا آغاز ہوا جس کی تزویراتی اہمیت ہے، چینی ہمیں آئرن برادر کہتے ہیں، جےایف-17 تھنڈر کی دوسری جنریشن کامرہ میں تیار کی جارہی ہے، چین کی ٹیکنیکل مدد سے سب میرین بنا رہے ہیں، ہمارے 25 ہزار طلبا چین میں جدید تعلیم حاصل کررہے ہیں، سی پیک میں 60 بلین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری سے پاکستان کی اقتصادیات مستحکم ہوگی۔ ای ٹریڈ میں بھی چین کی مدد سے آگے بڑھ رہے ہیں، اس ذرائع میں 2 ٹریلین ڈالر کی تجارت میں اپنا حصہ بڑھا سکتے ہیں، اکنامک کوریڈور کے ساتھ ڈیجیٹل کوریڈور پر کام ہورہا ہے، چین توانائی کے ذرائع بڑھانے میں مدد کررہا ہے، سی پیک منصوبوں میں شامل صنعتی زوزنز کی تعمیر سے صنعت کو فروغ ملے گا، سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں چشمہ5 V پر کام شروع ہونے والا ہے، ثقافتی شعبے میں بھی تعاون بڑھ رہا ہے، علامہ اقبال، فیض احمد فیض کی شاعری کے ترجمے چینی زبان میں کئے جارہے ہیں، ہماری جامعات کے ساتھ مشترکہ منصوبوں پر کام ہورہا ہے، چین سے تعلقات کی ایک تاریخ ہے، کرونا میں 160 ملین ویکسین چی نے مفت فراہم کی تھیں۔
سابق چیئرمین پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ڈاکٹر انصر پرویز نے کہا کہ صنعت، زراعت اور تجارت بڑھانے کے لئے توانائی کی اشد ضرورت ے، چین کے تعاون سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے ذریعے سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام ہورہا ہے، 2050ء تک ہماری بجلی کی کُل پیداوار 40 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ چشمہ 4 پاور پلانٹس اور کراچی میں کے3، کے2، کے1 سے 12 سے 13 روپے فی یونٹ بجلی حاصل کررہے ہیں، 1986ء میں چین سے نیوکلیئر پاور پلانٹس پر معاہدہ ہوا تھا، چین کے تعاون سے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کررہے ہیں، نیوکلیئر ذرائع سے سستی، دیرپا اور ماحول دوست توانائی حاصل کی جارہی ہے، پن بجلی، سولر، ونڈر ذرائع پر بھی کام ہونا چاہئے، کوئلے کے پاور پلانٹس ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں، دُنیا میں 6 سے 8 ملین لوگ کوئلے کے پاور پلانٹس سے خارج ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے مارے جاتے ہیں، پاکستان نیوکلیئر ذرائع کو دفاع کے ساتھ زراعت، صحت اور صنعت کے لئے استعمال کررہا ہے۔
چینی پروفیسر ہنگ لی نے کہا کہ چین دُنیا کے مختلف خطوں میں تجارتی تعلقات بڑھانا چاہتا ہے جس کے لئے ون روڈ ون بیلٹ کے منصوبے پر کام ہورہا ہے، پاکستان کا گوادر پورٹ چین کی برآمدات کے لئے اہم ہے، اس بحری گزرگاہ سے سفر کی طوالت کم ہوجائے گی، سی پیک منصوبوں میں شامل اکنامک زونز کی تکمیل سے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ سی پیک کے ذریعے چین کو یورپ سے ملایا جارہا ہے، 46 ممالک ون روڈ ون بیلٹ منصوبے سے منسلک ہیں، سی پیک منصوبے کے خلاف سازش اور منفی پروپیگنڈا بھی جاری ہے لیکن یہ چین و پاکستان کے لئے ریڈلائن ہے، جس کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنائیں گے، گوادر پورٹ کے فعال ہونے سے چین اور یورپ کے درمیان 13 ہزار کلومیٹر کا طویل فاصلہ کم ہوجائے گا، مشرق وسطیٰ، افریقہ تک رسائی سے تجارت بڑھے گی، کاروبار و روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے اس راہداری کی مانیٹرنگ بھی کی جاسکے گی۔
سابق سفیر اور سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹرٹیجک اسٹڈیز سندھ (سی آئی ایس ایس ایس) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر قاضی محمد خلیل اللہ نے کہا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات 1951ء سے شروع ہوئے، پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا، پاکستان تائیوان، ہانگ کانگ اور تبت پر چین کی مکمل حمایت کرتا ہے جبکہ چین مسئلہ کشمیر اور قومی سلامتی کے امور پر پاکستان کا حامی ہے، سی پیک منصوبوں میں گوادر پورٹ اہمیت کا حامل ہے جس کی تزویراتی اقتصادی اہمیت کا ثمر پاکستان کے لئے ہے۔ چین پاکستان کے گہرے تعلقات حکومتوں ہی کے درمیان نہیں ہیں بلکہ عوام بھی جڑے ہوئے ہیں، دونوں ممالک خطے میں ترقی و استحکام چاہتے ہیں، سی پیک منصوبوں کی تکمیل سے تجارت کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، نومبر 2022ء میں وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ چین سے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے، دونوں ملکوں کے تعلقات کے حل میں بڑا مددگار ہے، سندھ یونیورسٹی کے اس سیمینار میں اس بات کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ سندھ کی قدیم جامعہ ہے جو 1947ء میں قائم ہوئی تھی۔
سندھ یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد میمن کا کہنا تھا کہ بھارت کی جارحیت اور حالیہ دہشت گردی کے واقعات کا مقصد سی پیک کو روکنا ہے، پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک کا کردار ادا کررہا ہے، چین کے ساتھ تزویراتی اہمیت کے تعلقات ہیں لیکن ہم عالمی طاقتوں سے تعلقات میں متوازن پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ بھارت کی جارحیت اور وہاں بڑھتا ہوا ہندوتوا خطے کے امن کے لئے خطرناک ہے، ہماری مشرق کے ساتھ مغربی سرحد پر بھی مسائل ہیں، مغربی سرحدی جھڑپ میں بھارت شامل ہے، پاکستان کی تزویراتی اہمیت بہت ہے، بھارت سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل سے پریشان ہے، اس کی مسلسل جارحیت کے باوجود پاکستان ذمہ دار ایٹمی ملک ہونے کا مظاہرہ کررہا ہے، ہم خطے میں امن و ترقی چاہتے ہیں، چین پوری دُنیا کو تجارتی بندھن میں جوڑنا چاہتا ہے، عالمی پلیئرز کے درمیان تناؤ دُنیا کے امن کے لئے خطرناک ہے۔
یونیورسٹی آف سندھ کے سوشل سائنس کے ڈین ڈاکٹر حماد اللہ ککپھوٹو نے خطاب میں کہا کہ چین کا ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ ترقی پذیر ملکوں کو ترقی یافتہ دُنیا سے جوڑ دے گا، سی پیک منصوبے میں شامل صنعتی و اکنامک زونز کے بننے سے پاکستان میں صنعت کو فروغ ملے گا، تیز رفتار مواصلاتی منصوبوں کی تکمیل سے تجارت بڑھے گی، بلٹ ٹرین چلنے اور موٹرویز کی تعمیر سے ذرائع آمدورفت میں آسانی پیدا ہوگی، کراچی سرکلر ریلوے کا سی پیک میں شامل ہونا وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی کوششوں کا ثمر ہے، اپنی جامعات میں چین کے تعاون سے جدید علوم کے شعبے بنائیں گے۔ پاکستانی طلبا کی بڑی تعداد چین میں جدید تعلیم حاصل کررہی ہے، چین کے تعاون سے بدحال معیشت کو ٹھیک کرنے میں مدد ملے گی، تیز رفتار ذرائع آمدورفت سے بلوچستان اور فاٹا کے پسماندہ اضلاع بڑے شہروں کی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرلیں گے، ہمارے فارمرز کو بھی اس سے فائدہ ہوگا، سندھ کی دھرتی قدرتی وسائل سے مالامال ہے، چین کے تعاون سے گیس و پیٹرولیم مصنوعات کو نکالا جاسکتا ہے۔
سی آئی ایس ایس ایس آزاد جموں کشمیر کی ڈائریکٹر اسما شاکر خواجہ نے خارجہ تعلقات کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی ایک باسکٹ پر انحصار نہیں کرسکتا، ہم عالمی طاقتوں کی رسہ کشی میں توازن اور ان کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، بھارت روس پر انحصار کرنے کے ساتھ امریکا سے بھی جدید ہتھیار حاصل کرکے خطے کا توازن بگاڑ رہا ہے جو پاکستان کے لئے ناقابل برداشت ہے، بھارت چین کا بڑا تجارتی پارٹنر ہے مگر گلوان وادی میں دونوں میں جھڑپ بھی ہورہی ہے، بھارت کا ہندوتوا خطے کے امن کے لئے خطرناک ہے۔ پاکستان رم لینڈ پر واقع ہے اس لئے اس کی تزویراتی اہمیت ہے، امریکی ماہرین کہتے ہیں کہ جو رم لینڈ پر کنٹرول کر لے گا وہ دُنیا پر حکمرانی کرے گا، پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کا اشارہ امریکا پہلے دورے میں ہی کردیا تھا کہ پشاور کا اہم رول ہے، دُنیا کے 70 حکمران اسی راستے کے ذریعے اس خطے میں آئے، اس دور میں بھی پانچ ایٹمی طاقتیں پاکستان، بھارت، روس، چین اور ایران ہین، اگرچہ ایران نے ابھی نیوکلیئر کیبلیٹی ڈکلیئر نہیں کی ہے مگر وہ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس وقت یوکرین اور روس جنگ نے دُنیا کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، عالمی طاقتیں ایک دوسرے کو مسلز دکھا رہی ہیں، ہمیں اپنے دفاع سے متعلق مربوط پالیسی بنانا ہوگی۔
سندھ یونیورسٹی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی چیئرپرسن ڈاکٹر عشرت عباسی نے سیمینار سے خطاب کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ طلبا کو بین الاقوامی مسائل خصوصاً پاک چین اسٹرٹیجک تعلقات سے آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے، سندھ یونیورسٹی ملک کی قدیم جامعہ ہے۔ اس سیمینار میں طلبا، اساتذہ اور دیگر شرکاء نے جس طرح سوالات کئے اس سے ظاہر ہوا کہ انہوں نے مہمانوں کی تقاریر توجہ و انہماک سے ملاحظہ کیں اور دلچسپی کا اظہار بھی ہوتا ہے، سندھ یونیورسٹی جامشورو مستقبل میں بھی اس نوعیت کے سیمینار کے لئے تعاون کرے گی تاکہ اپنی نوجوان نسل خصوصاً طلبا کو بین الاقوامی حالات اور اس میں پاکستان کے مثبت کردار کے حوالے سے آگاہ کیا جائے۔ میں اس سیمینار میں مہمانوں، صحافیوں اور طلبا و دانشوروں کی شرکت پر سندھ یونیورسٹی کی جانب سے شکرگزار ہوں۔ سیمینار میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً میڈیا کی شرکت کے شکرگزار ہیں اور ہمارے طلبا نے نہ صرف توجہ سے خطابات سنے بلکہ سوالات بھی کئے، سندھ یونیورسٹی سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹرٹیجک اسٹڈیز سندھ کی شکرگزار ہے کہ انہوں نے اس اہم موضوع پر سیمینار کے لئے ہماری جامعہ کا انتخاب کیا، آئندہ بھی یہ تعاون جاری رہے گا، سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹرٹیجک اسٹڈیز سندھ کے تحت ہونے والے اس سیمینار میں سینئر کالم نگار اور سچ ٹی وی کے اینکرپرسن نصرت مرزا نے بھی شرکت کی۔سیمینار کے اختتام پر مہمانوں کو سونیئر اور ثقافتی اجرک کا تحفہ پیش کیا گیا۔