عبدالستار اعوان
بھارت میں یوں تو بہت سے مذاہب اور اقلیتیں بستی ہیں لیکن حقیقت میں یہ ملک صرف متعصب ہندوؤں کیلئے جنت اور باقی کمیونٹیز کیلئے جہنم ہے۔ اس حوالے سے ہم آئے روز ہندو ریاست کی تنگ نظری کے واقعات دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ 4 جون 2022ء کو مذہبی آزادی سے متعلق سالانہ رپورٹ کے اجرا کے موقع پر امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ ”بھارت میں عبادت گاہوں اور اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور مذہبی اقلیتوں کیلئے برداشت کم ہوتی نظر آرہی ہے“۔ یوں تو مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت میں بھارتی ریاستی اداروں کی مکمل سرپرستی میں اقلیتوں سے ان کے بنیادی انسانی حقوق چھینے جارہے ہیں لیکن دوسری جانب ایک اورتلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارت پڑوسی ممالک میں بھی مداخلت سے باز نہیں آتا اور انہیں مختلف حیلے بہانوں سے پریشان کرنے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتا، اس حوالے سے پاکستان سرفہرست ہے جہاں ایک جانب تو بھارت مختلف دہشتگرد تنظیموں کو سپورٹ کرکے یہاں لا اینڈ آرڈرز کے مسائل پیدا کررہا ہے تو دوسری جانب ”آبی دہشتگردی“ کے ذریعے پاکستان کو بنجر بنانے کے مذموم مقاصد پر عمل پیرا ہے۔ آئیے! اس حوالے سے ہم درج ذیل سطور میں حالات، واقعات اور تنازعات کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد خطہ برصغیر کا جغرافیہ بالکل بدل چکا تھا۔ دیگر بہت سارے معاملات کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک میں وسائل کی تقسیم ایک بہت بڑا مسئلہ تھا جن میں پانی کی تقسیم کا معاملہ سرفہرست تھا۔ سیرل ریڈکلف کو ہندوستان تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس نے پانی کی تقسیم کے حوالے سے دونوں ملکوں پر دریاؤں اور دیگر آبی وسائل کا نظام واضح کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ دونوں ملکوں کی بہتری اسی میں ہے کہ آبی وسائل کا نظام اسی طرح ایک اکائی کے طور پر چلنے دیں اور اس ضمن میں دونوں ملک آپس میں ایک معاہدہ کرلیں لیکن اس پر فریقین راضی نہ ہوئے۔ پاکستان کا موقف بالکل واضح تھا کہ اس طرح وہ مکمل طور پر بھارت کے رحم و کرم پر رہے گا۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ بھارت نے کشمیر پر زبردستی قبضہ کرلیا اور اس نے ہر اس دریا پر جو پاکستان کی جانب بہتا تھا مکمل قبضہ کرکے مختلف آبی منصوبے شروع کر دیئے۔ مارچ 1948ء میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس میں پانی کے تنازعات کے حل کیلئے ایک کمیٹی کی تجویز بھی شامل تھی۔ عین اس دن جب یہ مدت ختم ہوئی بھارت نے بغیر کسی اطلاع کے راوی اور ستلج کا پانی روک دیا جس سے پاکستان میں لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں، بعد میں بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کی بنا پر ہوا لیکن درحقیقت ایسی بات نہیں تھی۔ اس نے باقاعدہ سازش کے تحت ایسا کیا اور پھر آنے والے وقتوں نے یہ ثابت کردیا کہ بھارت کس طرح آبی دہشتگردی کے ذریعے پاکستان کے دریاؤں کو بنجرکرنے کیلئے اپنے مذموم مقاصد کیلئے کوشاں ہے۔ اس میں بھارت کا سب سے بڑا ٹارگٹ تو یہی تھا کہ پاکستان پانی کی کمی کے ہاتھوں مجبور ہوکر دوبارہ بھارت کے ساتھ انضمام پر مجبور ہوجائے یا پھر پانی کا سارا نظام بھارت کے حوالے کرکے خود اس کا محتاج ہو کر رہ جائے۔ یہ تنازع یونہی چلتا رہا۔ 1951ء میں ورلڈ بینک نے کوشش کی کہ دونوں ممالک آپس میں تعاون کرلیں اور کسی معاہدے پر پہنچنے کیلئے کوشش کریں تاہم یہ جلد واضح ہوگیا کہ بھارت کسی ایسے معاہدے کا خواہشمند نہیں تھا جس کے تحت اس کا دریاؤں پر سے کنٹرول ختم ہوجائے جبکہ پاکستان کو کسی صورت بھارت کی بالادستی منظور نہیں تھی۔ آخرکار ورلڈ بینک کی مزید کوششوں سے دونوں ملک ایک معاہدہ پر رضامند ہوگئے۔ یہ معاہدہ 19 ستمبر 1960ء کو طے پایا جس کے تحت دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور پر تقسیم کردیا گیا۔ یہ تاریخی معاہدہ ”سندھ طاس معاہدہ“ (Indus Water Treaty) کہلاتا ہے۔ معاہدے کے تحت چھ میں سے تین دریا بھارت اور تین پاکستان کے حصے میں آئے جنہیں مشرقی اور مغربی دریا کہا جاتا ہے۔ دریائے سندھ، جہلم اور چناب مغربی دریا ہیں جن کے پانی پر پاکستان کا حق ہے جبکہ راوی، بیاس اور ستلج مشرقی دریا ہیں جن پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا۔ اب اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل دوطرفہ واٹر انڈس کمیشن بھی قائم کیا جو بھارت اور پاکستان کے واٹر کمشنروں پر مشتمل ہے۔ یہ کمیشن سندھ طاس معاہدے کے نفاذ اور مقاصد کا انتظام اور نگرانی کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ یہ کمشن دونوں ممالک میں دریاؤں کی صورتِ حال کو مانیٹر کرتا ہے اور معلومات کا تبادلہ کرتا ہے تاکہ دونوں ملکوں میں پانی کا نظام منصفانہ طور پر چلتا رہے۔ سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس معاہدے پر عملدرآمد کی تمام تر ذمہ داری اسی دوطرفہ واٹر کمشن پر ہے۔ اب ہمیں اس بات کا منصفانہ جائزہ لینا ہے کہ فریقین ”سندھ طاس معاہدہ“ کی کس حد تک پاسداری کررہے ہیں۔ معاہدے میں شامل ہے کہ دونوں ملک دریاؤں کے بہاؤ کا ڈیٹا اور آبی ذخائر کی تعمیر کی تفصیلات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں گے لیکن بھارت ہمیشہ اس حوالے سے پس و پیش سے کام لیتا آیا ہے۔ مئی 2022ء میں بھی دہلی میں دونوں ملکوں کے واٹرکمشنروں کے مابین تین روزہ مذکرات میں سب سے بڑی بحث یہی رہی ہے کہ بھارت پاکستان کو دریاؤں کی صورتِ حال اور اس پر بنائے جانے والے ڈیموں اور بیراجوں کا ڈیٹا فراہم نہیں کررہا۔ بھارت خود سے تو پاکستان کو ڈیٹا فراہم نہیں کررہا لیکن آج کل چونکہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور کوئی معمولی چیز بھی کسی سے اوجھل نہیں رہ سکتی تو بھلا کیسے یہ ممکن ہے کہ بھارت پاکستان کے دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیم بنانا شروع کردے اور پاکستان کو خبر تک نہ ہو، چنانچہ بھارت نے پاکستانی دریاؤں پر جتنے بھی منصوبے شروع کئے ہیں پاکستان کے علم میں ہیں اور اس حوالے سے پاکستان ورلڈ بینک سمیت تمام عالمی فورمز پر صدائے احتجاج بھی بلند کرتا چلا آرہا ہے۔ بھارت کس طرح سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے، ذیل کی سطور میں ہم اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ دریائے جہلم پر معاہدہ کے تحت پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے لیکن بھارت دریائے نیلم کے پانی پر 330 میگاواٹ کا کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ تعمیر کررہا ہے۔ کشن کنگا دریائے جہلم کا ایک معاون دریا ہے جسے پاکستان میں دریائے نیلم کہا جاتا ہے۔ اس طرف پاکستان اپنے حصے کے دریائے جہلم پر نیلم ہائیڈرو پروجیکٹ تعمیر کررہا ہے جسے سخت نقصان کا اندیشہ ہے۔ پاکستان انڈس واٹر کمشنر مہر علی شاہ نے 29 مئی 2022ء کو دہلی میں انڈیا واٹر کمشنر سے مذاکرات سے واپسی پر میڈیا کو بتایا کہ ”کشن گنگا معاملہ سندھ طاس معاہدے سے آگے نکل چکا ہے اور اب یہ معاملہ ورلڈ بینک دیکھ رہا ہے۔“ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کو بھارت کے نئے آبی منصوبے پکل ڈل، لوئر کلنائی آبی منصوبے پر بھی اعتراض ہے اور پاکستان کا مطالبہ ہے کہ بھارت ان منصوبوں کی تفصیلات فراہم کرے۔ اسی طرح بھارت دریائے چناب کے پانی پر بھی 850 میگاواٹ کا ”رتلے پن بجلی منصوبہ“ تعمیر کرچکا ہے جو سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دریائے چناب پر بھی 2005ء میں بھارت نے بگلیہار ڈیم تعمیر کیا تھا جس کے خلاف پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا۔ پاکستان کی جانب سے تاخیر کے باعث اس وقت تک بھارت یہ ڈیم 80 فیصد سے زیادہ تعمیر کرچکا تھا جس پر عالمی بینک نے پاکستان کے خلاف فیصلہ صادر کرتے ہوئے بھارت کو ڈیم مکمل کرنے کی اجازت دے دی۔ اس ڈیم کی تعمیر کے باعث پاکستان کو روزانہ سات سے آٹھ ہزار کیوسک پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔”کوار ہائیڈروپاورپروجیکٹ“ مقبوضہ کشمیر کے ضلع کشتواڑ میں تعمیر ہونے جارہا ہے یہ بھی دریائے چناب پر بنایا جارہا ہے۔ اسی طرح بارہ مولہ کے مقام پر بنائے گئے ”وولر بیراج“ پر بھی پاکستان کو شدید تحفظات ہیں لیکن بھارت نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کے تحت بے شک نیلم اور وولر کے پانی کے استعمال کا حق ہے لیکن جو پانی دریائے جہلم سے آئے گا، اس پر کسی بھی قسم کا کوئی حق نہیں بنتا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت کے دیگر آبی منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت بھارت دریائے جہلم پر کوئی آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کرسکتا۔ یہ وہ چند قابل ذکر منصوبے ہیں جو ہم نے مختصر طور پر بیان کئے ہیں اور ان کا ذکر ہمیں آئے روز پاک بھارت انڈس واٹر کمشنروں کی میٹنگز اور میڈیا کے ذریعے بھی ملتا رہتا ہے۔ ان منصوبوں کے علاوہ بھی بھارت پاکستانی دریاؤں پر مختلف چھوٹے بڑے منصوبے شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت مقبوضہ کشمیر میں دو سو کے قریب چھوٹے بڑے ڈیمز اور آبی ذخائر تعمیر کررہا ہے جن میں سے بیشتر سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کرکے بنائے جارہے ہیں لیکن ورلڈ بینک سمیت کوئی بھی طاقت بھارت کو ان عزائم سے باز نہیں رکھ سکتی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی واضح طور پر اپنا سخت موقف دے چکے ہیں کہ ”دریائے سندھ میں جو پانی انڈیا کا ہے اسے پاکستان نہیں جانے دیا جائے گا، دریائے سندھ کے پانی پر بھی ہمارا حق ہے“۔ بھارت کی جانب سے پاکستانی دریاؤں پر بنائے گئے ڈیمز اور آبی ذخائر سے پاکستان شدید متاثر ہورہا ہے اور دریاؤں میں پانی کی سطح مسلسل نیچے گر رہی ہے۔ پاکستان میں دریائے سندھ اور دیگر آبی ذرائع کی نگرانی کیلئے ”انڈس ریور سسٹم اتھارٹی“ (IRSA) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ اتھارٹی دریاؤں کی مسلسل نگرانی کرتی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر پانی کی صورتِ حال کے متعلق اپنی رپورٹ جاری کرتی ہے۔ اس حوالے سے IRSA کی جانب سے پانی کی موجودہ صورتِ حال پر جو تفصیلات بتائی جارہی ہیں وہ کافی پریشان کن ہیں۔ 5 جون 2022ء کی ”ارسا“ رپورٹ کے مطابق ملک میں پانی کے بحران نے 22 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے اور یہ بحران شدت اختیار کررہا ہے۔ تربیلا ڈیم گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے خالی اور منگلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وقت تمام صوبوں کو 50 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے جبکہ آبی ذخائر میں پانی کی کمی 97 فیصد ہوگئی ہے۔ ارسا کے مطابق دریاؤں میں 56 فیصد کم پانی آرہا ہے۔ دریاؤں میں پانی کا مجموعی بہاؤ 1 لاکھ 25 ہزار کیوسک ہے جبکہ اس کے برعکس گزشتہ سال پانی کا مجموعی بہاؤ 2 لاکھ 84 ہزار کیوسک تھا۔ اسی طرح ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ ایک لاکھ ایکڑ فٹ رہ گیا ہے جبکہ گزشتہ سال ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ 35 لاکھ ایکڑ فٹ تھا۔ ارسا کی دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دریائے چناب اور جہلم سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ دریائے جہلم میں پانی کی کمی کے باعث منگلا ڈیم آدھا بھی نہیں بھر پائے گا اور خدشہ ہے کہ منگلا ڈیم میں ربیع سیزن کیلئے بھی پانی نہیں ہوگا۔ ارسا کی رپورٹس اس خطرناک صورتِ حال سے پردہ اٹھاتی ہیں کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی دریاؤں پر آبی ذخائر تعمیر کرنے سے پاکستان کو آئے روز کس قدر پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے ”انڈس واٹر کمشنر“ بھارت کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کی میز پر بیٹھ چکے ہیں لیکن ہر بار بھارت اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کو سبوتاژ کردیتا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ بھارت کی بدنیتی کا عمل دخل ہے جس کے تحت اس نے پاکستان کی سلامتی کو تاراج کرنے اور اس کی زرخیز زمینوں کو بنجر بنانے کی نیت سے ہی پاکستان کی جانب آنے والے دریاؤں پر چھوٹے بڑے دو سوسے زائد ڈیمز بنا لئے اور وہ جب چاہتا ہے پاکستان کا پانی روک کر اسے ایک ایک بوند سے محروم کر دیتا ہے جبکہ مون سون میں اطلاع دیئے بغیر فالتو پانی پاکستان کی جانب چھوڑ کر اسے سیلاب میں ڈبو دیتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان بھارت کی اس ”آبی دہشتگردی“ کے خلاف عالمی سطح پر مقدمہ لڑے اور بھار ت کی جانب سے کی جانے والی ”سندھ طاس معاہدے“ کی سنگین خلاف ورزیوں کو مختلف عالمی فورمز پر اٹھائے اور اپنا ٹھوس موقف اختیار کرے کہ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی ادارے بھارت کو آبی دہشتگردی سے باز رہنے پر آمادہ کریں کہ وہ یوں اخلاقیات کا جنازہ نہ نکالے اور سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کرے۔