پاک بحریہ نے شمالی بحیرہ عرب، خلیج عدن، ہارن آف افریقہ اور بحرِ احمر میں دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حمل کو روکا
فیاض احمد عباسی
بحرِ ہند دُنیا کا تیسرا بڑا بحر ہے جو 27240000 مربع میل پر پھیلا ہوا ہے، جہاں ہر وقت عالمی و علاقائی تجارتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں، اس بحر سے روزانہ کئی ٹن بحری آمدورفت ہوتی ہے جس میں سب سے زیادہ تیل کی تجارت ہے۔ اہم وقوع پذیری اور دفاعی اہمیت کے پیشِ نظر اس بحر کو عالمی اور علاقائی بحری قوتوں کی خصوصی توجہ حاصل ہے۔ بڑھتی ہوئی بحری تجارتی سرگرمیوں اور بحر کی وسعت نے اس بحر میں بحری قزاقی، بحری دہشت گردی اور اسمگلنگ جیسے خطرات کو جنم دیا ہے، اِن خطرات نے بحرِ ہند کے ساحلی ممالک کے لئے کئی مسائل پیدا کئے ہیں جن سے دفاع کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی نقصان کا اندیشہ ہے۔ ان بحری چیلنجز سے نمٹنے کے لئے علاقائی اور عالمی افواج پر مشتمل بحری ٹاسک فورسز کا قیام عمل میں لایا گیا جن میں کمبائنڈ میری ٹائم فورسز کے ماتحت آپریشنز انجام دینے والی کمبائنڈ ٹاسک فورس 150 اور 151 بھی شامل ہیں۔ کمبائنڈ ٹاسک فورس 151 کے قیام کا مقصد بحری قزاقی کا خاتمہ ہے جبکہ میری ٹائم دہشت گردی کے انسداد کے لئے کمبائنڈ ٹاسک فورس 151 وجود میں آئی۔
پاکستان ایک پُرامن ملک ہے اور پُرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے، اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے پاکستان نے ان ٹاسک فورسز میں موثر کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا، اس فیصلے کی روشنی میں 2004ء میں پاک بحریہ ٹاسک فورس 150 کا حصہ بنی جبکہ 2009ء میں ٹاسک فورس 151 کے قیام کے ابتدائی سال میں ہی پاک بحریہ نے اس میں شمولیت اختیار کرلی، اِن ٹاسک فورسز میں شمولیت اختیار کرنے کا مقصد خطے میں بحری امن و استحکام کے قیام میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا تھا۔ ٹاسک فورسز کا حصہ رہتے ہوئے پاک بحریہ نے شمالی بحیرہ عرب، خلیج عدن، ہارن آف افریقہ اور بحرِ احمر میں دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حمل کو روکا، ان کی غیرقانونی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈال کر دہشت گرد تنظیموں کو منتشر کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان علاقوں سے بحری قزاقی کا خاتمہ کیا، اس عرصے کے دوران پاک بحریہ نے لاتعداد سیکورٹی آپریشنز انجام دیئے جن کی کامیابی نے دنیا کو پاک بحریہ کی لگن، جذبے اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے اعتراف پر مجبور کیا۔ اس اعتراف کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پاک بحریہ کو 18 مرتبہ اِن ٹاسک فورسز کی کمانڈ سونپی گئی۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ان ٹاسک فورسز میں دورِحاضر کے ترقی یافتہ یورپی ممالک کی بحری افواج بھی شامل ہیں جن کی کمانڈ پاک بحریہ کرچکی ہے، ان ٹاسک فورسز کی کمانڈز اور سیکورٹی آپریشنز کے دوران پاک بحریہ کو پیشہ ورانہ مہارتوں اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے باہمی تبادلے کا کھل کر موقع ملا۔
بحرِ ہند کی بڑھتی ہوئی تجارتی سرگرمیوں اور سی پیک سے وابستہ قومی مفادات کے تحفظ اور پاکستانی پانیوں میں محفوظ سمندری تجارت کو یقینی بنانے کے لئے پاک بحریہ نے آزادانہ میری ٹائم سیکورٹی پیٹرولز کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے جولائی 2018ء میں پاکستان نیول اکیڈمی کراچی میں منعقدہ مڈشپ مین پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کے دوران قوم کو اس خوشخبری سے سرشار کیا۔ پاک بحریہ کے سربراہ نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج پاکستان کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کے قومی عزم کی علمبردار ہیں اور اس ضمن میں پاک بحریہ پاکستان کے ساحل اور علاقائی سمندروں میں سماج دشمن عناصر کی غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے سیکورٹی کے فرائض پوری تندہی اور خوش اسلوبی سے ادا کررہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دفاعی خودمختاری کے ساتھ اپنے قومی مفادات کے حصول کے لئے اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے سمندری قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہم نے بحرِ ہند میں ریجنل میری ٹائم سیکورٹی پیٹرولز کے قیام کا فیصلہ کیا ہے، اس اقدام کا مقصد بحرِ ہند میں حساس سمندری راہداریوں اور تنگ مقامات پر قومی اور بین الاقوامی جہاز رانی کو بحری دہشت گردی اور بحری قزاقی سے تحفظ فراہم کرنا اور منشیات، اسلحے اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام ہے۔
آزادانہ میری ٹائم سیکورٹی پیٹرولز کے قیام کا مقصد نیول چیف کے خطاب سے بالکل واضح اور بیّن ہے اور خطے میں بحری امن و استحکام کو مضبوط بنانے کے ضمن میں پاک بحریہ کی ایک اور کاوش ہے۔ خطے میں بحری امن کا قیام تمام ساحلی ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے جس سے عہدہ برآ ہونے میں پاک بحریہ پیش پیش نظر آتی ہے، اس کے لئے کی جانے والی کاوشوں کے سلسلے میں پاک بحریہ کے کردار کی ایک جھلک مذکورہ بالا بیانیہ میں نظر آچکی ہے۔ ذیل میں بین الاقوامی و علاقائی سمندروں میں پاک بحریہ کی موجودگی سے ہونے والے فائدے کا جائزہ لیتے ہیں۔
سال 2010ء میں امن وامان کی صورتِ حال انتہائی خراب ہوچکی تھی جس کے اثرات کی لپیٹ میں ہمارا ملک پاکستان بھی آیا تھا۔ بحری امن کو لاحق شدید خطرات کے پیش نظر پاکستانی پانیوں کو بحری قزاقی کے خطرے والے علاقوں میں شامل کردیا گیا تھا، اس اقدام سے بحری تجارتی سرگرمیاں کم ہونے اور عالمی تجارتی جہازوں کا پاکستانی پانیوں سے گزرنے سے گریز کا خدشہ تھا، جس سے ملکی تشخص اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونے کا احتمال تھا، اس لئے اس چیلنجز سے فوری نبردآزما ہونے کی ضرورت تھی۔ قوم کی نظریں اور اُمیدیں پاک بحریہ پر تھیں جو اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتی تھی۔ پاک بحریہ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور وزارت برائے خارجہ اُمور کے ساتھ مل کر کاوشیں کیں، اس کے ساتھ ساتھ موثر بحری نگرانی اور گشت سے پاک بحریہ نے پاکستانی پانیوں کو سماج دشمن عناصر کی کارروائیوں سے محفوظ بنائے رکھا۔ پاکستانی پانیوں کو محفوظ بنانے کی زیرک حکمتِ عملی اور بحری قزاقی جیسے خطرات کی بیخ کنی کے کامیاب آپریشنز کے نتیجے میں 2015ء میں پاکستانی سمندری علاقے کو بحری قزاقی کے خطرات سے پاک قرار دیا گیا۔
پاک بحریہ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہائیڈروگرافی اور وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کی مشترکہ جدوجہد سے اقوام متحدہ نے پاکستان کے کونٹینینٹل شیلف میں پچاس ہزار مربع کلومیٹر اضافے کا دعویٰ منظور کیا ہے۔ اضافے کے اس دعوے کی تیاری کا آغاز 2005ء میں ہوا۔ چار سال کی انتھک محنت اور ضخیم اعدادوشمار جمع کرنے اور ان کی جانچ پڑتال کے بعد 2009ء میں یہ کیس اقوام متحدہ کے کمیشن کو باقاعدہ طور پر پیش کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سمندری حدود کے ساتھ رُکنی سب کمیشن نے پاکستان کی درخواست کا بغور جائزہ لیا اور ایک سال کے مسلسل تجزیے اور تحقیق کے بعد اقوام متحدہ کے کمیشن نے پاکستان کے کونٹینینٹل شیلف کی حد 200 سے بڑھا کر 350 ناٹیکل میل کرنے کی سفارشات منظور کرلیں، اس اضافی سمندری علاقے میں پائے جانے والے بے پناہ قدرتی وسائل کے اخراج اور حصول سے وسیع معاشی فوائد حاصل کرکے خوشحالی و ترقی میں اہم کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان اس خطے کا پہلا ملک ہے جس کی سمندری حدود میں توسیع کی گئی۔
بحری امن و استحکام کے قیام اور مشترکہ سوچ کو تشکیل دینے کے لئے پاک بحریہ دو سال بعد ’’امن‘‘ کے نام سے شمالی بحیرہ عرب میں عالمی مشقوں کا انعقاد کرتی ہے، اس سلسلے میں 2017ء میں منعقدہ ہونے والی اس مشق میں 37 ممالک کی بحری افواج اور آبزرورز نے شرکت کرکے پاکستان کے امن کے عزم کو دوام بخشا اور پاک بحریہ کی کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کیا، اس نوعیت کی کثیرالملکی بحری مشق کے کامیاب انعقاد کا انتظام اور بندوبست بذاتِ خود پاک بحریہ کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پاک بحریہ کے جہاز ہر وقت سمندری گشت پر مامور رہتے ہیں جن کی بدولت بحری دہشت گردی اور اسمگلنگ کی روک تھام میں بھی مدد ملتی ہے، اس سال فروری میں پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس اصلت نے شمالی بحیرہ عرب میں کئی ملین ڈالرز مالیت کی حشیش کی اسمگلنگ کو ناکام بناتے ہوئے اسمگلرز کو پکڑ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کیا۔ پاک بحریہ اور پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی نے مشترکہ آپریشن کرکے اپریل 2018ء میں تقریباً 70 ملین روپے مالیت کی شراب کی بڑی کھیپ کی اسمگلنگ کو ناکام بنایا۔
بحری دہشت گردی کی روک تھام، بحری قزاقی کی بیخ کنی اور اسمگلنگ کی کوششوں کو ناکام بنانے کے علاوہ پاک بحریہ کھلے سمندر میں مشکلات کا شکار افراد کو امداد بھی فراہم کرتی ہے، اس سال فروری میں پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس شمشیر نے کھلے سمندر میں مصیبت کا شکار ایرانی ماہی گیر کشتی کے عملے کو مدد فراہم کی۔ مئی 2018ء کے اوائل میں پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس عالمگیر نے صومالیہ کے شمال مشرقی سمندر میں بینی لیو 2 نامی پرتگالی کشتی کو امداد فراہم کی جس کو ایندھن کی شدید کمی کا سامنا تھا۔ پاک بحریہ کے سی کنگ ہیلی کاپٹر نے اورماڑہ سے 186 کلومیٹر دور کھلے سمندر میں مشکلات کا شکار النعیمی نامی ایرانی کشتی کو بھی امداد اور کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرکے کھلے سمندر میں پاک بحریہ کی موجودگی کا احساس دلایا۔ پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس عالمگیر نے خلیج عدن میں سیکورٹی آپریشنز کے دوران بھارتی ماہی گیر کشتی سٹ مریس کو امداد فراہم کی، اس بھارتی کشتی نے بھارتی بندرگاہ کولوچل سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا جو انجن میں خرابی کے باعث عمان کے پانیوں میں آٹھ دن تک بھٹکتی رہی۔ پی این ایس عالمگیر کی تکنیکی ٹیم نے کشتی کی خرابی کو دور کرکے اُسے آپریشنل بنایا جبکہ پاک بحریہ کی میڈیکل ٹیم نے کشتی کے عملے کو طبی امداد فراہم کی اور اپنے راشن سے اشیائے خوردونوش اور صاف پانی فراہم کیا، اس کے علاوہ سونامی کے دوران پاک بحریہ کا سری لنکا اور انڈونیشیا میں سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن، یمن کے شورش زدہ علاقوں سے پاکستان اور دیگر اقوام بشمول بھارت کے شہریوں کا کامیاب انخلا، زمانہ امن میں پاک بحریہ کے وہ عالمی کارنامے ہیں جن کی بدولت دنیا پاک وطن اور پاک بحریہ کی معترف ہے۔
کثیر القومی ٹاسک فورسز میں شرکت، عالمی و ملکی پانیوں میں ریسکیو اینڈ سرچ آپریشنز، سیکورٹی آپریشنز اور عالمی مشقوں کے انعقاد اور ان میں شرکت سے پاک بحریہ کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں اس نہج پر پہنچ چکی ہیں کہ پاک بحریہ کے آفیسرز و جوان کسی بھی طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور آزادانہ میری ٹائم سیکورٹی پیٹرولز کا فیصلہ مستقبل میں پاکستان کی معیشت اور دفاع پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ دہشت گردی اور بحریہ قزاقی سے نمٹنے کے لئے پاک بحریہ ہمیشہ پُرعزم اور علمبردار رہی ہے۔ ریجنل میری ٹائم پیٹرولز کے ذریعے محفوظ اور ہر قسم کے خطرات سے پاک میری ٹائم ماحول کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پاک بحریہ عالمی برادری میں سبز ہلالی پرچم کو مزید سربلند کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔