Sunday, June 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سفیر ضمیر اکرم کی کتاب کی رونمائی “پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کی تزویراتی و سفارتی اہمیت

جوہری طاقت کا حصول آسان ہدف نہیں،ہمارے ایٹمی سائنسدانوں اور انجینئرز نے جانفشانی سے کام کیا، ہمارے ایٹمی پروگرام پر عالمی دباؤ بہت تھا، پاکستانی سفیروں نے پہلی صف کے جنگجو کا کردار ادا کیا، ضمیر اکرم جیسے اعلیٰ صلاحیت کے حامل سفراء نے حق ادا کیا، پاکستان کی جوہری صلاحیت دشمن کو ہوش میں رکھنے کے لئے ضروری ہے، سقوطِ مشرقی پاکستان کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے، تحفظ کے لئے جدید ہتھیاروں کا حصول ناگزیر ہے
لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی کا کلیدی خطاب
سفیر ضمیر اکرم، سینیٹر جاوید جبار، ڈاکٹر معصومہ حسن اور خواتین و حضرات
السلام علیکم
میں بہت فخر محسوس کررہا ہوں کہ ڈاکٹر معصومہ حسن نے سفیر ضمیر اکرم کی کتاب ”اسٹرٹیجک امپریٹیو پاکستان نیوکلیئر ڈیٹرنس اینڈڈپلومیسی“ کی رونمائی میں مجھے اظہارِ خیال کرنے کا موقع فراہم کیا، میں اس حوالے سے دوہرا اعزاز رکھتا ہوں کیونکہ چند ماہ قبل سفیر ضمیر اکرم صاحب نے مذکورہ کتاب کا پیش لفظ لکھنے سے متعلق پوچھا تھا جسے لکھ کر میں بہت خوشی محسوس کررہا ہوں کیونکہ یہ میرے لئے اعزاز کی بات تھی اور دوسرا اعزاز یہاں آکر حاصل ہوا۔
تقریباً دو دہائیوں سے ہمارے تعلقات ہیں، پہلی ملاقات 2001ء میں واشنگٹن میں ہوئی تھی جب وہ پاکستانی سفارتخانے میں خدمات انجام دے رہے تھے، میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی سالوں میں اس وقت کے وزیرخارجہ عبدالستار کے ساتھ نئے قائم کردہ اسٹرٹیجک پلانز ڈویژن (SPD) میں بطور ڈائریکٹر جنرل کے خدمات انجام دے رہا تھا، سانحہ 9/11 ابھی نہیں ہوا تھا، اس امریکی دورے کے ایجنڈے میں دیگر معاملات کے علاوہ پاکستان میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی اور اسٹرٹیجک پلانز ڈویژن کی شکل میں نئے قائم ہونے والے نیوکلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے بارے میں بریفنگ دینا تھا اور پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کو مضبوط بنانے کا اہم نکتہ تھا، یہ معلومات خفیہ تھی اس لئے اس کی تشہیر کی ضرورت تھی تاکہ یہ یقین دہانی کرائی جاسکے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے محفوظ ہیں، ضمیر اکرم پیشہ ورانہ طور پر اس حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کررہے تھے، ملیحہ لودھی اس وقت امریکا میں پاکستان کی سفیر تھیں، ضمیر اکرم ہمیں ہر اس جگہ لے گئے جہاں بریفنگ دینا ضروری تھا، امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات ہوئی، موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی کے چیئرمین تھے، ہم نے اپنے نیوکلیئر اثاثوں سے متعلق نئے سیکیورٹی سسٹم پر تمام اہم شخصیات کو بریفنگ دی۔ یہ ضمیر اکرم سے پہلی شناسائی تھی اس کے بعد خارجہ تعلقات میں ان کی ذمہ داریاں بتدریج بڑھتی گئیں، جسے انہوں نے قومی مفاد کے مطابق بھرپور انداز سے نبھایا۔
بین الاقوامی سفارتکاری اور فوجی حکمت عملی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں، یہ ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اس لئے قومی سلامتی کے اثرات پیدا کرتے ہیں، میں نے غور کیا ہے کہ سفارتکاری ہر قسم بین الاقوامی خطرات بالخصوص پاکستان کے جوہری پروگرام کے دفاع کی پہلی لائن ہے، ہمارے جوہری پروگرام کو ابتدائی دنوں میں بھی خطرات کی کمی نہیں تھی، پاکستان کی جوہری خوف پیدا کرنے کی صلاحیت ہماری سلامتی کی بنیاد ہے، یہ پاکستان کی بقا میں مرکزی حیثیت کی حامل ہے، آپ شاید میری اس بات سے اتفاق کریں کہ اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان کی گلیوں میں رہنے والا عام پاکستانی ہمارے ایٹمی پروگرام کا مالک ہے تو یہ غلط نہ ہوگا کیونکہ اگر اسے کسی ممکنہ خطرے کی پہلی علامت کی بو بھی آتی ہے تو یہ پریشان ہوجاتا ہے، موجودہ سوشل میڈیا کو پیش نظر رکھیں تو میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ آپ سمجھ جائیں گے، سفیر ضمیر اکرم اور اسٹرٹیجک پلانز ڈویژن اس صورتِ حال سے ہمیں باہر نکال لیں گے، گزشتہ 24 سال سے ہم نے سفارتکاری اور اپنے سفارتکاروں کو سرحدپار پاکستان کے پہلے جنگجو تصور کیا ہے، سفیر ضمیر اکرم کی زبردست مہارت اور تجربہ SPD کے کام کو مزید تقویت بخشتا ہے کیونکہ میں گزشتہ آٹھ سالوں سے بطور ادارے کے مشیران کے ساتھ ہوں، ہم نے بہت جلد باہمی احترام کا رشتہ قائم کرلیا تھا اس لئے یہ ناگزیر تھا کہ پیشہ ورانہ تعلقات ذاتی دوستی میں تبدیل ہوجائیں اور ہمارے خاندان بھی اس دوستی کے رشتے میں شامل ہوجائیں، میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ کہہ سکتا ہوں ہ ہم ضمیر خاندان کو اپنے قابل قدر دوستوں میں شمار کرتے ہیں، یہ بات اس وقت اور بھی گہری ہوجاتی ہے جب ضمیر اکرم کے بڑے بھائی عالمی شہرت یافتہ سفیر منیر اکرم کا ذکر بھی آجائے جن کے ساتھ مجھے بھی کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے، میں اور ضمیر اکرم کئی سال سے ایک ساتھ کام کررہے ہیں اور جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ ہماری مشترکہ پیشہ ورانہ قومی ذمہ داریوں کے میں وہ بطور تجربہ کار جوہری سفارتکار اور SPD جوہری ڈیٹرنس کے حصے کی دیکھ بھال کررہے ہیں، دونوں ذمہ داریاں پاکستان کی قومی سلامتی اور اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں تزویراتی استحکام کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ادا کی جارہی ہیں، اس میں باہمی ہم آہنگی کا اہم کردار ہے اسی لئے کتاب کا عنوان اسٹریٹجک Imperative نیوکلیئر ڈیٹرنس اور ڈپلومیسی ہے، عنوان کا اس سے بہتر انتخاب نہیں کیا جاسکتا تھا، میں پیش لفظ سے چند اقتباسات کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ میں نے وہاں کیا کہنا چاہا ہے، اسٹریٹجک Imperative ایک دلچسپ کہانی ہے جسے پیشہ ورانہ طور پر بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح پاکستان کی سفارتکاری اور ہمارے قابل ترین سفارتکاروں نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو عالمی سیکریٹریٹ یا بین الاقوامی حفاظتی چھتری کے سامنے پہلی دفاعی لائن کے طور پر پیش کیا ہے، 1974ء میں اس کی ابتدا ہوئی، یہ خفیہ صلاحیت راتوں رات ظاہری طور پر 28 اور 30 مئی کی دوپہر کو آشکار کی گئی، اس حقیقی وقت میں زمین درست طریقے سے ہل رہی تھی، مانیٹرنگ سینسرز بشمول جامع ٹیسٹ فریش آرگنائزیشن (CTBTO) کے 300 سے زیادہ مانیٹرنگ اسٹیشنز کے پیچیدہ نیٹ ورک کے ذریعے جہاں مجھے ایک دورے کے دوران گرافک ریکارڈ دکھائے گئے، یہ ویانا میں ایک قابل فخر دن تھا، یہ کامیابی بہت اہم ہے کیونکہ 1998ء کے بعد اس کے نتیجے میں آنے والے سفارتی جھٹکوں کو پاکستان کی سفارتکاری اور شاندار ذہن رکھنے والے سفیر ضمیر اکرم کو کئی دہائیوں تک پابندیوں اور بھول بھلیوں سے پروگرام کی مکمل پختگی اور آپریشنل ہونے تک منظم کرنا پڑی۔ فعال ایٹمی ڈیٹرنس فورس ایک ایسی قوت ہے جس نے لفظی طور پر جنوبی ایشیا میں بڑی جنگوں سے دور اور پاکستان کو اس سے محفوظ کردیا ہے۔ ان تمام مشکل سالوں میں پاکستان کے ذہین و ہوشیار سفارتکار بھیڑیوں کو دور رکھنے میں کامیاب رہے اور سفیر ضمیر اکرم نے مختلف تقرریوں کی تعیناتی کے دوران چاہے وہ پاکستان میں ہیڈکوارٹر میں ہوں، وزیراعظم سیکریٹریٹ میں یا پاکستان سے باہر واشنگٹن یا جنیوا میں ہوں پاکستان کے یہ سفارتکار ایک جنگجو کی طرح مرکزی حیثیت کے حامل رہے، مجھے اُمید ہے کہ اگر میں اس کے لئے کوئی ایسی اصطلاح استعمال کروں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، جسے مغرب کی جانب سے ہوشیار ترین چینی سفارتکاروں کے لئے استعمال کیا جارہا ہے، میرے خیال میں سفیر ضمیر اکرم اس اصطلاح پر فٹ بیٹھتے ہیں، انہوں نے ہر اس اعتراض کو بین الاقوامی ناقدین کی طرف پلٹا دیا جو ان پر کیا گیا، انہوں نے پاکستان کے مفادات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، تاریخ کو قریب سے دیکھا اور شاندار انداز سے بیان کیا، وہ نہ صرف رنگ سائیڈ سفارتکار کی حیثیت سے لطف اندوز ہوتے رہے بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ پاکستان کی ایٹمی تاریخ کے نازک ادوار میں ایک اہم ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے، ضمیر اکرم کی سفارتی ذمہ داریوں کے درمیان بڑے پیشہ ورانہ Overlap تھے، جنیوا میں تخفیف اسلحہ کی کانفرنس (CD) کے تمام نمائندے سوائے چین کے ہمارے خلاف صفِ آراء تھے لیکن بالآخر پاکستان کے موقف کو منوایا، ہمیں ہم آہنگی کی ضرورت تھی، غلطیوں کی کوئی گنجائش نہیں تھی، ان ہوشیار اور ذہین سفارتکاروں نے پاکستان کا شکار کرنے والے شکاریوں کے حال کو تہس نہس کردیا، تخفیف اسلحہ کانفرنس میں ان کی اور ان جیسے سفارتکاروں کی ذہانت کے باعث کامیابی ملی۔ Fissile Material Cutoff Treaty (FMCT) پر گفتگو و شنید تقریباً دو دہائیوں سے پاکستان کی جانب سے اس لئے رکی ہوئی ہے کہ مجوزہ معاہدہ پاکستان کی سلامتی کے مفاد میں نہیں ہے اور اس حوالے سے سفیر منیر اکرم، مسعود خان اور ضمیر اکرم نے شاندار جوہری سفارتکاری کا مظاہرہ کیا، جس پر یہ حضرات تعریف کے مستحق ہیں، ہندوستانی پریس ملٹری کے تیزی سے پختہ ہونے والے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن نظریہ کے خلاف اسٹرٹیجک اور آپریشنل مجبوریوں کا ایک پورا پہلو موجود تھا، ہماری دفاعی ضرورت کے مطابق چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کے لئے پلوٹونیم کا مناسب ذخیرہ تیار کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں Inventory کے خلاء کو پورا کرنے کے لئے حکمت عملی ترتیب دینا ہے، ڈیٹرنس کو مکمل مضبوط بنانے کے لئے ہمیں بہت وقت درکار تھا، اگر پاکستان بے فکری سے بین الاقوامی دباؤ کے سامنے جھک جاتا اور FMCT کے مذاکرات کے لئے راضی ہوجاتا تو اس کے عسکری و سیاسی طور پر تزویراتی نتائج تباہ کن ہوتے، یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت نے نیشنل کمانڈ اتھارٹی کی مشاورت سے FMCT کو ختم کرنے کی منظوری دی، اس طرح جنیوا میں سفیر ضمیر اکرم کے ہاتھ مضبوط ہوئے، پاکستان کی سفارتکاری نے اس حوالے سے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ مضبوط ارادے سے سازش کو ناکام بنایا۔
بلاشبہ 2011ء تک قومی اتفاق رائے جوہری پروگرام کے لئے طاقت کا سب سے بڑا ذریعہ بنا اور پاکستان کو اس قابل کیا کہ وہ قابل اعتبار کم از کم ڈیٹرنس کو مکمل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کی پالیسی میں تبدیل کرسکے، ہم نے عالمی دباؤ سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی کے عام طریقوں کا احاطہ کیا، اسٹرٹیجک، آپریشنل، ٹیکنیکل مہارت سے زمین، فضا اور سمندر میں اپنی جوہری صلاحیت پر دسترس کو یقینی بنایا، ضمیر اکرم جیسے سپر سفارتکار اور ان کے ساتھیوں کی پیشہ ورانہ مہارت سے 2011ء سے لے کر آج تک عالمی دباؤ سے نمٹنے میں کامیاب ہوئے،ہماری فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کی مضبوط جوہری پالیسی ان لوگوں کی کاوشوں سے کامیاب رہی، بھارتی عسکری حکمت عملی گزشتہ چار دہائیوں میں ہمارے خلاف ناکام رہی کیونکہ زمینی حقائق عیاں ہیں کہ پاکستان کی فل اسپیکٹرم جوہری صلاحیت ایک حقیقت ہے، پاکستان اپنی روایتی فورسز کی حمایت اور ہم آہنگی سے مربوط سیکیورٹی پالیسی پر گامزن ہے، پاکستان کے بارے میں نئی حقیقت کی وجہ سے بھارت کے سیاسی انداز میں آہستہ آہستہ تبدیلی آئی کیونکہ ہندوستان کے سیاستدانوں نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت پاکستان پر براہ راست دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، ہائی برڈ وار فیئر اور ففتھ جنریشن وار کے ذریعے پاکستان کو اندرونی طور پر نقصان پہنچانے کی حکمت عملی اپنائی، ہماری جوہری صلاحیت کے ردعمل میں مشرقی سرحد پر تناؤ اور کشیدگی پیدا کی مگر یہ سب بے سود رہا۔ پاکستان بلواسطہ طور پر بھارتی حکمت عملیوں کا موثر انداز میں جواب دے رہا ہے، خطے کا عدم توازن پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے لئے باعث تشویش ہونا چاہئے، باہمی ہم آہنگی سے ہی اس کا جواب دیا جاسکتا ہے، پاکستان کی ترقی پذیر جوہری صلاحیت ہی کی وجہ سے بھارت کے جنگی جذبات ٹھنڈے پڑجاتے ہیں، بھارت کو جنگی خواہش اور ملٹری ڈاکٹرائن تبدیل کرنا پڑی، جنرل کے سندرجی کے ”گنگ ہو، میکنائز، متحرک اور نشانہ لگانے“ پر مشتمل ڈاکٹرائن کو 1986-87ء میں عملی جامہ پہنانے کے لئے جنرل دی پی ملک اور جنرل پدمنابھن ایٹمی دباؤ کے اندر محدود جنگ کے تصور پر کام کرکے راجھستان کے صحرا میں Brasstacks Exercise شروع کی، 2001-02ء میں آپریشن پروگرام کو اُس وقت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جب پاکستان کے نصر میزائل نے بھارت کے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کو بے اثر کردیا تھا، یہی کچھ 2011ء میں ہوا، پھر 2016ء میں جنرل بپن راوت کی جعلی اسٹرٹیجک اسٹرائیک کا قابل رحم تماشہ لگا اور آخرکار 26 فروری 2019ء کی انڈین ایئرفورس کی بالاکوٹ اسٹرٹیجک میں حتمی تذلیل ہوگئی، جب پاکستان ایئرفورس نے اگلے دن جواب میں حملہ کیا تو انڈین ایئرفورس کو شدید نقصان پہنچا۔ اس نازک صورتِ حال کے دوران پاکستان نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو مضبوط اور اپنی جوہری صلاحیت کو مستحکم کیا جس سے بھارت پر اسٹرٹیجک اثرات پڑے، خوش قسمتی سے انتہائی زیرک سفیر جیسے ضمیر اکرم کو جنہوں نے انتہائی محنت سے ہمارے اسٹرٹیجک منصوبہ سازوں کے ساتھ مل کر کام کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دفاع کی پہلی لائن کو کبھی بھی پامال نہیں ہونے دیا جائے گا، 1972ء سے جب ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کا پہلی بار تصور پیش کیا گیا تھا اس وقت سے 5 دہائیوں سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے، اس دوران انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بین الاقوامی ماحول ہمارے ایٹمی سائنسدانوں اور انجینئرز پر کوئی نقصان دہ اثر نہ ڈال سکے، انہوں نے دن رات کام کیا جو بھی ذمہ داری سونپی گئی اُسے احسن انداز سے پورا کیا، تاریخی اور تزویراتی طور پر دیکھا جائے تو 1972ء سے اب تک ہماری جوہری پالیسی کا مقصد یہ تھا کہ طاقت کے عدم توازن کو ختم کیا جائے، بھارت کو دوبارہ کبھی بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کا موقع نہ دیا جائے کیونکہ 1971ء کی تباہ کن جنگ کا تلخ سبق ہمیں سکھا گیا ہے، جسے ہم فراموش نہیں کرسکتے۔ روایتی افواج کے لحاظ سے ہندوستانی افواج کے بعض حصوں میں عدم توازن پیش کیا جانا غیرمنطقی ہے کیونکہ پاکستان نے سہ فریقی سطح پر جوہری صلاحیت حاصل کرکے طاقت کے توازن کو درست کردیا، پاکستان کے جوہری پروگرام کا محور صرف بھارت ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ آج پانچ دہائیوں کے بعد میں اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس ڈیٹرنس کے ذریعے بھارت کے جارحانہ عزائم کی روک تھام کے ساتھ جنوبی ایشیا میں امن کو یقینی بنایا ہے۔ 1971ء جیسی تباہی اب نہیں ہوسکے گی۔ 1948ء، 1965ء، 1971ء اور 1999ء میں کارگل کی محدود جنگیں اب جنوبی ایشیا میں ممکن نہیں ہیں۔ بھارت روایتی قوتوں کے توازن کو جتنا چاہے بگاڑنے کی کوشش کرے اس سے فرق نہیں پڑے گا کیونکہ پاکستان کی فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کی جوہری صلاحیت امن کو یقینی بنائے گی، دونوں جوہری قوتیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوجی سازوسامان اور عسکری مین پاور کو بڑھائیں گی لیکن تحمل کے ساتھ اور سیاسی مقاصد کے لئے کسی جارحیت کا ارتکاب کرنے سے اجتناب کریں گی۔ میرے خیال میں 1971ء کے بعد بھارت اور پاکستان دونوں نے سبق سیکھا ہے۔ ان سب باتوں کے بعد گزشتہ پانچ دہائیوں میں پاکستان کے جوہری سائنسدانوں اور انجینئرز کے یادگار کام کا ذکر اور اعتراف نہ کروں تو یہ درست نہیں ہوگا کہ جنہیں 1972ء میں قومی سیاسی قیادت نے پاکستان کی سلامتی کے لئے ایٹمی ڈیٹرنس تیار کرنے کا ہدف دیا تھا، 1971ء کی جنگ میں شکست کے بعد ان بے لوث قابل سیاستدانوں اور انجینئرز نے اس چیلنج کو قبول کیا، دن رات انتھک محنت کی، سال ہا سال پیچیدہ ترین ٹیکنالوجیز پر کام کیا اور بالآخر وہ کچھ حاصل کرلیا جو مقصود تھا۔ اگرچہ اس کامیابی کے پیچھے کچھ نمایاں گھریلو نام ہیں، ان مشہور ناموں میں ایک بہت بڑی تعداد ہے جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خاموش نامعلوم سپاہی اور ہیرو ہیں، کچھ نمایاں نام کا ذکر میں کر دیتا ہوں لیکن کچھ نامعلوم ہیروز کو پس پردہ ہی رہنے دیتا ہوں، تاریخ کے اعتبار سے کچھ نام جو ہمیشہ سرفہرست رہیں گے ان میں ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی، جناب منیر احمد خان، ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر اشفاق احمد، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، ڈاکٹر پرویز بٹ، ڈاکٹر ایف ایچ ہاشمی، جناب عرفان برنی، ڈاکٹر انصر پرویز شامل ہیں۔ سفیر ضمیر اکرم نے 1972ء سے 2022ء تک کے 50 سالوں کے دوران کے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے سفر کا احاطہ کیا ہے۔ اسٹرٹیجک ڈیٹرنس کی ترقی اور معاون سفارتکاری نے اس تمام عرصے میں مربوط طریقے سے کام کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کی صلاحیت کے حامل ہیں، اس ہم آہنگی سے پاکستان کا دفاع اور سلامتی جڑی ہوئی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اسٹرٹیجک امیریٹیو پاکستان کی نیوکلیئر ڈیٹرنس اور ڈپلومیسی کی شاندار کارکردگی ایک بہترین اکاؤنٹ ہے، پانچ دہائیوں کے اس سفر کی سفارتی چالیں، جڑے واقعات اور راستے میں دلچسپ اقساط کو ضمیر اکرم نے بخسن و خوبی بیان کیا ہے کیونکہ خوش قسمتی سے وہ خود اس کا ایک کردار تھے، ان کا شاندار سفارتی کیریئر ہے جس پر وہ مجھ سمیت تمام پاکستانیوں کی سلامی کے حقدار ہیں کیونکہ انہوں نے ایک بنجر زمین پر کام کیا اور اُسے تیار کیا، انہوں نے ہمارے آنے والی نسلوں کو محفوظ کرنے کے لئے جو خدمات دیں وہ ہم سب کا اثاثہ ہے، شکریہ سفیر ضمیر اکرم اور اس تقریب میں شریک تمام احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

مطلقہ خبریں