جب شاہینوں نے بھارتی غرور خاک میں ملا دیا
بالاکوٹ میں نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک ڈرامہ کے بعد پاک فضائیہ نے دو بھارتی طیارے مار گرائے،
ابھی نندن کی گرفتاری اور ”چائے“ پلانے کا واقعہ یادگار رہا
حبیب اللہ قمر
ستائیس فروری 2019ء پاکستانی تاریخ کا وہ یادگار دن ہے جب بھارت کو پاکستان کے خلاف جارحیت پر بُری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ گزشتہ برس کی طرح امسال بھی پاکستانی فضائیہ کی طرف سے یہ دن یومِ فتح کے طور پر منایا گیا۔ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے تین سال قبل جس طرح بھارتی کرگسوں کو دھول چٹائی، اس سے غاصب بھارت کے زخم پھر سے ہرے ہوئے ہیں اور انہیں اپنی ہزیمت یاد آ رہی ہوگی۔ یہ وہ دن ہے کہ جب پاکستان نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے دو ہندوستانی طیارے مار گرائے اور ایک ہندوستانی پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرلیا جسے بعد میں جذبہ خیرسگالی کے تحت رہا کردیا گیا تھا۔ پاکستانی طیاروں نے مقبوضہ کشمیر میں چھ مقامات پر بھارتی فوج کے اسلحہ ڈپوؤں سے محفوظ فاصلہ پر اسٹرائیک کی اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ کسی انسانی زندگی کا کوئی نقصان نہ ہو، تاہم اسی دوران جب دو بھارتی طیاروں نے پاکستانی حدود کی دوبارہ خلاف ورزی کی تو پاک فضائیہ کے شاہینوں نے انتہائی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں تباہ کردیا۔ پاک فضائیہ چاہتی تو مقبوضہ کشمیر میں جن ڈپوؤں کے آس پاس کھلے مقامات پر اسٹرائیک کی گئی انہیں بآسانی نشانہ بنا کر تباہی پھیلا سکتی تھی لیکن پاکستان کا مقصد ہی چونکہ بھارت کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ جارحانہ رویوں سے باز رہے، اس لئے ہمارے طیاروں نے کمالِ مہارت سے اپنی حکمت عملی کے مطابق کارروائی کی۔ بھارتی طیاروں کی طرف سے 26 فروری کو جب رات کی تاریکی میں بالاکوٹ کے مقام پر پے لوڈ گرائے گئے تو دُنیا بھر میں جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا کہ بھارت نے کشمیری جہادی تنظیم جیش محمد کے کیمپ پر حملہ کیا ہے اور اس میں مولانا مسعود اظہر کے بھائی یوسف اظہر سمیت ساڑھے تین سو کے قریب مجاہدین شہید ہوئے ہیں۔
ہندوستانی طیاروں نے جس جگہ پر پے لوڈ گرائے وہاں درختوں کے سوا کوئی چیز نہیں تھی اور چند ایک درختوں کی تباہی کے علاوہ کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن جونہی یہ بھارتی دعویٰ سامنے آیا ہندوستانی ٹی وی چینلز نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور اینکر حضرات نے بندروں کی طرح اچھل کود کرتے ہوئے جنگی ماحول بنانا شروع کردیا۔ پلوامہ حملہ کے بعد پاکستان نے صاف طور پر کہا کہ حملہ آور کشمیری تھا اور بارود بھی انڈیا سے درآمد ہوا لہٰذا پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرنے کے بجائے انڈیا کو دیکھنا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پوری کشمیری قوم میدانوں میں نکل کھڑی ہوئی ہے اور کشمیری نوجوان بھارتی فورسز پر حملوں کے لئے اپنی زندگیوں کی بھی پروا نہیں کرتے؟۔ حکومت پاکستان نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس حملہ میں کوئی پاکستانی ملوث ہے تو اس کا ثبوت دیں ہم اس کے خلاف کارروائی کریں گے مگر ہندو انتہاپسند مودی سرکار پر جنگ کا جنون سوار تھا، اس لئے وہ باز نہیں آیا اور ایک طرف بھارتی طیاروں نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی تو دوسری جانب سرحدی علاقوں میں عام شہریوں پر فائرنگ کی جاتی رہی۔ بھارت کی ان جارحانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے ایک مرتبہ اسے کرارا جواب دینا اور سبق سکھانا بہت ضروری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی جے ایف تھنڈر طیاروں نے بھارتی طیارے گرا کر دشمن کے دل و دماغ پر اپنی دھاک بٹھا دی اور اسٹیلتھ ٹیکنالوجی میں بھی اپنی سبقت ثابت کردی۔ یہ کارروائی اس قدر کامیاب انداز میں ہوئی کہ بھارتی ریڈار ہمارے طیاروں کا پتہ ہی نہ چلا سکے۔
پاکستانی فضائیہ نے بھارتی طیارے گرائے تو نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کا جشن منانے والے بھارت میں صفِ ماتم بچھ گئی اور اس کی فوج، حکومت اور عوام کا سارا نشہ ہرن ہوگیا۔ متعصب بھارتی میڈیا کو تو ایک دم سانپ سونگھ گیا اور کتنی دیر تک ہندوستانی ٹی وی چینلز کی نشریات بریکنگ نیوز سے نکل گئیں۔ انہیں کچھ سجائی نہیں دے رہا تھا کہ اب کرنا کیا ہے؟۔ طیاروں کی تباہی پر بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ایک ڈیڑھ منٹ کی مختصر پریس کانفرنس کی اور بیٹھتے ساتھ ہی کہہ دیا کہ ان سے سوال کوئی نہیں کیا جائے گا۔ بھارتی ترجمان نے پہلے سے لکھا ہوا ایک صفحہ پڑھا اور اپنی قوم کو مطمئن کرنے کے لئے جھوٹ بولا کہ ہندوستانی فضائیہ نے پاکستان کا ایک ایف-16 طیارہ تباہ کیا ہے جس کا ملبہ پاکستانی علاقے میں گرا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ انڈیا کا ایک طیارہ بھی تباہ ہوا ہے جس کا پائلٹ لاپتہ ہے۔ ساری دُنیا ٹی وی چینلز پر سابق ہندوستانی ایئرچیف کے بیٹے ونگ کمانڈر ابھی نندن کی گرفتاری اور پاکستانی فوج کی تحویل میں اپنا عہدہ وغیرہ بتانے کی ویڈیوز دیکھ رہی تھی جبکہ دوسری طرف ہندوستانی ترجمان اس کے لاپتہ ہونے کی باتیں کررہے تھے۔ بڈگام میں تو کشمیری عوام تباہ شدہ طیارے کے اردگرد کھڑے ہو کر پاکستان زندہ باد اور جیوے جیوے پاکستان کے نعرے لگاتے رہے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب پوری پاکستانی قوم افواجِ پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی نظر آئی جبکہ بھارت میں اس بات پر احتجاج کیا جاتا رہا کہ مودی حکومت آئندہ انتخابات میں سیاسی فائدے کے لئے اپنے فوجی مروا رہی ہے۔ ہندوستانی فوجیوں کے اہل خانہ نے بھی شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے تو کارروائی کرکے دکھا دیا، اگر انڈیا نے بھی بالاکوٹ میں کامیاب کارروائی کی ہے تو پھر شہید کئے جانے والے پاکستانیوں کی لاشیں کیوں نہیں دکھائی جا رہیں؟۔ ہندوستانی عوام کا طرزِعمل دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ بھارت کے عام لوگ جنگ نہیں چاہتے لیکن بی جے پی ہندوؤں پر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے بزدلانہ حرکتیں کرتی رہی۔
بھارت میں 27 فروری کی ہزیمت کے حوالے سے معروف بھارتی اینکر ارنب گوسوامی اور بھارتی براڈ کاسٹ آڈینس ریسرچ کونسل کے سربراہ داس گپتا کی واٹس ایپ چیٹ بھی سامنے آئی جس پر پلوامہ ڈرامہ کے اصل حقائق ایک مرتبہ پھر پوری دُنیا کے سامنے بے نقاب ہوئے اور بالاکوٹ حملوں سے متعلق بھی نئے انکشافات منظرعام پر آئے ہیں جس پر آج تک بی جے پی حکومت کو سخت تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ اس چیٹنگ میں ارنب گوسوامی نے پلوامہ میں پچاس ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکت کو انڈیا کی بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں کی طرح مرنے والے ہندوستانی فوجیوں کے اہل خانہ کی جانب سے بھی یہ سوالات اٹھائے جاتے رہے کہ کیا مودی سرکار نے محض الیکشن جیتنے کے لئے درجنوں ہندوستانی فوجیوں کی ”قربانی“ دی تھی؟۔
ابھی چند دن قبل ہی ریاست کرناٹک جہاں مسلم بیٹیوں کے حجاب اور برقع پر پابندیاں لگائی گئیں وہیں انتہاپسند تنظیم بجرنگ دل کے ایک اہلکار کی ہلاکت پر مسلمانوں کی بستیوں، گھروں اور دوکانوں پر زبردست حملے اور توڑپھوڑ کی گئی ہے۔ انتہاپسند تنظیموں کی طرف سے بھڑکائے گئے اس مسلم کش فساد میں دو صحافیوں اور ایک خاتون پولیس اہلکار سمیت کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں جب کہ درجنوں گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی اور مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر خواتین پر تشدد اور انہیں ہراساں کیا جاتا رہا۔ شیوسینا اور دوسری انتہاپسند تنظیموں کی دہشت گردی کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت میں بی جے پی حکومت پورے انڈیا میں ہندوتوا کا جھنڈا لہرانے کی خواہش رکھتی ہے لیکن اس کی یہ مذموم حرکتیں انشاء اللہ اسے جلد لے ڈوبیں گی، وہ وقت دور نہیں ہے جب کشمیر کی طرح اسے بھارتی ریاستوں میں بھی زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور آزادی کی اٹھنے والی تحریکوں پر قابو پانا بھارت سرکار کے لئے ممکن نہیں رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ذمہ داران انڈیا کے گھناؤنے کردار کو اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر بے نقاب کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں تاکہ بھارتی ریاستی دہشت گردی اور خطہ کا امن برباد کرنے کی سازشیں روکنے کے لئے بھرپور کردار ادا کیا جاسکے۔