میر افسر امان
ہم جس برصغیر میں رہتے ہیں، دنیا اِسے سونے کی چڑیا سے منسوب کرتی آئی ہے۔ اسی لئے یہاں غالب قومیں آتی رہیں اور اس خطے سے مستفید ہوتی رہیں۔ زیاد ہ دُور نہیں جاتے، برصغیر کی قدیم ترین قوم داروڑ قوم سے بات شروع کرتے ہیں۔ برصغیر میں رہنے والی اس قوم نے برصغیر کے پانیوں کے چشموں، دریاؤں کی روانیوں، فلک بوس بلند تریں پہاڑوں، اس کی زرخیز زمینوں، اس کے باغات کے پھلوں اور اس کے سمندروں سے فائدہ اُٹھاتے رہے۔ ان ساری نعمتوں کو شاہد داروڑ استعمال کرتے کرتے سست جان ہوگئے۔ ان کی سست جانی کی وجہ سے پھر فطرت نے اپنا کام شروع کردیا۔ داروڑ اپنے وطن کی حفاظت نہ کرسکے۔ ان کی کمزوریوں کی وجہ سے غالب قوم آریا، ان پر چڑھ دھوڑی۔ کیونکہ ان کا وطن برصغیر، سونے کی چڑیا جو ٹھہرا۔ آریوں نے زمین کے مالکوں، داروڑوں کی نسل کشی شروع کی۔ یہ اسی طرح ہے جیسے برطانیہ سے گئے گورے انگریزوں نے امریکی خطے میں ریڈ انڈین کے ساتھ کیا۔ اب بھی برصغیر اور امریکہ میں بچے کچھے یہ لوگ اپنے حقِ مالکیت کے لئے روتے دھوتے رہتے ہیں مگر اقتدار کے نشے میں غالب لوگ کب کسی کو اُن کے حقوق دیتے ہیں؟
اگر دیکھا جائے کہ جس رب نے یہ حسین جمیل زمین، اپنے ایک کن فیکون کے حکم سے بنائی تھی۔ پھر دنیا میں جتنے انسان اوّل سے آخر تک اپنی اسکیم کے مطابق پیدا کرنے تھے، ان کی روحوں کو اپنے سامنے حاضر کر کے دربار لگایا اور ان سے کہا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں، سب نے کہا کہ آپ ہمارے رب ہیں، ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ پھر رب نے کہا کہ زمین میں تم نے میرے احکامات کے مطابق رہنا ہے۔ رب نے اپنے بندوں کے درمیان برابر کا حق رکھا تھا۔ان سب باتوں کے ساتھ شیطان کو بھی رب نے پیدا کیا۔ پہلے پہلے سب لوگ اللہ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے کو حق دیتے رہے اور زمین میں سکون اور امن تھا۔ پھر شیطان نے اپنی اسکیم کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں عابیل قابیل میں سے ایک بیٹے کو دوسرے بیٹے کے خلاف کیا، اُس نافرمان نے اپنے حق سے زیادہ کا دعویٰ کیا، پھر اپنے بھائی کو قتل کردیا۔ دنیا میں یہیں سے انسانوں میں حقوق کی لڑائیاں شروع ہوئیں۔ اللہ نے اپنے بندوں کو برابر کے حقوق دلانے کے لئے اپنے پیغمبروں کو بھیجا۔ کسی نے ان کی بات مانی اور کسی نہیں سنی اور آپس میں حقوق کی لڑائی کی، جو آج تک جاری و ساری ہے، جس میں ایک ہندو مسلمان کی بھی لڑائی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ اللہ کے احکامات پر عمل کرتے تو اللہ آسمان سے پانی برساتا اور زمین اپنے خزانے اُگل دیتی۔ پھر کیا یہ حقوق اور ملکوں کی لڑائیاں ہوتیں؟
آریوں اور انگریزوں کے بعد فطرت کے قانون کے مطابق جب ایک اللہ کو ماننے والے مسلمان برصغیر میں آئے تو انہوں نے اللہ کے حکم کے مطابق پرانی قوموں کے حقوق سلب نہیں کئے بلکہ ان سے ممکن حد تک رواداری برتی۔ اس رواداری کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھتے دیکھتے برصغیر کے کروڑوں باشندے مسلمانوں ہونے لگے۔ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور میں برصغیر میں امن و امان تھا، دونوں بڑی قوموں میں رواداری تھی، فطرت کے مطابق جب مسلمان بھی سست روی کا شکار ہوئے تو اللہ نے ایک اور قوم انگریز کو ان دونوں پر مسلط کردیا تھا۔ دو سو سال بعد دونوں نے انگریز کی غلامی سے نکلنے کے لئے مل جل کر جدوجہد کی۔ انگریزوں کے برصغیر چھوڑے پر ہندوؤں نے اپنے حق سے زیادہ چھننے کی کوشش کی اور فلسفہ دیا کہ قومیں اوطان سے بنتیں ہیں۔ مسلمانوں نے نظریہ پیش کیا کہ مسلمان قوم عام قوموں کی طرح نہیں ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس تشریع اس طرح کی
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول عاشمیؐ
ایک طرف ہندو اور دوسری طرف مسلمان۔ آخر میں بین الاقوامی اصول پر طے ہوا کہ جس جگہ ہندو زیادہ ہیں وہاں ہندوؤں کی حکومت بھارت اور جہاں مسلمان زیادہ ہیں وہاں مسلمانوں کی حکومت پاکستان۔ اس بین الاقوامی فارمولے کے تحت برصغیر کو دو ملکوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ہندوؤں نے اس تقسیم کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے جبکہ پاکستان نے دوقومی نظریہ، جس کی بنیاد پر قائم ہوا تھا چھوڑ دیا۔ پاکستان کی مقامی قوموں نے سر اُٹھا لیا۔ بھارت نے سندھ میں جی ایم سید اور الطاف حسین کو استعمال کیا۔ سابق صوبہ سرحد میں عبدالغفار خان کو۔ یہ پاکستان دشمن اپنی انتہائی کوششوں کے باوجود تو کامیاب نہ ہوئے سکے مگر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی بنگالی قومیت نے رنگ دکھایا۔
شیخ مجیب نے بنگالی قومیت پر علیحدگی کی تحریک شروع کی اور ہندوستان نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کرکے پاکستان کا ایک بازو کاٹ دیا۔ اب بھی بھارت پاکستان کو توڑ کر اَکھنڈ بھارت بنانے کے پالیسیوں پر عمل کر کے اپنا غلام بنانے کی سازش پر عملدرآمد کررہا ہے۔ اگر پاکستان میں مسلمان ایک قوم بن کر رہتے، قائداعظمؒ کے دو قومی نظریہ پر عمل کرتے اور بھارت کے مقابلے میں ڈٹے رہتے تو بھارت اس کے ایک بازو مشرقی پاکستان کو نہ توڑ سکتا۔ بھارت اب بھی کہتا ہے کہ پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے تھے اب اس کے دس ٹکڑے کروں گا۔
صاحبو! باقی ساری باتیں زمنی ہیں کہ پاکستان کی فوج کی غلطی تھی یا سیاستدانوں کی غلطی تھی۔ نہیں بلکہ پوری قوم کی غلطی تھی۔ یہ ایک الگ بحث ہے اور اس میں وزن بھی ہے مگر اب بھی باقی پاکستان میں سب سے بڑی بات کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مدینہ کی فلاحی اسلامی جہادی ریاست قائم کردی جائے۔ مقامی قومیتوں کے حقوق پر ممکن حد تک عمل کرتے ہوئے پاکستانی یک جان ہوجائیں تو اب بھی کچھ نہیں گیا۔ یہاں پر ہی سونے کی چڑیا برصغیر موجود ہے اور ناپ تول کا گز بھی۔ اللہ کے رسولؐ کی ہندوستان پرغلبے والی حدیث بھی۔ پھر مثل مدینہ اسلامی فلاحی، جہادی، ایٹمی میزائل طاقت اور ایمان سے لبریز پاکستانی قوم کی طاقت کے سامنے دشمن نہیں ٹھہر سکے گا۔ پھر بھارت کے مسلمانوں کو بھی حوصلہ ملے گا اور کشمیر کے مسلمان بھی بھارتی غلامی سے آزاد ہوجائیں گے۔ بنگلہ دیش بھی واپس اپنی ملت میں آجائے گا۔ ہندو نے جیسے برصغیر کی قدیم قوم، دراڑوں کو ڈرا ڈرا کر غلام بنا لیا تھا اور اب مسلمانوں کو ڈراتے رہتے ہیں کہ بھارت میں ہندو بن کے رہو ورنہ پاکستان چلے جاؤ۔۔۔ کیوں! پاکستان چلے جائیں؟ جب پاکستان میں قائداعظم ؒ کی وژن کے مطابق دوقومی نظریہ والی، مثل مدینہ فلاحی جہادی ریاست بن جائے گی تو پھر بھارت کے مسلمان بھارت میں ایک اور پاکستان بنائیں گے۔۔۔ مقتدر حلقوں اٹھو اور بھارت کی دھمکیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوتے ہوئے اعلان کردو کہ اگر ہم نہیں تو پھر تم بھی نہیں۔ افغانستان میں سوویت رشیا کو شکست سے دوچار کرنے والے، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو ناکوں چنے چبھانے والے اور مشرقی پاکستان میں فوج سے سے آگے بڑھ کی جنگ لڑنے والے البدر اور الشمس کے جانشین، جماعت اسلامی کے مجاہد بھی موجود ہیں۔ پاکستان کے اہل اقتدار اگر تم نہیں ایسا نہ کرو گے تو تمہارا اقتدار بھی نہیں رہے گا کیونکہ کہ تمہاری بربادی کا فیصلہ تو بھارت نے اعلانیہ کیا ہوا ہے۔ وہ تمہیں نیست و نابود کردے گا اور تم آلو پیاز کی تجارت میں لگے ہوئے ہو۔ اُٹھو ایٹمی میزائل طاقت پاکستان کو مثل مدینہ فلاحی جہادی ریاست بناؤ اور تحریک پاکستان جیسی تحریک دوبارہ برپاہ کرو۔ تمہاری بقا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ پھر پاکستان میں کوئی دوسرا سانحہ مشرقی پاکستان نہیں ہوسکے گا۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔آمین۔