Thursday, January 30, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

سانحہ احمد پور شرقیہ انسانی غفلت یا قدرت کا لکھا؟

ضمیر آفاقی
ہر حادثے، بم دھماکے، خودکش حملے اور کسی بھی غفلت کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں اپنے پیچھے کئی طرح کے سوال چھوڑ جاتی ہیں کہ ایسا کیوں، کیسے ہوا؟ مہذب اور ترقی پسند ملک اور قومیں اس کیوں اور کیسے کا جواب تلاش کرتی ہیں تاکہ دوبارہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو یا کم سے کم اس میں کمی تو واقع ہوجائے لیکن ہم بحیثیت مجموعی کسی طرح کے بھی واقعے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کو ’’اس کی قسمت‘‘ یا قدرت کے کھاتے میں ڈال کر جان چھڑا لیتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں ٹریفک حادثات، خودکش دھماکے، بم دھماکے یا انسانی غفلت اور کوتاہی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں شاید دُنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہوتی ہیں۔ ہمارا ایک المیہ اور بھی ہے، ہم انسانی جان کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھتے، ہمارے ہاں ریاستی ادارے خصوصاً پولیس کے شیر جوانوں کے پاس بھی ’’انسان‘‘ کو مارنے کے کئی طرح کے جواز ہیں، حالانکہ قانون اور انصاف کا پہلا تقاضا ہی یہ ہے کہ انسانی جان کی حرمت اور اس کے تقدس کو مقدم رکھا جائے۔
احمد پور شرقیہ سانحہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اور یہاں ہونے والی لوٹ مار یا بہتے ہوئے پیٹرول پر شہریوں کا ٹوٹ پڑنا بھی کوئی نئی بات نہیں۔ اسی طرح کا واقعہ گزشتہ برس 17 نومبر 2016ء کو موزمبیق میں پیش آیا تھا جب 93 افراد ہلاک جبکہ سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ اسی طرح کے ایک واقعے میں افغانستان میں بھی 8 مئی 2016ء کو کم از کم 73 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 16 ستمبر 2015ء کو جنوبی سوڈان میں بھی آئل ٹینکر الٹنے کے سبب جب عوام کی بڑی تعداد پیٹرول جمع کررہی تھی تو آگ لگ جانے کے باعث 203 افراد ہلاک جبکہ 150 زخمی ہوگئے تھے۔ 11 جنوری 2015ء کو اسی علاقے میں جہاں حال ہی میں آئل ٹینکر کا حادثہ ہوا ہے غلط سمت سے آنے والے آئل ٹینکر سے کوچ کے ٹکرا جانے کے سبب 62 افراد جاں بحق ہوئے تھے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب سے گزرنے والی قومی شاہراہ کا یہ سیکشن جہاں پیٹرول کا ٹینکر ٹائر پھٹنے کی وجہ سے توازن خراب ہوجانے کے باعث الٹا، اس سیکشن پر پنجاب اور خیبرپختونخوا سے کراچی و بلوچستان آنے جانے والی بھاری ٹریفک چوبیس گھنٹے رواں رہتی ہے۔ رات کو یہ ٹریفک فل بیم ہیڈ لائٹس کے ساتھ چلتی ہے اور سامنے سے آنے والے کو کچھ نظر نہیں آتا۔ گنے کی کٹائی اور کرشنگ سیزن میں بہاولپور تا رحیم یار خان قومی شاہراہ کے ہر دسویں کلومیٹر پر قائم شوگر مل کے سبب ہائی وے پر تاحدِ نگاہ دو رویہ ٹریکٹر ٹرالیوں کا راج ہوتا ہے اور ہر ٹرالی پر گنجائش سے کم از کم تین گُنا گنا لدا ہوتا ہے۔ ان ٹرالیوں کی نہ ہیڈ لائٹس کام کرتی ہیں نہ بیک لائٹس۔ لہٰذا گنے کے کرشنگ سیزن میں اس سیکشن پر اندھی ٹریکٹر ٹرالیوں کی لپیٹ میں جتنے راہگیر یا مسافر آتے ہیں ان کی مجموعی تعداد کم و بیش اتنی ہی بنتی ہے جتنی آج کے حادثے میں جھلسنے والوں کی ہے۔
ہمیں کرنا کیا چاہئے؟
کسی بھی حادثے کی صورت میں ہجوم بن کر کھڑے نہیں ہونا چاہئے، اس سے امدادی ٹیموں کو فوراً مدد پہنچانے کے حوالے سے مشکلات پیش آتی ہیں، خصوصاً میڈیا کو لائیو کوریج سے گریز اور جائے حادثہ سے دور رہ کر کوریج کرنی چاہئے کیونکہ حادثے کے زخمیوں کو فوری اسپتال پہنچانے کی راہ میں میڈیا کی گاڑیاں اور لوگ بھی حائل ہوتے ہیں، یوں ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ افسوس ناک حقیقت تو یہ ہے کہ پورے پنجاب کی آبادی کے لئے محض پنجاب کے اسپتالوں میں موجود برن یونٹ میں بستروں کی تعداد صرف 57 بیڈ ہے۔ بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں کوئی برن یونٹ نہیں جبکہ جنوبی پنجاب کے 16 اضلاع میں محض 10 بستر، جبکہ میو اسپتال میں 11، نوازشریف اسپتال میں 2 جبکہ جناح اسپتال میں 20 بستر ہیں۔ اس صورتِ حال میں فوری بہتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ خدانخواستہ آئندہ ایسے کسی حادثے کے بعد فوری امداد نہ پہنچنے کی وجہ سے انسانی جانوں کا نقصان کم سے کم ہوسکے۔ اس کے ساتھ ہی محکمہ ٹرانسپورٹ، سڑکوں کی دیکھ بھال کرنے والے اور محکمہ صحت کے ساتھ پولیس کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئے کیونکہ انسانی جان کو بچانے سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ہوسکتی، حکومت پر الزام تراشی یا بُرا بھلا کہنا بہت آسان ہے لیکن ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ ہم خود اس ملک کو گندا اور ڈسٹرب کرنے میں کتنے فعال ہیں۔

مطلقہ خبریں