Saturday, July 26, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا۔۔ حریت رہنما یاسین ملک

مودی سرکار کے سامنے جھکنے سے انکار۔۔
بھارتی نام نہاد عدالت نے کشمیری رہنما کو ٹیرر فنڈنگ کیس میں عمر قید کی سزا سنا دی
حبیب اللہ قمر

بھارت میں نئی دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے کشمیری حریت پسند لیڈر محمد یاسین ملک کو ٹیرر فنڈنگ کیس میں عمر قید کی سزا سنا دی۔ 25 مئی 2022ء کو عدالت نے سماعت مکمل کی جس میں این آئی اے کی طرف سے کشمیری لیڈر یاسین ملک کو پھانسی کی سزا سنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ سماعت مکمل کرنے کے بعد عدالت نے سہ پہر ساڑھے تین بجے کیس کا فیصلہ سنانے کا اعلان کیا اور پھر مقررہ وقت پر یاسین ملک کو سزا سنا دی گئی۔ سزا سنائے جانے سے قبل یاسین ملک کو بھاری سیکورٹی کے درمیان عدالت میں پیش کیا گیا۔ واضح رہے کہ این آئی اے کی عدالت نے نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں کئی برس سے قید کشمیری علیحدگی پسند رہنما محمد یاسین ملک کو بغاوت، وطن دشمنی اور دہشت گردی کا مجرم قرار دیا تھا جبکہ پٹیالہ ہاؤس کورٹ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ 25 مئی کو ان کی سزا کا اعلان کرے گی لیکن اس سے قبل استغاثہ سے کہا گیا تھا کہ وہ یاسین ملک کی جائیداد اور مالی اثاثوں کا تخمینہ لگائے تاکہ سزا کے ساتھ ساتھ جرمانے کی رقم بھی طے کی جائے جبکہ عدالت نے یاسین ملک سے ان کی جائیداد اور اثاثوں سے متعلق بیان حلفی بھی طلب کیا۔ واضح رہے گزشتہ برس ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہونے والی ایک سماعت کے دوران یاسین ملک نے کسی بھی وکیل کی مدد لینے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ گواہوں پر خود ہی جرح کریں گے۔ یاسین ملک پر یہ الزامات بھارت کے نئے دہشت گردی مخالف قانونغیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ (یو اے پی اے) اور انڈین پینل کوڈ کے تحت عائد کئے گئے ہیں اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جن الزامات میں فردِجرم عائد کی گئی ہے ان میں زیادہ سے زیادہ یاسین ملک کو عمرقید ہوسکتی ہے۔ 10 مئی کی سماعت کے دوران انہیں 2017ء میں عسکریت پسندی کی کارروائیوں، مبینہ طور پر دہشت گردی کے لئے سرمایہ اکٹھا کرنے، دہشت گردانہ حملوں کی سازش، مجرمانہ سازش اور ملک دشمن خیالات کے اظہار جیسے جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا، جس کے بعد انہوں نے بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق اقبال جرم کرلیا لیکن یہ بات بعدازاں سراسر جھوٹا پروپیگنڈا ثابت ہوئی۔ جیسا کہ یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خاوند نے کسی دہشت گرد کارروائی یا دہشت گردی کے لئے مالی معاونت کا اعتراف نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حق خودارادیت کی جدوجہد چلا رہا ہوں جو بھگت سنگھ اور مہاتما گاندھی کی بھی تھی۔ یہ من گھڑت اور جھوٹا مقدمہ ہے۔ یاسین ملک پر 1989ء میں اس وقت کے انڈین وزیرداخلہ اور کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سید کے اغوا کرنے اور 1990ء میں انڈین فضائیہ کے چار افسروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنے کا بھی جھوٹا الزام لگایا گیا تھا، تاہم تازہ فردِجرم میں ان الزامات کا ذکر نہیں ہے۔
یاسین ملک کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ کم عمری میں ہی علیحدگی پسند صفوں میں شامل ہوگئے تھے اور 1980ء کے دوران اسلامک اسٹوڈنٹس لیگ کے جنرل سیکریٹری بنے۔ 1986ء میں سری نگر میں انڈیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہونے والے عالمی ایک روزہ کرکٹ مقابلے کے دوران انڈیا مخالف نعرے بازی، پتھراؤ اور میچ کے وقفے میں پچ کھودنے کے الزام میں یاسین ملک کئی ساتھیوں سمیت گرفتار کر لئے گئے تھے۔ 1987ء میں وہ علیحدگی پسندوں کے سیاسی اتحاد ”مسلم متحدہ محاذ“ کے قریب ہوگئے اور مقامی اسمبلی کے انتخابات میں انہوں نے جماعت اسلامی کے رہنما اور محاذ کے اُمیدوار محمد یوسف شاہ کے لئے انتخابی مہم بھی چلائی تھی۔ 1988ء میں یاسین ملک لائن آف کنٹرول عبور کرکے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر چلے آئے اور واپسی پر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نامی عسکری تنظیم کے مرکزی رہنما بن گئے۔ 1990ء میں لبریشن فرنٹ پر الزام عائد کیا گیا کہ ان کے مسلح عسکریت پسندوں نے انڈین فضائیہ کے چار افسروں پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ بازار سے سبزی خریدنے میں مصروف تھے۔ حکومت نے اس حملے کے لئے بھی یاسین ملک کو براہ راست ذمہ دار قرار دے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ کئی برس تک مسلح سرگرمیاں جاری رکھنے کے بعد 1994ء میں یاسین ملک نے بھارتی فورسز کے خلاف یکطرفہ سیزفائر کا اعلان کرکے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو ایک سیاسی تنظیم قرار دے دیا اور عہد کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے عدم تشدد کی پالیسی پر گامزن رہیں گے۔ اسی سال علیحدگی پسندوں کا اتحاد حریت کانفرنس بھی وجود میں آیا اور یاسین ملک بھی اس کے مرکزی رہنماؤں میں شامل ہوگئے۔ گزشتہ عشرے کے وسط میں یاسین ملک نے وادی بھر میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حق میں ایک دستخطی مہم چلائی جس کا نام ”سفر آزادی“ تھا۔ اس مہم کی عکس بندی اور کشمیر کے بارے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں کشمیریوں کو کلیدی کردار دینے کا مطالبہ لے کر وہ 2006ء میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے بھی ملے تھے۔ یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 22 فروری 2019ء کو سری نگر سے گرفتار کئے جانے کے بعد یاسین ملک کا خاندان والوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ یاسین ملک کا اعتراف پُرامن تحریک کے حوالے سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے کافی مہینوں بعد ان کی زندگی اور صحت سے متعلق اطلاع اپنی ساس کے ذریعے ملتی ہے، گرفتاری کے بعد سے میرا ان سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہوا، انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی تصاویر میں دیکھا کہ ان کے سر کے بال بھی غائب ہوگئے ہیں اور ان کی صحت کتنی خراب ہوچکی ہے۔ پاکستان میں مقیم مشعال ملک نے کہا کہ یاسین ملک انڈین نظام انصاف پر یقین ہی نہیں رکھتے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے لئے وکیل رکھنے سے انکار کیا تھا، ان کو کبھی شفاف مقدمے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ اول تو ان کا موقف ہی نہیں لیا جاتا تھا یا انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا تھا، اگر کبھی آن لائن پیشی کے دوران وہ بات کرتے تو ان کا مائیک بند کرلیا جاتا، یہ فردِ جرم یکطرفہ طور پر عائد کی گئی ہے، ہمیں تو ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ ان پر تشدد بھی کیا گیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ یاسین ملک نے کسی دہشت گردانہ کارروائی یا دہشت گردی کے لئے مالی معاونت کا اعتراف نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حق خودارادیت کی جدوجہد چلا رہا ہوں جو بھگت سنگھ اور مہاتما گاندھی کی بھی تھی، یہ من گھڑت اور جھوٹا مقدمہ ہے، یاسین ملک نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ پُرامن کردار ادا کیا ہے، بھارتی میڈیا میں فیصلے سے قبل ہی عمرقید کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں تاکہ پہلے سے رائے عامہ ہموار کی جاسکے، تاہم انہوں نے کہا کہ چونکہ یاسین ملک انڈیا کے نظام انصاف پر یقین ہی نہیں رکھتے، اس لئے وہ آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بدھ کی سماعت کے بعد ہی بتا سکیں گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یاسین ملک کو میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے اور خاندان سے ملنے کی اجازت دی جائے کیونکہ اس کے بغیر ان کے بارے میں کسی بھی قسم کا اعترافی بیان ناقابل یقین ہے۔ سارے جرائم کو قبول کرنے کی خبریں صرف جھوٹا پروپیگنڈا ہے، جب تک یاسین ملک کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا جاتا اسے یکطرفہ فیصلہ ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے صرف ایک اعتراف کیا ہے اور وہ آزادی کی تحریک چلانے کا ہے۔
بھارت میں نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو جب ہندوستانی بدنام زمانہ این آئی اے عدالت کی جانب سے دہشت گردی کے حوالے سے مبینہ فنڈنگ، بغاوت اور ملک دشمنی جیسے جھوٹے الزامات کے تحت قصوروار ٹھہرایا گیا تو اس کے بعد سے مقبوضہ کشمیر سمیت پوری دُنیا میں زبردست احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں۔ حریت کانفرنس کی اپیل پر تاریخی ہڑتال کی گئی اور سری نگر سمیت پورے کشمیر میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر شدید احتجاج کیا اور یاسین ملک کو قصوروار ٹھہرائے جانے پر بھارت سرکار کے خلاف زبردست نعرے بازی کی گئی۔ جے کے ایل ایف لیڈر پچھلے کئی برسوں سے انڈیا کی تہاڑ جیل میں قید ہیں اور سخت بیماری کی حالت میں زندگی کے ایام گزار رہے ہیں۔ ان پر اب تک جتنے بھی الزامات لگائے جاتے رہے ہیں انہوں نے ان سب کا انکار کیا ہے۔ بھارت کی اس وقت پوری کوشش ہے کہ کشمیری قوم کو آہستہ آہستہ ان کی حقیقی قیادت سے محروم کردیا جائے تاکہ تحریک آزادی کشمیر کو زیادہ سے زیادہ کمزور کیا جاسکے۔ اس کے لئے انہوں نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ، جماعت اسلامی اور دوسری تنظیموں پر پابندیاں لگائیں اور پھر بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے این آئی اے کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پوری حریت قیادت کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ بھارت کی بی جے پی سرکار کی جانب سے یاسین ملک کی طرح مسرت عالم بٹ، میر واعظ عمر فاروق، شبیر احمد شاہ، سیدہ آسیہ اندرابی، نعیم احمد خان، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین اور دیگر سبھی کشمیری لیڈروں کو قید رکھا گیا ہے۔ میر واعظ عمر فاروق کو ان کی رہائش گاہ پر نظربند کیا گیا ہے جبکہ مسرت عالم بٹ سمیت دیگر کشمیری لیڈر انڈیا کی مختلف جیلوں میں قید ہیں جہاں انہیں بدترین ذہنی و جسمانی ٹارچر کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حریت کانفرنس کی طرف سے کشمیری لیڈروں کو سلو پوائزننگ کے تحت نشانہ بنائے جانے کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ سلو پوائزننگ کا ہی شاخسانہ ہے کہ سبھی کشمیری لیڈر اس وقت خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں اور صورتِ حال یہ ہے کہ انہیں جیلوں میں طبی سہولیات بھی فراہم نہیں کی جارہیں۔
پاکستانی دفترخارجہ نے یاسین ملک پر لگے الزامات کو فرضی قرار دے کر بھارتی سفیر کو طلب کرکے احتجاج کیا ہے اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں بھی اس حوالے سے مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ 10 مئی کی سماعت میں یاسین ملک کے علاوہ جن دیگر محبوس علیحدگی پسندوں کے خلاف فردِجرم عائد کی گئی تھی اُن میں شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان، الطاف شاہ، آفتاب شاہ، نول کشور کپور اور فاروق احمد ڈار عرف بِٹہ کراٹے سمیت گیارہ افراد شامل ہیں۔ پاکستانی حکام کی طرف سے یاسین ملک کو سزا سنائے جانے کے فیصلے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیراعظم عمران خان، وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری، مریم اورنگ زیب، شاہ محمود قریشی اور دیگر سیاسی لیڈروں نے اپنے الگ الگ مذمتی بیانات میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کو بھارت کے حالیہ اقدامات کا نوٹس لینا چاہئے اور یاسین ملک پر سے جھوٹے مقدمات اور سزا ختم کروانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے۔ حریف کانفرنس کے شہید قائد اور بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی اپنی زندگی میں بار بار کہتے رہے ہیں کہ بھارتی حکومت یاسین ملک اور سیدہ آسیہ اندرابی کے عدالتی قتل کی تیاریاں کررہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ بھارتی عدالتیں ان کے خلاف بھی ایسے فیصلے سنائیں گی جس طرح مقبول بٹ، افضل گورو اور اجمل قصاب کے خلاف سنائے گئے تھے۔ مذکورہ کشمیری رہنماؤں کے خلاف بھی بھارتی عدالتوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھے لیکن یہ کہہ کر انہیں پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا، بھارت کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ سید علی گیلانی کہا کرتے تھے کہ بی جے پی حکومت حریت رہنماؤں کے خلاف ایسے ہی مذموم منصوبہ پر عمل پیرا ہے اور این آئی اے کی طرف سے سازش کے تحت حریت لیڈروں کے خلاف مقدمات میں تیزی لائی گئی ہے۔ حقیقت ہے کہ سید علی گیلانی کی طرف سے کی جانے والی سبھی باتیں درست ثابت ہورہی ہیں، یاسین ملک کی کمسن بیٹی اپنے والد کی رہائی کی اپیل کرتے ہوئے آنسو بہاتی دکھائی دیتی ہے لیکن افسوس کہ کسی بین الاقوامی انسانی حقوق کے ٹھیکیدار ملک اور ادارے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان بھارتی عدالت کے حالیہ فیصلے کے خلاف عالمی سطح پر بھرپور مہم چلائے، دُنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو متحرک کیا جائے اور بھارت کے دہشت گردانہ اقدامات سے دُنیا کو آگاہ کیا جائے تاکہ بھارت سرکار کی سرپرستی میں کشمیری لیڈروں کے عدالتی قتل کا سلسلہ روکا جاسکے۔

مطلقہ خبریں