یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور اس کے خاتمے کے آثار بھی ابھی تک نظر نہیں آ رہے، اس لئے خدشہ ہے کہ پاکستان کو کمیاب اشیائے صرف کی راشننگ کرنی پڑے گی، ہمارا ہمسایہ بھارت سستے داموں روس سے تیل منگوا رہا ہے اور گندم میں وہ خودکفیل ہے، اُس کے مقابلے میں ہم نہ گندم میں خودکفیل ہیں اور نہ ہی روس سے تیل و گیس ارزاں نرخوں پر خرید سکتے ہیں
لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان
روس یوکرائن جنگ کو شروع ہوئے آج پورے چار ماہ ہوچکے ہیں۔ 24 فروری 2022ء کو شروع ہونے والی یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی لیکن اس کے مضر اثرات ساری دُنیا پر پڑ رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ روس، پورے یورپ بلکہ ایشیا کے اکثر ممالک کو 40 فیصد تیل اور گیس فراہم کررہا تھا اور یوکرائن دنیا کو اسی شرح سے گندم فروخت کررہا تھا۔ اب بہت سے یورپی اور ایشیائی ممالک اس جنگ کی وجہ سے تیل اور گیس کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ کمی دن بدن بڑھ رہی ہے اور وہ ممالک جن کا انحصار گندم پر تھا اور جو اپنی آبادی کی ضروریات پورا کرنے کے قابل نہ تھے ان کو ”فوڈ سیکیورٹی“ کا سامنا ہے…… یہ ایک نئی اصطلاح ہے جو ماضی میں قحط کہلاتی تھی!
دنیا میں جنگ کا بازار کہیں بھی گرم ہو، اس کے اثرات متحارب ملکوں کے علاوہ دوسرے ملکوں پر ضرور پڑتے ہیں۔ 20 ویں صدی کی دونوں عظیم جنگوں میں برصغیر جنگ کی آگ سے محفوظ رہا۔ لیکن یہ خطہ چونکہ برطانیہ کی کالونی تھا اس لئے برطانوی اربابِ اختیار نے ہندوستان سمیت اپنے غلام ملکوں سے جنگ لڑنے کے لئے افرادی قوت طلب کی۔ چنانچہ متحدہ ہندوستان سے لاکھوں سپاہی بھرتی کرکے یورپی اور افریقی محاذوں پر بھیجے گئے۔ ان کو بعض تاریخ نویس ”جنگ کا چارہ“ بھی کہتے ہیں اور بعض ”کرائے کے سپاہی“ کا نام دیتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں برٹش انڈین آرمی کی تعداد 25 لاکھ ہوگئی تھی جو جنگ کے خاتمے پر موقوف کردی گئی۔ چند ہزار وہ لوگ باقی رکھے گئے جو جنگ شروع ہونے سے پہلے ریگولر برٹش انڈین آرمی کا حصہ تھے۔ اس نفری میں کمیشنڈ افسروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔
جب یہ دوسری عالمی جنگ ستمبر 1945ء میں ختم ہوئی تو اس کے اثرات بے محابا تھے۔ اس جنگ نے ایک نیا عالمی نظام تخلیق کیا۔ برطانیہ کو اپنے تمام مقبوضات سے نکل کر واپس اپنے جزائر (انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، ویلز) میں جانا پڑا۔ اس جنگ کی اتلافات کروڑوں میں تھیں لیکن ان لاشوں کے علاوہ برصغیر کے باسیوں کو قحط کا سامنا بھی ہوا۔ ہندوستان اگرچہ سونے کی چڑیا کہلاتا تھا اور اس کا صوبہ پنجاب اتنی گندم پیدا کرتا تھا جو سارے برصغیر کی غذائی ضرورت سے بھی وافر ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود برصغیر کو ”فوڈ سیکیورٹی“ کا سامنا ہوا۔ سارے ملک میں راشن کا نظام متعارف کروایا گیا جو تقسیم کے بعد بھی برسوں تک جاری و ساری رہا۔ مجھے یاد ہے میں بچپن میں خود اپنے ایک ملازم کے ہمراہ راشن کارڈ لے کر ہر ہفتے/ مہینے راشن ڈپو کا رخ کیا کرتا تھا اور ہم وہاں سے گندم، چینی، چائے اور گھی وغیرہ لے کے آتے تھے۔ پاکستان کے ان راشن ڈپوؤں کی تعداد ہزاروں لاکھوں میں تھی۔ البتہ پیٹرول اور ڈیزل وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ ملک میں ٹرانسپورٹ بہت کم تھی۔ ٹرک، بسیں اور کاریں گنتی کی تھیں جن کے لئے ضرورت سے زیادہ ایندھن مہیا تھا۔
روس، یوکرائن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور اس کے خاتمے کے آثار بھی ابھی تک نظر نہیں آ رہے اس لئے خدشہ ہے کہ پاکستان کو کمیاب اشیائے صرف کی راشننگ کرنی پڑے گی۔ ہمارا ہمسایہ بھارت سستے داموں روس سے تیل منگوا رہا ہے اور گندم میں وہ خود کفیل ہے۔ اُس کے مقابلے میں ہم نہ گندم میں خودکفیل ہیں اور نہ روس سے تیل و گیس ارزاں نرخوں پر خرید سکتے ہیں …… ایسا کیوں ہے؟…… اگر اس پر کوئی تبصرہ کروں گا تو بہت سے دوستوں کے ماتھے پر بل پڑ جائیں گے لہٰذا اپنے آپ سے کہتا ہوں: ”چپ کر دَڑ وَٹ جا، نہ عشق دا کھول خلاصہ“۔ چنانچہ چمڑی اتروانے اور جگ کا ”ہاسا“ بننے سے گریز کرتا ہوں۔
روس، یوکرائن جنگ کے نقصان دہ اثرات و نتائج سے بچنے کے لئے میری نظر میں درج ذیل پانچ صورتیں ہیں:
۔ تیل اور گیس کی برآمدات کم دی جائیں۔
۔ ”نئے بچوں“ کی پیدائش پر پابندی لگا دی جائے۔
۔ غیر ضروری درآمدات صفر کر دی جائیں۔
۔ برآمدات دوچند کردی جائیں۔
5۔ بجٹ میں بیان کئے گئے ترقیاتی منصوبوں کو روک کر یہ رقم عوام الناس میں مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے تقسیم کردی جائے۔
لیکن قارئین میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ ان پانچوں صورتوں کو بروئے کار لانے کے امکانات صفر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم اپنے اس انجام کی طرف لڑھکتے چلے جائیں گے جن کی امید، ہم سے ہمارے دشمنوں نے لگا رکھی ہے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ دوسری عالمی جنگ میں یورپی ممالک (جو اس جنگ میں شریک تھے) درجِ بالا پانچوں پروگراموں کو بروئے عمل لائے تھے؟…… برطانیہ کی بات کریں تو وہاں سرِ شام تمام ملک میں 5 سال تک متواتر بلیک آؤٹ رہا۔ خود شہنشاہ معظم اور وزیراعظم چرچل رات کو موم بتیوں کی روشنی میں کام کرتے اور کھاتے پیتے رہے اور تمام کھڑکیوں اور دروازوں کو کالے کپڑوں سے ڈھانپ دیا تاکہ جرمن بمبار طیارے بمباری نہ کرسکیں۔ چنانچہ یہ طیارے آتے رہے اور ایسی جگہوں پر بم گراتے رہے جہاں آبادیاں نہیں تھیں اور جنگلات وغیرہ تھے۔ ساری آبادی نے گھروں میں بم پروف تہہ خانے اور خندقیں بھی کھود رکھی تھیں۔ فضائی حملے کا سائرن بجتا تو لوگ ان خندقوں میں جا کر دم سادھ لیتے تھے۔
جہاں تک نومولود بچوں کی پیدائش کا تعلق ہے تو ہم پاکستانی قحط و افلاس کے ہاتھوں ”ہنسی خوشی“ مر جائیں گے لیکن اس ”کارِ خیر“ سے باز نہیں آئیں گے۔ آپ نے کئی افریقی ممالک کی تصویروں میں ایک ہڈیوں کے ڈھانچوں والی ماں کے ساتھ پانچ، چھ بچے جاتے دیکھے ہوں گے۔ نہ ان کے تن پر کپڑا ہوگا اور نہ پاؤں میں جوتا۔ اور وہ بھی ماں کی طرح مشتِ استخواں کی تصویر ہوں گے۔ ہم بھی خدا کے ”فضل و کرم“ سے اسی راستے پر رواں دواں ہیں!
غیرضروری درآمدات کی بندش بھی ایک واہمہ ہے۔ خواتین کا سامانِ آرائش و زیبائش اور بڑے گھروں کی بڑی بڑی اور مہنگی گاڑیاں آج تک پاکستانی تاریخ میں بند نہیں کی گئیں اور جب تیل اور گیس نہیں ہوگی تو برآمدات کی پروڈکشن کیسے ہوگی؟
قارئین محترم! آپ نے اخباروں میں لمبے چوڑے خصوصی ایڈیشن اس موضوع پر دیکھے اور پڑھے ہوں گے کہ تیل، گیس اور گندم پہلے کہاں سے آتی تھی، اب کہاں سے آئے گی اور پاکستان کو اس سلسلے میں جو کچھ کرنا چاہئے کیا ملک کے مقتدر حلقے اور حکومت اس طرف نظرِالتفات فرمائے گی؟ آج پاکستان زبوں حالی کے عمیق گڑھے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کیفیت کا علاج احتجاجی مارچ نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن باہم دگر صف آراء ہیں۔ زبان و بیان کے ایسے ایسے تیر و نشتر چلائے جا رہے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی چنگڑ محلے کی دو زبان دراز ہمسائیاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہی ہیں اور ایسی ایسی مغلظات بک رہی ہیں کہ گلی سے گزرنے والے افراد کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں۔ پاکستان ایک بڑا ملک ہے۔ یہ کوئی تنگ گلی نہیں۔ اس کی ہمسائیوں کو مل کر یہیں رہنا ہے۔ اگر اور کچھ بن نہیں پڑتا تو خاموشی اختیار کرنے میں کیا ہرج ہے؟ اگر ایک بدزبان ہمسائی خاموش ہوجائے گی تو دوسری بے لگام شاید شرم کے مارے ہی چپ کر جائے…… اس نسخے کو آزمانے میں کیا ہرج ہے؟