نصرت مرزا
ایک طرف بھارت کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان کو پانی کے ہتھیار سے سرنگوں کردے، دریائے سندھ اور اُس کے معاون دریاؤں پر ڈیم پر ڈیم بنا کر پانی کو روکنے میں لگا ہوا ہے کہ پاکستانی پانی کی بوند بوند کو ترسیں مگر کبھی ایسا ہوا ہے کہ بھارت کو ہم ایسا کرنے دیں، دوسری طرف دنیا بھر میں گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور عالمی آبی ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ انٹارٹیکا میں موسمی تغیر کی وجہ سے برف پگھل رہی ہے اور سمندر کے قریب آباد بڑے شہروں کو سونامی کا خطرہ ہے مگر کراچی کے لوگوں کے لئے یہ خطرہ شاید زیادہ نہ ہو کیونکہ کراچی سمندر پر نہیں بلکہ 40 کلومیٹر طویل سمندری نہر پر واقع ہے تاہم احتیاط پھر بھی لازم ہے، البتہ پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اور بھارت کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں کئی اہم کام کرنا ہوں گے، اس پر میری آبی ماہرین سے طویل گفتگو ہوئی اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کئی ڈیموں کی ضرورت ہے، کالا باغ ڈیم اگر بن جائے تو یہ آسان ہے کیونکہ وہ جگہ ایک قدرتی ڈیم کی ہے، اس پر صوبہ سندھ کو کئی اعتراض ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے کوئی وہاں سے کوئی نہر نہ نکالی جائے سو نہ نکالی جائے، دوسرے صوبہ خیبرپختونخوا کے بلاشرکت غیر مالک ہونے کے دعویدار باچا خان کے صاحبزادے کا خیال ہے کہ اس ڈیم کے بننے سے ایک شہر کے ڈوبنے کا خطرہ ہے جو نہیں ہے بلکہ وہ کسی کو خوش کرنے کے لئے ایسا کررہے ہیں اور دعوے بھی بڑے بلند بانگ کررہے ہیں جو اُن کے قد سے بڑے ہیں تاہم اگر کالا باغ ڈیم سے صرفِ نظر کرلیا بھی جائے تو کئی اور جگہیں کالا باغ ڈیم جیسی قدرتی ڈیم کی ہیں جن کا ذکر میں جان بوجھ کر نہیں کررہا ہوں کہ کہیں اُن کو بھی متنازعہ نہ بنا دیا جائے، البتہ آبی ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ چھوٹے ڈیموں کا ایک سلسلہ بنا دیا جائے تاکہ سیلاب کے دوران پانی کو محفوظ کرلیا جائے، دوسرے یہ کیا جائے کہ تالابوں کی ایک زنجیر اُن علاقوں میں بنائی جائیں جہاں سیلاب تباہی مچاتے ہیں جیسے ہی پانی کا دباؤ بڑھے پانی کو اُن تالابوں کی زنجیر کی طرف رخ کردیا جائے، جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں، یہ تلاب اپنی مدد آپ کے طور پر بھی بنائے جاسکتے ہیں اور اگر حکومت خود شامل ہو تو اس سے اچھا کیا۔ تالابوں کا یہ سلسلہ بھارت میں موجود ہے یوں پانی کا ذخیرہ کم پانی کے حصول کے دوران کام آسکتا ہے، اس کے علاوہ کم پانی کو محفوظ بنانے کے لئے پلاسٹک کو کراچی میں تبلیغی اجتماع کے دوران استعمال کیا گیا۔ ایک گڑھا کودا گیا اس میں باریک پلاسٹک کو جوڑ کر زمین کی تہہ اور دیواروں پر لگا دیا گیا جس سے 30 سے 50 ہزار گیلن پانی ایک ماہ تک محفوظ کیا جاسکتا ہے، یوں اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے بڑے تالابوں کے لئے فوری طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے بعد میں اُن کو پکا کردیا جائے، اسطرح پانی کو سمندر میں گرنے سے قدرے روکا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ اگر دریائے سندھ پر کشمور کے بعد یا اس سے پہلے ربڑ کے ڈیم بنا لئے جائیں جو جلد بن جاتے ہیں اور کافی پانی کا ذخیرہ کر لیتے ہیں اس سے زمین میں پانی کی سطح اوپر آجائے گی،یہ طریقہ مصر میں زیراستعمال ہے اور پاکستانی ماہرین اس قابل ضرور ہیں کہ وہ خود پلاسٹک کے ڈیم بنا ڈالیں۔ اس میں بہرحال ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جانا چاہئے، لگتا ہے اس دفعہ بارشیں بھی زیادہ ہوں گی ہیں اور پانی وافر مقدار میں دستیاب ہوگا اور بھارت پانی کی مقدار بھی زیادہ چھوڑے گا تاکہ پاکستان سیلاب کی زد میں آئے اور تباہی پھیلے جبکہ یہ ہمارے لئے تحفہ کے طور پر کام آنا چاہئے، اگر ہم آئندہ کے دو ماہ اس کی تیاری فوجی بنیادوں پر شروع کردیں، پھر بھی اگر پانی بچ جاتا ہے تو ایک نہر دریائے سندھ اور حب ڈیم بھرنے کے لئے کی منصوبہ بندی کرنا چاہئے کہ پانی سمندر میں گرنے سے پہلے اس کا رخ موڑ کر حب ڈیم میں ڈالنے کی کوشش کی جاسکتی ہے تاہم اس کے امکانات کا جائزہ لینا ہوگا، یوں ہم نے جو تجاویز دی ہیں وہ یہ کہ کالا باغ ڈیم پر صوبوں کے اعتراضاات دور کئے جائیں اور عوام بھی اس پر غیرضروری زور نہ ڈالیں، اعتراض دور کرنے کے بعد بھی کوئی کہے کہ میں نہ مانوں کو پھر اُن کو خاطر میں نہ لایا جائے اور اگر اعتراض دور نہ کرسکتے ہوں تو کالا باغ جیسے کئی اور مقامات کی تلاش کی جائے اور اُن پر فوری کام شروع کردیا جائے، پانی جب جنوبی پنجاب میں داخل ہو تو یہاں تالابوں کی چین کا سلسلہ شروع کردیا جائے یہ بھی ماہرین بتائیں گے کہ وہ کون سی جگہ بن سکتی ہے جہاں سے یہ سلسلہ شروع ہو البتہ پنجند کے بعد سے یہ سلسلہ شروع ہونا چاہئے۔ کشمور سے پہلے اور کشمور کے بعد اور سکھر بیراج سے پہلے اور اُس کے بعد کچے کے علاقے کو پانی کے تالابوں سے بھر دیا جائے۔ اس کے علاوہ کچے کے علاقے میں کئی جگہوں میں ربڑ کے بندھ بنانے کا سلسلہ ابھی شروع کیا جائے جو ایک سال میں مکمل ہوسکتے ہیں۔ اس سال اگر ہم چھوٹے بڑے تالابوں میں پانی محفوظ کرلیں جو ہمارے لئے ایک سال سے چھ ماہ کے لئے کافی ہوگا جو ہماری بڑی کامیابی ہوگی اور معمول کا پانی دریاؤں سے گزر رہا ہوگا۔ اس کے بچاؤ کا طریقہ وضع کرنے کا عمل جاری رکھا جائے۔ ہدف صرف تین سال کا ہو جب خشک سالی اور پانی تلف کا بدترین دورانیہ تین سال کے عرصے میں ہی آئے گا۔ اس سے پہلے پانی پر جنگ ہو، جنگ سے بچاؤ کی کوشش کرلینا جائے۔ مزید برآں گلگت بلتستان میں دیوسائی کے کا لاپانی اور چھوٹا پانی کے نام سے دو دریا بھارت جاتے ہیں جس مقام پر وہ بھارت میں داخل ہوتے ہیں اس سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ان دریاؤں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دینا چاہئے، یہاں سے جو پانی حاصل ہوگا وہ بھارت کے پانی سے روکنے سے کہیں زیادہ ہوگا۔ انجینئرنگ سائنس کا استعمال ضرور کرنا چاہئے اور بھارت میں اس وقت سنسنی پھیل گئی تھی جب بھارتی اسٹرٹیجک انسٹیٹیوٹ کے سربراہ نے یہ کہا تھا کہ چین برہم پتراا کے پانی کو دریائے زرو میں ڈالنے کا کام مکمل کر چکا ہے اور اس وقت کے چینی صدر آبی معاملات کے ماہر تھے جس کا میں نے اپنے کالم میں ذکر کیا تھا۔ ممکن ہے چین کا ایسا منصوبہ ہو کہ اگر بھارت حد سے بڑھے تو وہ ایسا کرے تاہم پاکستان کے معاملے میں بھارت حد سے بڑھ رہا ہے، پھر ان دریاؤں کا ماخذ پاکستان میں ہے اس لئے قانونی و اخلاقی طور پر ان دریاؤں کا رخ موڑنے کا جواز رکھتے ہیں۔ سو ہمیں ایسا کرلینا چاہئے، گو اس کے لئے مہارت اور وقت درکار ہے جو ہمارے پاس موجود ہے پانچ سال کافی ہیں کہ ہم ایسا کرلیں جبکہ دیامیر بھاشا ڈیم پر کام ہورہا ہوگا یا مکمل ہوچکا ہوگا اور ہم ماہرین کے تجویز کئے ان منصوبوں کو مکمل کرچکے ہوں گے تو پھر اس وقت میں یہ کام بھی جنگی بنیادوں پر کیا جارہا ہو تو پانی کی کمی کے خطرے سے پاکستان مکمل طور پر نکل جائے گا، اگر ایسی صورت میں بھارت کو جنگ کرنے کا شوق ہے تو وہ پورا کر لے۔ آخر میں سمندر کے پانی میٹھا بنانے کا آپشن موجود ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت مہنگا ہے مگر سوال یہ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ہمیں اس منصوبے پر بھی بڑے پیمانے پر کام کرنا ہوگا کیونکہ کراچی کو پانی کی سخت ضرورت ہے اور یہاں کے حکام کراچی کی آبادی کو کم کرکے دکھانے کا جو غلط کام کررہے ہیں اُن کو یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ آبادی کے لحاظ سے اگر اثاثہ جات کی تقسیم ہو اور پانی کی منصوبہ بندی ہو تو کراچی کو بھی آبادی کے لحاظ سے پانی ملے گا تو یہ اُن کی سیاست بازی سے فائدے کی بجائے نقصان کرے گی۔ کچھ بھی ہو پانی کے مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے پر توجہ دینا چاہئے۔