رپورٹ: سید زین العابدین
ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر نیٹو سپلائی بند کردینی چاہئے، وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ
امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے، لیفٹیننٹ جنرل (ر)معین الدین حیدر
امریکی دھمکی کا جواب سفارتی انداز سے دینا ہوگا، ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ
امریکہ نے جسارت کی تو افغانستان میں فوجی اڈے ہمارا ہدف ہوں گے، نصرت مرزا
دشمن کے بیانیے کے خلاف متحد ہونا ہوگا، نائب صدر سپریم کورٹ بار پروفیسر فرید احمد دایو
ہمیں جذبات سے زیادہ ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، صدر کراچی بار حیدر امام رضوی
پاکستان کو دوطرفہ دشمنوں کا سامنا ہے نمٹنے کے لئے تیار ہیں، وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں
دنیا نے ہمارے خلاف جو فیصلہ کرلیا ہے اس کا ادراک کرنا ہوگا، ڈاکٹر ہما بقائی
امریکہ پہلے دباؤ ڈالتا ہے پھر حملہ آور ہوتا ہے، ڈاکٹر شاہدہ وزارت
امریکی امداد کے بجائے اپنے 100 فوجی قربانی کے لئے دے دیں، سابق صدر سپریم کورٹ بار یاسین آزاد
امریکہ نے 33 ارب نہیں صرف 3 ارب ڈالر امداد دی ہے، صدر کراچی پریس کلب احمد ملک
امریکہ پر بھروسہ کرنے کے بجائے ہر قسم کے حالات کے لئے تیار رہنا ہوگا، کموڈور (ر) سید عبیداللہ
امریکہ اب واحد سپر پاور نہیں چین اور روس بھی ہیں، پروفیسر سیما ناز صدیقی
پاکستان کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق نمائندہ افراد کی ایک گول میز کانفرنس رابطہ فورم انٹرنیشنل کے تحت منعقد ہوئی، جس کی صدارت لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کی اور اس کے مہمان خصوصی وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ تھے۔ اس موقع پر مختلف یونیورسٹی کے پروفیسر حضرات جن میں پروفیسر ڈاکٹر شائستہ وزارت، ڈاکٹر ہما بقائی، پروفیسر سیما ناز صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر شجاعت حسین، وکلاء میں پروفیسر فرید احمد دایو، نائب صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یاسین آزاد، سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر حیدر امام رضوی، پریس کلب کے صدر احمد خان ملک، سابق فوجی افسران میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر، وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں، ایئرمارشل (ر) ریاض شیخ اور کموڈور (ر) سید عبیداللہ، تاجروں میں یاسمین حسنین اور شیراز، مقررین نے پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کیا اور پاکستان پر حملہ کی صورت میں وہ سیسہ پلائی دیوار بن جانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس گول میز کانفرنس میں مندرجہ ذیل قراردادیں پاس کی گئیں۔
قراردادیں
ہم نمائندگان سول سوسائٹی بحیثیت پروفیسر، تاجر، وکلا، دانشور، سابق فوجی، صحافی برادری، سفرا اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مقامی ہوٹل میں جمع ہوئے، ہم امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کی دھمکیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی غیرمہذبانہ، دھمکانے والا لہجہ اور انداز کی سخت مذمت کرتے ہیں کہ پاکستان نے 1989ء میں امریکہ کو واحد سپر طاقت بنایا اور اس نے دہشت گردی کے خلاف نقصان برداشت کرکے امریکہ کی مدد کی۔
یہ کانفرنس پاکستان کی مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے کہ اس نے جانوں کے نذرانے دے کر پاکستان کو دنیا کا واحد ملک ہونے کا اعزاز دلوایا جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی اور اُس مخلوط جنگ کو بے اثر کیا جو غیرملکی طاقتوں نے پاکستان پر مسلط کردی تھی۔
دانشوروں کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو اس لئے موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں ناکام ہوچکا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو کردار ادا کیا ہے، دنیا کے کسی ملک نے وہ کردار ادا نہیں کیا۔
یہ گول میز کانفرنس عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت کچھ کردیا ہے۔ اب امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے، ہم مزید کچھ نہیں کریں گے اور امریکہ کے لئے کسی جنگ میں حصہ نہیں لیں گے، امریکہ ہمیشہ سے سیکولر، آزاد اور معتدل ملک تھا لیکن اب وہ ایک نسل پرست ملک کی طرف مڑ رہا ہے۔
یہ پاکستان کے امن خواہ لوگوں کا اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو دھمکی دینااور حملے کی بات کرنا بند کرے اور پاکستان کی قربانیوں کو واضح طور پر تسلیم کرے، پاکستانیوں نے جان کے نذرانے کے ساتھ املاک اور تنظیمی ڈھانچے کی تباہی بھی برداشت کی، امریکہ باوقار انداز سے پاکستان کی قربانیوں کا احترام کرے اور اس کے نقصانات کا ازالہ کرے۔
یہ کانفرنس انتظامیہ کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ دنیا میں جنگی ماحول پیدا کرنا بند کرے اور انڈیا کی حمایت سے باز آئے۔ انڈیا کی وجہ سے پاکستان کے عوام کی تکالیف میں اضافہ ہورہا ہے، پاکستان میں عدم استحکام پیدا کیا جارہا ہے۔ بھارتی اور امریکی شہہ پر افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے پاکستان پر حملے کئے جارہے ہیں اس کی روک تھام ضروری ہے۔
یہ کانفرنس امن دوست لوگوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ انڈیا کو وارننگ دیں اور پاکستان میں انڈیا کی دہشت گردانہ مداخلت بند کروائیں، اُسے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی سے روکیں اور بھارت کو اس کے منفی نتائج سے آگاہ کریں۔
یہ کانفرنس بخوبی سمجھتی ہے کہ امریکہ دنیا کی سپر طاقتوں میں سے ایک ہے تاہم پاکستانیوں کا یہ عزم ہے کہ وہ اپنے ملک کی خودمختاری، سلامتی کے لئے ہر قسم کے خطرے سے نبردآزما ہونے کے لئے تیار ہیں۔
یہ کانفرنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ امریکہ ایک حد تک غیرذمہ دارانہ انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہے، جو پاس عالمی امن کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہے اور دوسرے ممالک کی خودمختاری کا احترام کرنے سے عاجز ہے اور اخلاقی اقدار سے نابلد ہے۔
یہ کانفرنس چین، ترکی، ایران اور روس کا شکریہ ادا کرتی ہے، ان ملکوں نے پاکستان کے موقف کی حمایت کی اور دہشت گردی کے خلاف پاکستانی اقدامات کو سراہا اور امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرے اور اس کا احترام کرے۔
یہ کانفرنس ساری دنیا کے ساتھ امریکی عوام سے اپیل کرتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو غیرذمہ دارانہ رویے سے باز رکھیں تاکہ دنیا کا امن سلامت رہے۔
خطابات
وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ملک کی سالمیت کے لئے ہم سب ایک ہیں، اگر دشمن نے حملہ کیا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا، ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی سے ہم ڈرنے والے نہیں ہیں، سلسلہ واقعہ کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت نے نیٹو سپلائی بند کردی تھی، اب بھی ایسا ہی ردعمل آنا چاہئے ہم امریکہ کے خلاف حکومت کے ہر موقف پر ان کے ساتھ ہیں، امریکیوں نے ہمارے سویلین اور عسکری نوجوانوں کی قربانیوں کا احساس نہیں کیا، 70 ہزار سے زائد جانیں قربان کرنے کے باوجود ہمیں دھمکی دی جارہی ہے یہ ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔
سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں امریکی قربانی نہیں دے سکتے، پاکستان نے ہزاروں لوگوں کی جان کی قربانی دی ہے، معاشی نقصان برداشت کیا ہے، ہمارا سوشل فبرکس افغان جنگ کی وجہ سے تباہ ہوچکا ہے، امریکہ ہمیں 33 ارب ڈالر کی امداد کا طعنہ دے رہا ہے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی بات کرتا ہے، اس وقت امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر خود امریکہ میں سنجیدہ حلقے بھی پریشان ہیں، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سرد، گرم انداز سے برقرار رہیں گے۔
ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ خارجہ پالیسی اسکرپٹڈ نہیں ہوتی یہ ردعمل ہوتی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز سے ٹوئٹ کیا وہ ناقابل قبول ہے، ہمیں خطے کی صورتِ حال کے مطابق پالیسی بنانا ہوگی، چین کی وجہ سے ہمارا امریکہ پر انحصار کم ہورہا ہے، ہمارے خلاف امریکی بیانیے کی ایک وجہ چین بھی ہے، ہمیں دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کو سمجھنا ہوگا، امریکہ اور چین کے درمیان مخاصمت بھی ہے اور ٹریڈ بھی جاری ہے، سمندری علاقے جنگ کا سبب بن سکتے ہیں، امریکہ افغانستان سے نہیں جائے گا، افغان جنگ کو انٹرلائنر کرلیا ہے جو اخراجات کے ساتھ جاری رہ سکتی ہے، بھارت امریکہ شہہ پر ہمارے خلاف جارحانہ پالیسی اختیار کررہا ہے، کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کو ہم نے شارٹ رینج میزائل اور ٹیکٹیکل وار ہیڈز کے ذریعے سرد کردیا، پاکستان کو افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر پر بھی اعتراض ہے، بلوچستان میں مسائل اسی لئے کھڑے کئے گئے کہ ہم افغانستان کے بجائے اپنے صوبے میں الجھ جائیں کیونکہ بلوچستان کو کچھ ہوتا تو ہمارا تزویراتی اثر (اسٹریٹجک ڈیپتھ) ختم ہوجاتا، طالبان اور جماعت الدعوۃ کے خلاف ایکشن کا مطالبہ بھارت کی وجہ سے کیا جارہا ہ ے، کیا دو ایٹمی ملکوں کو لڑانے کی سازش ہورہی ہے۔ہمیں اصل خطرہ معاشی میدان میں ہے، بڑھتا ہوا قرض اور معاشی بدحالی چیلنج ہے، دنیا نے ہمارے خلاف جو فیصلہ کرلیا ہے اس کا ادراک کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ملکوں کے سربراہوں کے درمیان غیرسفارتی انداز کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں، ’’توتو میں میں‘‘ غیرمہذب انداز کو پروان چڑھا رہے ہیں، امریکہ کا یہ طریقہ واردات ہے کہ پہلے دباؤ ڈالو پھر حملہ کرو، یہی انداز عراق، افغانستان، لیبیا میں اختیار کیا گیا، اب پاکستان ہدف ہے۔ آئی ایم ایف کے ذریعے ہم پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، پہلے قرض دلواتے ہیں پھر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی شرائط پر معاشی نظام کو تبدیل کرواتے ہیں، پاکستان کی ایکسپورٹ پر ٹیکسٹائل سیکٹر حاوی تھی، اُسے دانستہ متاثر کیا گیا، نتیجتاً ہماری برآمدات کم ہوتی جارہی ہے، قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم پر بیرونی اور اندرونی قرضے بڑھتے جارہے ہیں، ہماری سالمیت کو دھمکیوں کے ساتھ معاشی بدحالی سے بھی خطرات ہیں، حکمران اپنے مفاد کے تحت پالیسی بناتے ہیں جس کا خمیازہ عوام اور ریاست کو بھگتنا پڑتا ہے۔
وائس ایئرمارشل (ر) ریاض الدین شیخ نے کہا کہ ہمیں اپنا موقف اچھی طرح پیش کرنا ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کچھ کہا یہ اچانک نہیں ہوا، حسین حقانی جب امریکہ میں سفیر تھے تو کیری لوگر بل پیش ہوا تھا اُس بیانیے سے ہمیں امریکی پالیسی کا اندازہ لگا لینا چاہئے تھا، آج کی دنیا میں لڑائی کے لئے فوجیں آمنے سامنے نہیں آتی بلکہ الیکٹرونک، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے بھی جنگیں کی جاتی ہیں، ہمیں بدلتے ہوئے امریکی رویے کے اسباب پر بھی غور کرنا ہوگا۔ حافظ سعید اور حقانی گروپ کے خلاف ایکشن نہ لینے پر امریکی سخت ناراض ہیں، اگر حقانی گروپ اور حافظ سعید ہماری ملکی سلامتی کے لئے اثاثہ ہیں تو ہمیں عوام کو اعتماد میں لینا چاہئے، اگر یہ ہمارے لئے بوجھ ہیں تو ہمیں اس کا دانشمندی سے حل نکالنا چاہئے، دوسری جانب سی پیک کی وجہ سے بھی ہم ہدف ہیں، امریکہ، ساؤتھ چائنا سی تک بیجنگ کی رسائی روکنا چاہتا ہے، افریقہ میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری بھی امریکہ کے لئے پریشان کن ہے، منرلز، انرجی کے بڑے ذخائر سے مالا مال افریقہ پر امریکہ کی نظر ہے، ہم دو بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے ہدف بن رہے ہیں، اس صورتِ حال کو ٹھنڈے دماغ سے سنبھالنا ہوگا، جمہوری نظام ضروری ہے، گڈگورننس کے ساتھ، ہمارے حکمرانوں کو پرفارمنس دکھانی ہوگی، عسکری اور سول قیادت کو ایک پیج پر آنا ہوگا، افغان مہاجرین بھی ہمارا بڑا مسئلہ ہیں جو پورے ملک میں پھیل کر امن وامان کے مسائل پیدا کر رہے ہیں، امریکہ سے تناؤ درست نہیں، ہمیں سی پیک پر توجہ برقرار رکھنی ہوگی، اس منصوبے سے فائدہ اٹھانا ہمارا کام ہے۔
وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں نے کہا کہ گزشتہ 33 سال میں امریکی 13 جنگیں لڑ چکی ہیں۔ جن پر 14 ٹریلین ڈالر کے اخراجات آئے، اب پاکستان ہدف ہے لیکن ہم اتنے کمزور بھی نہیں ہیں، ہماری سول اور عسکری قیادت نے امریکیوں کو اچھا جواب دیا ہے۔ ہمیں دوطرفہ دباؤ کا سامنا ہے، ایک طرف امریکہ دھمکا رہا ہے دوسری جانب ہم سے آٹھ گناہ زیادہ طاقت کا حامل روایتی دشمن ہے لیکن ہماری قوم اور مسلح افواج ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کے لئے تیار ہے۔
کراچی بار کے صدر سید حیدر امام رضوی نے کہا کہ ہمیں صورتِ حال کا اچھی طرح جائزہ لینا چاہئے، جذباتی پن سے گریز کرنا چاہئے، امریکہ ایک بڑی طاقت ہے جبکہ ہم دہشت گردی اور معاشی مشکلات کا شکار ہیں، امریکی دھمکی کے جواب میں حقیقت پر مبنی بیانیے اور خارجہ پالیسی تشکیل دینا ہوگی، نیٹو سپلائی اور فضائی راستے بند کرنے کی باتیں جذباتی پن کا اظہار ہیں، ہماری تجارت کا انحصار امریکہ پر ہے اگر ہم سخت ردعمل دکھائیں گے تو امریکہ اس کے جواب میں اقتصادی پابندی لگوا سکتا ہے، اس وقت ہوش مندی کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ بار کے نائب صدر پروفیسر فرید احمد دایو نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ہمیں خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے، اللہ پر بھروسہ رکھیں دشمن کا غرور خاک میں ملے گا، ہمیں اپنی کمزوریوں کو دور کرنا ہوگا، معاشی مسائل اہم ہیں جس کی وجہ بدعنوانی ہے، اگر اس پر قابو پا لیں تو ہر طرح کے دشمن سے نمٹ سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر یاسین آزاد نے کہا کہ ہماری مغربی سرحد محفوظ تھی، 1830 کلومیٹر لمبی افغان سرحد پر ہماری 40 فیصد عسکری طاقت لگی ہوئی ہے جبکہ ایران کے ساتھ 830 کلومیٹر لمبی پٹی پر بھی صورتِ حال قابل اطمینان نہیں ہے ہمیں امریکی دھمکیوں کے جواب میں اپنے دوستوں سے رجوع کرنا چاہئے، امریکہ براہ راست حملہ نہیں کرسکتا لیکن سرجیکل اسٹرائیک کرسکتا ہے، سلالہ جیسا واقعہ دوبارہ رونما ہوسکتا ہے۔
کراچی پریس کلب کے صدر احمد ملک نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس 33 ارب ڈالر کی امداد کا ذکر کیا وہ درست نہیں، امداد ہمیں صرف 3 ارب ڈالر ملی ہے جبکہ 30 ارب ڈالر دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ پر خرچ کی گئی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ جیسے غیرسنجیدہ لوگ ملکوں کی تباہی کا سبب بنتے ہیں، ٹرمپ امریکہ کے لئے گورباجوف ثابت ہوں گے۔
رابطہ فورم کے چیئرمین اور سینئر تجزیہ کار نصرت مرزا نے کہا کہ امریکیوں کو معلوم ہے کہ پاکستان جواب میں ان کے ساتھ کیا کرسکتا ہے، افغانستان میں امریکہ کے 9 فوجی اڈے ہماری دسترس میں ہیں، اگر امریکہ نے جسارت کی تو اس کا بھرپور جواب افغانستان میں دیا جائے گا، افغانستان کی جنگ امریکہ ہار چکا ہے، جس کا ملبہ وہ پاکستان پر ڈال رہا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر ہماری طرف سے اچھا جواب دے دیا گیا ہے۔
راؤنڈ ٹیبل کانفرنس سے کموڈور (ر) سید عبیداللہ اور وفاقی اُردو یونیورسٹی کی پروفیسر سیما ناز صدیقی نے بھی اپنے خطاب میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر ہم نے بھرپور جواب دے دیا ہے، امریکی جنرلز بھی ٹرمپ کے اس انداز سے پریشان ہیں، پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے مناسب ردعمل دیا ہے، سی پیک کی وجہ سے ہم امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا ہدف بن رہے ہیں لیکن یہ گٹھ جوڑ ناکام ہوگا، چین، روس، ایران اور ترکی جس انداز سے ہمارے موقف کو تسلیم کررہے ہیں وہ ہمارے لئے حوصلہ افزا ہے۔