رپورٹ: سید زین العابدین
رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام یوم دفاع کی مناسبت سے ’’جنگ 1965ء ۔۔فتح مبین‘‘ کے عنوان سے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت کے مشرف ہال میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین اور معروف تجزیہ کار نصرت مرزا نے سیمینار کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اتنی دور کراچی سے آ کر سیمینار صرف اس لئے کیا جارہا ہے کہ یہاں کے طلبا اور نوجوانوں کو دشمن کی سازشوں سے آگاہ کیا جائے۔ گلگت بلتستان کے لوگ جتنی خوبصورت وادیوں میں رہتے ہیں اتنے ہی اندر سے بھی خوبصورت ہیں، سنگلاخ پہاڑوں میں رہنے والوں کے دل نرم و نازک ہیں، مہمان نوازی نے تو ہمیں اتنا متاثر کیا کہ بار بار آنے کا دل چاہے گا۔ اس سیمینار کو کامیاب کرانے میں جن لوگوں نے حصہ لیا میں ان کا شکرگزار ہوں، خاص طور پر وائس چانسلر ڈاکٹر خلیل الرحمان، پروفیسر ڈاکٹر منیر کاظمی اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان کا شکرگزار ہوں۔ اس کے علاوہ ہمارے سچ ٹی وی کے نمائندے شاہد علی اور ظفر عباس کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی محنت سے سیمینار کا انعقاد ممکن ہوا۔ اس کے علاوہ فوجی محاذ پر پاکستان چھایا رہا، فضا پر اُس کی حکمرانی رہی، ایم ایم عالم نے دشمن کے 7 جہاز ایک منٹ میں تباہ کئے، سمندر پر ہم چھائے رہے، بحری اڈہ تباہ کیا اور بھارتی طیارہ بردار جہاز وکرم اور فریگیٹ دہلی کو کھلے سمندر میں آنے نہیں دیا۔ اس کے علاوہ چونڈہ کی جنگ جو دُنیا کی جنگ عظیم دوئم کے بعد سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ کہلاتی ہے، اس میں بھی دشمن کو سخت نقصان پہنچایا، وہ اپنے کسی بھی عزم میں کامیاب نہ ہوسکا اور ہمیں فتح مبین حاصل ہوئی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 2 لیفٹیننٹ جنرل، 3 میجر جنرل، 22بریگیڈیئر شہید ہوچکے ہیں،156 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کیا ہے، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان
چونڈہ کے محاذ پر بھارت کے 600 ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا، کرنل ریٹائرڈ عبید اللہ ہنزائی
بھارت پراکسی وار لڑ رہا ہے، ہم بھرپور جواب دیں گے، 1965ء کی جنگ میں دشمن کے غرور کو خاک میں ملایا، نصرت مرزا
ہم نیوکلیئر شعبے کے ذریعے ہیلتھ، زراعت انڈسٹری میں بہت کام کررہے ہیں، ماہر اسٹرٹیجک امور احمد خان
حافظ حفیظ الرحمان وزیراعلیٰ گلگت بلتستان
1965ء کی جنگ میں فوج اور قوم ایک صف میں کھڑی تھی، ہماری بہادر افواج جہاد کے جذبے سے سرشار تھی جس کا نتیجہ دشمن کی شکست کی صورت میں سامنے آیا، ہمیں اپنی کامیابیوں کے ساتھ غلطیوں پر بھی غور کرنا چاہئے، اب دُنیا میں پراکسی وار لڑی جارہی ہے، بھارت کراچی کے بعد بلوچستان میں ہمارے خلاف سازشیں کرتا رہا، وفاقی حکومت نے بلوچستان کے معاملے کے لئے کمیٹی بنائی تھی، میں نے اس کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے بلوچستان میں 9 روز گزارے، وہاں صورتِ حال بہت خراب ہوچکی تھی لیکن سول و عسکری قیادت کی ذہانت اور ہم آہنگی کی وجہ سے معاملات بہتر ہوتے گئے۔ پاکستان جمہوری اصول کے تحت اسلام کے نام پر قائم کیا گیا، اس کی بقا بھی جمہوری نظام میں ہے، ہمیں عدل و انصاف کا نظام نافذ کرنا ہوگا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں، اس کے باوجود ہم سے ڈومور کا مطالبہ کیا جاتا ہے، دہشت گردوں سے جنگ میں 2 لیفٹیننٹ جنرل، 3 میجر جنرل، 22 بریگیڈیئرز سمیت 7000 فوجی جوان شہید ہوئے، 75 ہزار سے زائد عوام نے جان کی قربانی دی، 156 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ تمام اداروں کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے، ہماری حکومت سے قبل گلگت بلتستان میں 382 لوگ مذہب کے نام پر مارے گئے تھے، فرقہ واریت عروج پر تھی، ہم نے اس کا خاتمہ کیا، بدعنوانی کو بھی روکا، پاکستان سب کا ملک ہے، مذہب اور زبان کی بنیاد پر فساد پھیلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، جمہوری اقدار اور نظام پر کاربند رہیں گے تو ہر قسم کی مشکلات پر قابو پا لیں گے۔
پروفیسر ڈاکٹر خلیل احمد وائس چانسلر
1965ء کی جنگ میں دشمن عددی برتری اور طاقت کے نشے میں چور تھا لیکن ہماری بہادر افواج نے عوام کی حمایت اور اللہ کی مدد سے دشمن کے غرور کو خاک میں ملا دیا، ہمارے خطے کی خاصیت یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے 1947ء میں ڈوگرا راج کے خلاف ہتھیار اٹھا کر اس خطے کو آزاد کرایا اور پاکستان کے ساتھ شامل کیا، آئندہ بھی اپنے وطن کے دفاع کے لئے ہماری جانیں حاضر ہیں۔
کرنل ریٹائرڈ عبیداللہ ہنزائی
1965ء میں لاہور، سیالکوٹ، قصور اور ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر دشمن نے جارحیت کی لیکن ہماری بہادر افواج نے جذبہ شہادت سے سرشار ہو کر دشمن کو شکست سے دوچار کیا، گلگت بلتستان کے جوان ہر جنگ میں صفِ اول کے دستہ میں شامل رہے، 1971ء میں 102 شہید فوجیوں کا تعلق ہمارے خطے سے ہے۔ ہمارے کرنل شیر خان اور لالک جان شہید نے سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر حاصل کیا، بریگیڈیئر اسلم کو ستارۂ جرأت ملا، ہمارے 60 فوجیوں کو تمغہ جرأت دیا گیا، دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے 951 فوجی جوان شہید ہوئے جو اس بات کی علامت ہے کہ ہم اس وطن کے دفاع کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، ہمارے ملک میں ریمنڈ ڈیوس، کلبھوشن یادیو اور بلیک واٹر کارروائیاں کرتے رہے جو ہمارے حکمرانوں کی کمزوری کی وجہ سے ہوا لیکن اب اس ملک میں اغیار کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد رمضان ڈین کے آئی یو سوشل سائنسز
جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت فوج اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت عوام اپنے اتحاد سے کرتے ہیں، ہماری افواج نے 1965ء میں جرأت و شجاعت کی تاریخ رقم کی، ہمیں اسلاف کی قربانیوں کی قدر کرتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا ہوگا۔
پروفیسر افتخار علی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی
بھارت نے کبھی بھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا، تقسیم ہند کے بعد ہی سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا۔ بھارت نے 1965ء میں ہمارے خلاف کھلی جارحیت کی تھی، کشمیر پر بھارتی تسلط ہمیں کسی طور قبول نہیں تھا مگر بھارتی قیادت نے سازباز کرکے جنت نظیر وادی پر اپنا تسلط قائم کیا اور یہی کام گلگت بلتستان میں کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہاں کے عوام نے نہتے ہونے کے باوجود بھارتی سازش اور جارحیت کا مقابلہ کیا اور اپنے خطے کو آزاد کروا کر پاکستان میں شامل کیا، ہم نے ہر موقع پر پاکستان کی سلامتی کو مقدم رکھا، ہمارے جوانوں نے 1965ء میں جان کے نذرانے پیش کئے، 1971ء کی جنگ میں شہادتیں دیں اور اب دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں بھی ہماری قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دشمن ہمارے خلاف اب بھی برسرپیکار ہے، اب کسی اور انداز سے سازشیں کی جارہی ہیں، سی پیک کا آغاز گلگت بلتستان سے ہورہا ہے، دشمن نہیں چاہتا کہ ہم ترقی کریں اس لئے ہمارے خلاف سازشوں کا سلسلہ نئے انداز سے شروع کیا جارہا ہے، ہمیں اتحاد و یگانگت کے ذریعے اس سازش کو ناکام بنانا ہوگا، گلگت بلتستان کا خطہ قدرتی حسن سے مالامال ہونے کے ساتھ قدرتی ذخائر سے بھی بھرا ہوا ہے، اب ہمارا کام ہے کہ ہم اس سے استفادہ حاصل کریں۔
پروفیسر ڈاکٹر منیر کاظمی
1965ء میں ہماری اور بھارتی افواج کا اعدادی اعتبار سے کوئی مقابلہ نہیں تھا لیکن ہمارے جوانوں نے جذبہ شہادت سے سرشار ہو کر دشمن کا مقابلہ کیا اور اُسے واضح شکست دے کر فتح مبین جیسی کامیابی حاصل کی، اس سیمینار کا عنوان بھی فتح مبین ہے لیکن یہ ایک تشبیہ ہے اصل فتح مبین وہی ہے جسے قرآن نے کہا ہے، تاریخ میں ہمارے اسلاف کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے کم وسائل کے باوجود طاقتور دشمن کو شکست دی، مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال نے کہا تھا
دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر
حریمِ کبریا سے آشنا کر
جسے نانِ جویں بخشی ہے تو نے
اُسے بازوئے حیدرؓ بھی عطا کر
احمد خان ماہر اسٹرٹیجک امور
نیوکلیئر ڈٹرنٹ کی وجہ سے دشمن ہم سے خوفزدہ ہے، بھارت نے 1965ء میں جسارت کی جس کا خمیازہ بھگتا، پھر 1971ء میں ہم پر جنگ مسلط کی اور ساتھ ہی کچھ نادان دوستوں کو ساتھ ملا کر ہمارے ملک کو دولخت کردیا، لیکن جب سے ہم نے ایٹمی طاقت حاصل کی ہے بھارت کی جرأت نہ ہوسکی کہ ہمارے خلاف اقدام کرسکے، ہمارا ایٹمی پروگرام دفاعی ہے، 1956ء میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا قیام عمل میں آیا، آج ہم دنیا کے 23 مضبوط ممالک میں 18 ویں نمبر پر ہیں، ہم نے ایٹمی صلاحیت کو دفاع کے ساتھ سول شعبہ میں بھی استعمال کیا، توانائی کا بحران ہمارا سنگین مسئلہ بن گیا تھا، کینپ پاور پلانٹ گزشتہ 45 سال سے چل رہا ہے، پھر چشمہ 1 اور چشمہ 2 ، 3 کو مکمل کیا گیا، اس وقت نیوکلیئر ذرائع سے 1123 میگاواٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے، جو 2030ء تک 8000 میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ ہماری نیوکلیئر سیکورٹی سے آئی اےای اے کے ماہرین بھی بہت متاثر ہوئے، آئی اےای اے ہمارے تجربات کو ریفرنس کے طور پر پیش کرتا ہے، آسٹریلیا کے نیوکلیئر ماہرین پاکستان آئے تو ہمارے نیوکلیئر سسٹم کو دیکھ بہت خوش ہوئے، یورینیم کے ذخائر میں آسٹریلیا کا شمار بڑے ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ سب کامیابی قوم کی دعاؤں اور ہمارے سائنسدانوں کی مہارت کی وجہ سے ہے، ہم نیوکلیئر شعبے کے ذریعے ہیلتھ، زراعت انڈسٹری میں بہت کام کررہے ہیں، اس کے علاوہ سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کا پراجیکٹ کامیابی سے چل رہا ہے، پی اے سی پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
سیمینار سے قبل رابطہ فورم انٹرنیشنل کے ظفر امام ایڈووکیٹ نے تنظیم کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ رابطہ فورم انٹرنیشنل طلبا کی آگاہی کے لئے سیمینار کا انعقاد کراتا ہے، ہم مختلف موضوعات خصوصاً سیکورٹی ایشوز پر اپنے طلبا کو سیمینارز کے ذریعے ایجوکیٹ کرتے ہیں کیونکہ طلبا ہمارا مستقبل ہیں انہیں دنیا کے حالات سے باخبر رکھنا ہے، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں فتح مبین کے عنوان سے اس سیمینار کا مقصد یہ ہے کہ نوجوان دشمن کی عیاریوں اور مکاریوں سے آگاہ ہوسکیں۔ سیمینار کا آغاز خالد امین نے تلاوتِ کلام پاک سے کیا۔ افشاں خان اور ساتھی طالبات نے مل کر ملی نغمہ پیش کیا جبکہ مدیحہ نواز نے اپنی نظم کے ذریعے خوب داد سمیٹی۔ سیمینار میں طلبا نے مقررین سے سوالات بھی کئے۔ سیمینار کے اختتام پر رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا کی جانب سے مقررین میں سونیئر اور شیلڈز پیش کئے گئے۔