تئیس مارچ 1940ء تکمیل پاکستان کیلئے سنگ ِمیل کی حیثیت رکھتا ہے، خواجہ رضی حیدر، علیحدہ وطن حاصل تو کرلیا مگر لسانی تعصب کو ختم نہیں کرسکے، نصرت مرزا، موجودہ دور میں سیاست کو دولت بنانے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے، ڈاکٹر ثمر سلطانہ
قیام ِپاکستان کے بعد ہمارے اکابرین کا پاکستان فلاحی ریاست نہیں بن سکا اس کی ذمہ دار سیاسی اشرافیہ ہے، پروفیسر سیما ناز صدیقی، جدید تعلیم کے حصول کے بغیر ترقی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، سید سمیع اللہ
رپورٹ: سید زین العابدین
کراچی میں رابطہ فورم انٹرنیشنل کی جانب سے یومِ پاکستان کی مناسبت سے مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ مذاکرے سے معروف محقق اور قائداعظم اکیڈمی کے سربراہ خواجہ رضی حیدر، معروف کالم نگار اور رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا، جامعہ کراچی شعبہ سیاسیات کی چیئرپرسن ڈاکٹر ثمر سلطانہ، وفاقی اُردو یونیورسٹی شعبہ ارضیات کی چیئرپرسن پروفیسر سیما ناز صدیقی اور نوجوان اسکالر سید سمیع اللہ نے خطاب کیا۔
خواجہ رضی حیدر (معروف محقق/ سربراہ قائداعظم اکیڈمی)
قیام پاکستان کی تحریک کا یہ ایک سنگ میل تھا، قائداعظم نے کہا تھا کہ جس وقت پہلا ہندو یہاں مسلمان ہوا تھا اسی دن پاکستان بن گیا تھا،1857ء کے بعد مسلمان مغلوب ہوگئے تو ایسی صورت میں دوبارہ ان میں جذبہ حریت بیدار ہوا کیونکہ ہندو ہمارے زیرنگیں تھے، اب انگریزوں کے ساتھ مل کر ہم پر غلبہ پا چکے ہیں، سر سید سے 30 سال قبل ایک ہندو نے بنارس میں یونیورسٹی قائم کرلی تھی۔ 1867ء میں ہندوؤں کی ایما پر اُردو اور فارسی کو ختم کرکے انگریزی نافذ کی گئی تو بنارس کے کمشنر شکسپیئر سے سر سید نے کہا کہ یہ اختلاف علیحدہ وطن کی بنیاد بنے گا۔ تحریک پاکستان آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے چلی تھی، ابتدا میں ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو“ کا نعرہ تھا، کہیں ”پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ“ کا نعرہ نہیں تھا۔ اس نعرہ کو ہم نے سیاست کے لئے استعمال کیا، مولوی تمیز الدین نے اس پر کہا تھا کہ لاالہ الا اللہ تو ہر آسمانی مذہب میں ہے، لاالہ الا اللہ کے بعد عیسیٰ ؑروح اللہ کا نعرہ بھی ہوسکتا ہے۔ مسلم لیگ کے لیٹرہیڈ پر کہیں یہ نعرہ درج نہیں تھا، چوہدری رحمت علی جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دُنیا کے شاید واحد انسان ہیں جنہوں نے کسی ملک کا نام تجویز کیا، وہ کبھی آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوئے بلکہ وہ پاکستان نیشنل موومنٹ کا حصہ ہی رہے، وہ فروری 1944ء میں کراچی آ گئے تھے مگر مسلم لیگ کی رکنیت اختیار نہیں کی۔ ہمارے اکابرین کے سیاسی اختلافات بھی تھے جس کا اعتراف کرنا چاہئے، اسی طرح ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے علیحدہ وطن کے جو ممکنہ صوبے بتائے تھے اس میں بنگال شامل نہیں تھا، تاریخ کا یہ بھی المیہ ہے کہ جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو چوہدری خلیق الزماں جیسے اکابر لیڈر نے کہا کہ کیا ہوگیا ایک اسلامی ملک کا اضافہ ہوگیا، اس حوالے سے میں نے علامہ ابن حسن جارچوی، حسین امام سے بھی اس پر افسوس کا اظہار نہیں پایا، ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ ملک کو جوڑ کر نہیں رکھ سکے، برصغیر کے مسلمانوں نے جو خواب دیکھا تھا اس کی مکمل تعبیر نہیں ہوسکی، 23 مارچ 1940ء تک کا جو سفر ہے اس کی ابتدا علی گڑھ کی علمی تحریک بنی بلکہ قائداعظم نے تو ایک مرتبہ یہ کہا تھا کہ ہندوستان میں جس دن پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا اُسی دن پاکستان بننے کی بنیاد پڑ گئی تھی، 23 مارچ 1940ء کو علیحدہ وطن کی قرارداد پر گاندھی جی، رادھاکرشن، شنکر اچاریہ اور جواہر لعل نہرو نے بڑی مخالفت کی تو قائداعظم نے انہیں کہا کہ آپ اس کی روح کو نہیں سمجھ رہے، بنا سمجھے اس کی مخالفت نہ کریں، 1940ء سے 1946ء تک قائداعظم اسے یومِ پاکستان کے تحت مناتے رہے پھر 1947ء میں تو پاکستان ہی بن گیا۔
قرارداد جسے کہہ رہے ہیں اہل وطن
یہ روح تھی جو طلب کررہی تھی اپنا بدن
نصرت مرزا (کالم نگار/ چیئرمین رابطہ فورم انٹرنیشنل)
سر سید احمد خان کی علمی تحریک نے ہندوستان کے مسلمانوں میں نئی امنگ اور ولولہ پیدا کیا، اپنی 800 سالہ ہندوستان پر حکمرانی کے بعد انگریزوں کی سبقت نے مسلمانوں کو غلامی کی طرف دھکیل دیا تھا پھر 1857ء کی جنگ آزادی کی شکست نے مزید مایوس کردیا، ایسے وقت میں سرسید نے مسلمانوں کو یہ یاور کرایا کہ ان کے زوال کی ایک وجہ علمی انحطاط بھی ہے، مسلمان جدید عصری علوم سے بیگانہ رہیں گے تو ہندوؤں اور انگریزوں کی سازش کا ہدف بنتے رہیں گے، مسلمانوں کی نمائندگی بھی ایک مسئلہ تھی، عدالتوں میں مسلمان ججز نہیں تھے قائداعظم نے اس پر کام کیا، 1909ء میں اس حوالے سے قانون سازی ہوئی، مسلمان ججز کا ہائی کورٹ اور چیف کورٹس میں تعین ہوا، کلکتہ میں شرف الدین، الٰہ آباد میں کرامت حسین، پنجاب میں شاہ دین اس کے علاوہ نواب احمد ملک اور حسین بلگرامی انڈیا کونسل آف مشنز کے ممبر بنائے گئے مسلمانوں کی زبوں حالی انتہا پر تھی جس کے سدباب کیلئے علی گڑھ کی تحریک اٹھی جو پورے ہندوستان میں پھیل گئی، بتدریج یہ سفر 23 مارچ 1940ء تک آیا، جہاں لاہور کے منٹو پارک میں مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کے مطالبے نے سمت کا تعین کیا اور جب وطن کے حصول میں ہم کامیاب ہوگئے تو پھر ان اہداف اور اصولوں سے ہٹ گئے جو قائداعظم نے متعین کئے تھے، نتیجتاً 24 سال بعد ملک دولخت ہوا، اس کے بعد بھی پاکستان میں انصاف و قانوں کی حکمرانی نہیں ہوسکی، جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ دار، مقننہ پر غلبہ حاصل کرتے گئے، یہاں تک کہ کھلے الفاظ میں قائداعظم کی مخالفت کی جانے لگی، اس روش کا سندھ میں زیادہ اظہار کیا گیا، لسانیت کو فروغ دیا جانے لگا جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ قائد ملت لیاقت علی خان نے اگر PIDC کی بنیاد نہ رکھی ہوتی تو ملک میں صنعت کو فروغ نہ ملتا، اس ادارے نے پاکستان میں صنعت کے فروغ کے لئے کام کیا، اگر قائداعظم اور لیاقت علی خان کو زندگی کی مزید مہلت ملتی تو وہ پاکستان کو ایک جدید اور ترقی یافتہ ریاست میں تبدیل کردیتے۔
ڈاکٹر ثمر سلطانہ (چیئرپرسن شعبہ سیاسیات، جامعہ کراچی)
قائداعظم نے کہا تھا کہ جس دن برصغیر میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا اس دن ہی پاکستان بننے کی بنیاد پڑ گئی تھی، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور قائداعظم نے جس انداز سے برصغیر کے مسلمانوں کو ہندوؤں اور انگریزوں کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے ایک آزاد مملکت کی بنیاد رکھی اس کی مثال نہیں ملتی، مگر ہم نے لوٹ مار کی سیاست کرنے والے ٹولے کو مسلط کرکے اپنے ملک کو تنزلی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔
پروفیسر سیما ناز صدیقی(چیئرپرسن شعبہ ارضیات، وفاقی اُردو یونیورسٹی)
ماضی ہمارا شاندار رہا ہے لیکن جو کچھ آج ہورہا ہے اس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے، اس وقت ہمیں بڑی مشکلات کا سامنا تھا، اس وقت نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ، اس نعرے کی وجہ سے ہم یکجا ہوئے مگر بعد میں اسے ہم نے بھلا دیا، کیا ہم ایک اسلامی معاشرہ بنا سکے، ہم نے اسلام کے نعرے کو صرف سیاست کے لئے استعمال کیا، تحریک پاکستان کے وقت مسلمان بہت تعلیم یافتہ بھی نہ تھے، وسائل بھی نہیں تھے مگر انگریزوں سے ایک آزاد مملکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے مگر آج تعلیم وسائل ہونے کے بعد بھی ہم دُنیا میں پیچھے ہیں، کیونکہ ہم نظریہ پاکستان سے انحراف کرتے رہے، اب بھی توجہ نہ دی تو بہت نقصان اٹھائیں گے، مسئلہ یہ ہے کہ ہم دین اسلام سے واقف نہ ہوئے، لاالہ الا اللہ وہ کلمہ ہے جس کی جڑیں زمین اور شاخیں آسمان پر ہیں، اگر ہم امت مسلمہ میں اور عالمی برادری میں مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنی ذات اور معاشرے پر غور کرنا ہوگا، جدوجہد کا آغاز عشق حقیقی سے ہوا اور اب عشق مادی ہماری منزل ہے، جس میں دولت کے حصول کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، کسی قوم کی شناخت، تہذیب و تمدن، معاشرت، سیاست، مذہب، اخلاقیات اور رہنے سہنے کے طریقے سے ہوتی ہے۔ قائد نے کہا تھا کہ جس دن برصغیر میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا اسی دن پاکستان بننے کی ابتدا ہوگئی تھی لیکن ہم آج کے دور میں اسلامی اقدار سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان اسلام کا جسم ہے اور اسلام روح ہے تو پاکستان جسم۔ آج ذاتی مفادات کے حصول کا نام سیاست ہے، جس پر بدقسمتی سے تمام سیاسی جماعتیں عمل پیرا ہیں، ہمیں اپنے نظام کو تبدیل کرنا ہوگا، 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جس سے ہم صرف بینر اور جھنڈے لگانے کا کام لے رہے ہیں، ان نوجوانوں کو استعمال کرکے ترقی کے منازل طے کرسکتے ہیں، جمہوری پارلیمانی نظام کے بجائے کسی اور نظام کو لانا ہوگا، ووٹ کی عمر کو 15 سال تک کر دینا چاہئے، الیکشن لڑنے والے کی جائیداد کی مکمل تفصیل ہونا چاہئے اور قابلیت کا معیار طے کرنا ہوگا، اسلام موروثیت کے خلاف ہے، دین کا چوتھا معنی احتساب ہے، جس پر سختی سے کاربند ہونا چاہئے، محاسبہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر قانون پر عمل درآمد نہ ہو تو اُسے ہٹا دینا چاہئے۔
سید سمیع اللہ (نوجوان اسکالر)
23 مارچ 1940ء برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ٹرننگ پوائنٹ تھا جس میں انہوں نے اپنی منزل کا تعین کیا، ان ایام کو منانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اکابرین کو خراج تحسین پیش کریں اور ماضی کی کامیابیوں کو اگلی نسل تک منتقل کریں اور اس سے سبق لے کر حال اور مستقبل کو بہتر کریں۔ پہلا سبق یہ ہے کہ جو لوگ آبادی میں کم تھے اپنی کوششوں سے کامیاب ہوئے، حالانکہ اسباب وسائل نہیں تھے مگر نظریہ پر متفق تھے جس پر کامیابی ملی۔
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
دوسری بات اخلاقی حوالے سے یہ ہے کہ ہم قیام کے بعد مادی طور پر زیادہ ترقی یافتہ ہیں لیکن اخلاقی لحاظ سے پستی کا شکار ہیں، اس پر غور کرنا چاہئے۔ تیسری بات لیڈر شپ کا بنانا ہے، یہ قوم پر چھوڑ دینا چاہئے، اس کی تیاری کا کام ترک کرنا ہوگا ایک نااہل آدمی کو لیڈر بنا کر مسلط کر دینا دانشمندی نہیں ہے۔
نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
چوتھی بات یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم اپنی تنزلی اور ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے ہیں، یہ حقیقت بھی ہے لیکن اس سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کریں، اپنی بنیاد کو مضبوط کریں۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے