زاویۂ نگاہ رپورٹ
انیس سو پیسٹھ کی شکست بھارت بھولا نہیں پاکستان کے خلاف سازشیں کررہا ہے، جنرل (ر) معین الدین حیدر
دشمن نے ہمارے خلاف ہائی برڈ وار برپا کر رکھی ہے، وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں
انیس سو پیسٹھ کی جنگ میں پاک نیوی نے چار گنا بڑے دشمن کی بحریہ کو محاصرے میں لئے رکھا، کموڈور (ر) سید عبیداللہ
اب روایتی میدان جنگ کی لڑائی نہیں ہوتی سائبر وار کا زمانہ ہے، پروفیسر عدنان فاروقی
دشمن کے خلاف کامیابی حاصل کرنی ہے تو قوم کو متحد ہونا پڑے گا، نصرت مرزا
دشمن نے ہمارے قبائلی علاقوں میں اپنے ایجنٹس کے ذریعے جنگ مسلط کی، محمد ایاز
کشمیر کی آزادی پر بھارت سے جنگ شروع ہوئی جو اب جاری ہے، وحید اے آر خٹک
رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام ریجنٹ پلازہ میں ’’پاکستان کی سلامتی۔۔ سویلین و مسلح افواج کی قربانیاں‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر، وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں، کموڈور (ر) سید عبیداللہ، پروفیسر عدنان فاروقی، محمد ایاز اور وحید اے آر خٹک اور چیئرمین رابطہ فورم انٹرنیشنل نصرت نے 1965ء کی جنگ میں نمایاں خدمات انجام دینے والے پاک فوج کے جوانوں کو خراجِ تحسین پیش کیا، اس موقع پر پروفیسرز، وکلاء، صحافی اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے جبکہ کراچی یونیورسٹی سمیت دیگر جامعات کے طلبہ بھی شریک تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر
تقسیم کے بعد ہماری شہادتوں کا سفر شروع ہوا جس کی ایک منزل 1948ء کی جنگ میں آئی اور دوسری منزل 1965ء کی جنگ تھی پھر 1971ء کارگل اور اب دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں دے رہے ہیں۔ میں 1965ء میں کھیم کرن میں تھا ہم نے انہیں خوب جواب دیا، 12 ستمبر کو آرمڈ کمپنی کو حکم ملا کہ آپ چونڈہ کی طرف بڑھیں، بھارت نے سیالکوٹ پر بھی محاذ کھولا ہوا تھا بھارت نے چونڈا کے راستے پر ہمارے فوجی کانوائے کو نشانہ بنایا، ہمیں حکم ملا کہ پسرور میں ایئر بیس کو کلیئر رکھنا ہے 71 جنگ میں میجر کے رینک کے ساتھ سلیمانکی ہیڈ ورکس پر موجود تھا، کہانی ان جنگوں پر ختم نہیں ہوجاتی اس کا ایک سلسلہ کراچی کے حالات پر تھا۔ میں افغانستان میں تین مرتبہ ملا عمر سے ملا وہاں ریاض بسرا ٹریننگ کیمپ چلا رہا تھا اُسے ہم نے بند کروایا، ہماری قربانیاں جاری ہیں، ابھی گزشتہ روز ہمارے 9 فوجیوں نے قربانی پیش کی، بھارت ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کرتا، مجبوراً ہمیں اپنے دفاعی بجٹ پر زیادہ توجہ دینا پڑتی ہے، 1965ء کی شکست کا بدلہ بھارت نے 1971ء میں پاکستان کو توڑ کر لیا جب 1974ء میں ایٹمی دھماکہ دشمن کرے گا ہمارے خلاف جارحیت کرے گا تو ہمیں بھی اس کا بھرپور جواب دینا ہوگا، پاک فوج میں میریٹ کا اصول رائج ہے، نظم و ضبط بہترین ہے، پانی کے ذخیرے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ فوڈ کرائسز پیدا کرسکتا ہے، کالا باغ ڈیم کو اختلافی بنایا گیا ہے، ہیومن ریسورس کو تراشنہ ہوگا یہ بھی سیکورٹی کا ایک رخ ہے ٹینلٹ کو اجاگر کرنا ہوگا برین ڈرین مسئلہ نہیں ہے سیکورٹی کا ایک شعبہ گڈگورننس ہے حکومت اور عوام کے درمیان تعلق کو مضبوط بنانا ہوگا، اب لڑائی میدان جنگ سے ہمارے گھروں میں گھس آئی ہے، 1965ء میں 17 روزہ اور 1971ء میں 20 یا 21 روز لڑائی ہوئی لیکن اب ہائی برڈ وار کے ذریعے ہمیں کمزور کیا جارہا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں مانیٹر کیا جارہا ہے، واٹس ایپ کو بھی استعمال کیا جارہا ہے، 1965ء میں کھیم کرن میں نورجہاں کا نغمہ سنا۔
وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں
ہم نے یہ ملک بڑی جانی قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے، دشمن اب تک چین سے نہیں بیٹھا ہے، بھارت میں مسلمانوں کی آبادیوں کو ایک خاص منصوبے کے تحت ختم کیا، ہندو اور سکھوں نے جی ٹی روڈ جس کا ایک حصہ بھارت کی طرف بھی ہے لاہور سے انبالہ، پانی پت اور جالندھر جاتے ہوئے آپ کو صرف مجدد الف ثانی کے مقبرے کے پاس ایک مسجد ہے 1965ء میں ہمارے 3700 فوجی شہید ہوئے۔ ان جانبازوں کی قربانیوں کی وجہ سے ہم کامیاب ہوئے، 1971ء میں ہمارے 9 ہزار فوجی شہید ہوئے۔ 2009ء میں دہشت گردی کی جنگ میں 12 ہزار فوجی شہید ہوئے، 17000 لوگ فرقہ وارانہ واردات میں مارے گئے، 30 سال میں 3000 فرقہ وارانہ سانحات ہوئے، ہمیں 1965ء کی جنگ کی طرح اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ہمیں کشمیریوں کے ساتھ مل کر بھارت کے خلاف لڑنا ہوگا۔
کموڈور (ر) سید عبید اللہ
کوئی بھی ملک بیرونی جارحیت کا مقابلہ نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کے عوام اپنی افواج کی پشت پر نہ کھڑے ہوں، 1965ء میں فوج اور عوام ایک ساتھ کھڑے تھے، عوام کے سارے طبقے، ہمارے گلوکار، موسیقار، شاعر، ادیب، پروڈیوسرز اپنے فن کے ذریعے اپنی افواج کے حوصلے بڑھا رہے تھے جس کے باعث ہم نے خود سے چار گنا بڑے دشمن کو شکست دی، آج کا دن شہیدوں، غازیوں کو سلام پیش کرنے کا دن ہے، بھارتی آرمی چیف بپن راوت کہتے ہیں کہ دوسری سرجیکل اسٹرائیک کریں گے پہلی کا ثبوت ہے نہیں دوسرے کے لئے دعویٰ ہے۔ 1965ء میں ہماری نیوی نے انوکھا کارنامہ انجام دیا کیونکہ دشمن چار گناہ زیادہ وسائل رکھتا تھا، ہماری نیوی نے بھارتی بحری اڈے پر دوارکا پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا، کراچی کے ساحل سے 200 ناٹیکل میل دور جا کر حملہ کرنا تھا، اس کا مقصد بھارتی فضائیہ کی توجہ کو باٹنا تھا، ریڈار سسٹم کو تباہ کرنا تھا، پاک نیوی کے پاس ایئرکرافٹ کیریئر نہیں تھا منصوبہ تھا کہ کراچی سے 500 میل دور بمبئی جا کر اپنی سب میرین کھڑی کردی تاکہ انہیں میدان میں بلایا جائے لیکن دشمن کی ہمت نہیں ہوئی ہمارے سات جہاز وقت سے پہلے دشمن کی طرف روانہ ہوئے (بھارتی فوج کے حوصلے کو پست کرنا تھا) کموڈور ایس ایم انور صاحب لیڈ کررہے تھے یہاں پہلی شب پر ایس ایم انور خود تھے رات گیارہ بجکر 55 منٹ پر بھارت کے دوارکا سے پانچ میل دور پہنچ گئے، ایک گولے کا وزن 110 پاؤنڈ تھا، ہمارے بحریہ کے سپاہیوں نے 35 ہزار کلو بارود دشمن پر برسایا، اس حملے کی وجہ سے بھارتی نیوی باہر نہیں نکل سکی، ہماری نیوی عددی اعتبار سے اب بھی دشمن سے کم ہے، 1962ء میں ہمارے پاس سب میرین تھی، 1975ء جنگی جہاز آئے اس طرح تھری ڈائی مشین ہوگئی، 25 نومبر 1990ء میری ٹائم آئے تو ہم چار ڈائی مشین ہوگئے 140 ہمارا مستقبل سمندر سے وابستہ ہے۔ انرجی سیکورٹی کے بغیر فوڈ نہیں آسکتا، سیکورٹی کے لئے صرف فوج نہیں بلکہ ہر شعبے کو تسلیم کرنا ہوگا۔
پروفیسر عدنان فاروقی
انیس سو پیسٹھ کی جنگ میں ہماری افواج کے ساتھ عوام کا بھی اہم کردار رہا، دشمن نے جب ہم پر حملہ کیا تو اس کے جنرلز کا دعویٰ تھا کہ ہم مختصر وقت میں پاکستان پر قبضہ کرلیں گے، دنیا کے ماہر جنرلز کا کہنا ہے کہ جنگیں صرف فوجیں نہیں لڑتیں بلکہ ان کے ساتھ عوام بھی لڑتی ہیں تب جا کر کامیابی حاصل ہوتی ہے، اس کا مشاہدہ 1965ء کی جنگ میں کیا جا چکا ہے، اسرائیلی وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ 2 فیصد تعلیم، 4 فیصد صحت اور 80 فیصد دفاعی بجٹ کیوں رکھا گیا۔تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے مسلمانوں کے رسول اکرمؐ سے سیکھا کہ قوم کا دفاع بہتر انداز سے کرنے کی تیاری کرو اگر وسائل کم ہیں تو اس مناسبت سے تیاری رکھنی چاہئے، رسالت مآبؐ کے دنیا سے جاتے وقت ان کے گھر میں چند کھجوریں تھیں جبکہ 9 تلواریں تھیں اور ان پر قرض بھی تھا، اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ یہ نظریہ ہم نے بھی اپنایا کہ اپنے دفاع کی مکمل تیاری رکھنی چاہئے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا پڑوسی ملک جارحیت پسند ہے، اب جنگ کے نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں، اب ٹینک اور طیاروں کے ذریعے جنگی میدان نہیں سجایا جاتا بلکہ سائبر وار کا دور ہے نظریاتی طور پر بھی جنگ لڑی جارہی ہے ہائی برڈ وار میں ثقافتی، نظریاتی حملے کئے جاتے ہیں جس سے نمٹنے کے لئے ہمارے جوانوں کو آگے آنا ہوگا، جس فوج کی آئیڈیالوجی موجود ہو وہ دشمن سے کبھی شکست نہیں کھاتی، ہمیں ٹیکنالوجی کا استعمال بہت بہتر انداز سے کرنا ہوگا، سوشل میڈیا، فیس بک کے ذریعے دشمن ہم پر حملہ آور ہے جیسے ہم نے ناکام بنانا ہے مڈل ایسٹ میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح عراق پر نیوکلیئر ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر حملہ کیا گیا وہاں 5 لاکھ بچے مارے گئے، پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے جس کے خلاف سائبر فیلڈ میں ہمیں کام کرنا ہوگا، ایک ماہر میدانِ جنگ کا کہنا ہے کہ براہ رست طریقے اور دوسری انڈیریکٹ اسٹریٹجی ہوتی ہے جس میں قوم کا ہر شعبہ متحرک ہوتا ہے۔ہمیں دشمن کے خلاف متحد ہونا پڑے گا کیونکہ دشمن آج بھی ہمارے خلاف محاذ بنا رہا ہے۔
نصرت مرزا
انیس سو پیسٹھ میں بھارت کے غرور کو ہم نے خاک میں ملایا، بھارت نے چونڈہ کے محاذ پر ٹینکس کی سب سے بڑی جارحیت کی جسے ہمارے بہادر سپاہیوں نے تباہ و برباد کردیا، ماضی میں ہم نے اپنے روایتی حریف کو اس کی حد میں رکھا اور اب تو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ہماری افواج نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں، ہزاروں فوجی جوانوں اور 60 ہزار سے زائد عوام نے جان کی قربانی دی۔ہمیں جنگ کا خاصا تجربہ حاصل ہوگیا ہے اگر دشمن نے جارحیت کی تو اُسے بھرپور جواب دیا جائے گا۔
محمد ایاز
پاکستان کی افواج نے بھارتی سپاہیوں کی پیش قدمی روکی، آزادی کے فوراً بعد دشمن نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا جسے ہمارے قبائلیوں نے کشمیر کے حریت پسندوں کے ساتھ مل کر چھڑانے کی کوشش کی اور ایک تہائی کشمیر کو آزاد کروا لیا، اسی طرح 1965ء میں دشمن نے ہماری جانب پیش قدمی کی لیکن ہماری افواج نے عوام کے ساتھ مل کر دشمن کو روکا اور شکست سے دوچار کیا، دشمن اب ہمارے مقابلے میں براہ راست نہیں آرہا بلکہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے منافرت پھیلا کر ہمیں کمزور کرنا چاہتا ہے، ہمارے قبائلی علاقوں میں کچھ ذرائع ابلاغ ملک کے خلاف کام کررہے ہیں، یہ دشمن کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، ہمیں ان کے خلاف بھرپور کارروائی کرنا ہوگی۔ 1965ء کی جنگ میں بچے، بوڑھے، جوان سب مل کر اپنی افواج کی پشت پر موجود تھے جس کے باعث دشمن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ولید اے آر خٹک
دشمن نے 1965ء میں طاقت کے نشے میں چور ہو کر ہم پر جارحیت کی لیکن ہماری افواج کے سپاہیوں نے عوام کے ساتھ مل کر دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا، موجود صورتِ حال میں دشمن ہمارے سامنے نہیں ہے ہمیں پراکسی وار کا سامنا ہے، دشمن اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمارے مختلف طبقات کو نشانہ بناتا تھا جسے ہم نے ناکام بنایا۔