Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام سیمینار ”پاک فضائیہ کی دشمن کے خلاف سُبک رفتار جوابی کارروائی“

ستائیس فروری 2019ء کو ہمارے شاہینوں نے ایک مرتبہ پھر دشمن کو دھول چٹائی، نصرت مرزا
بھارعت کا پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے، پروفیسر ڈاکٹر تنویر خالد
ہندوتوا حجاب کے خلاف مہم بھارت معاشرے کی پستی کی دلیل ہے، وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں
ہماری فضائیہ نے اہداف مقرر کرکے دشمن کو اس کی اوقات یاد دلائی، ایئر کموڈور (ر) جمال حسین
بھارت کے جھوٹے پروپیگنڈے کی رد کیلئے پاکستان کو منظم میڈیا مہم چلانا ہوگی، سابق سفیر سید حسن حبیب
جنگ مسائل کا حل نہیں مگر بھارت کے غرور کو خاک میں ملانے کیلئے تیار ہیں، سابق نیشنل چیمپئن بیڈمنٹن احمد فیضان
اپنی صفوں میں اتحاد رکھ کر ہی دشمن کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، نوجوان اسکالر سمیع اللہ
رپورٹ: سید زین العابدین
کراچی میں رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام 27 فروری 2019ء کو پاک فضائیہ کی تاریخی کامیابی پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین اور سینئر تجزیہ کار نصرت مرزا، پروفیسر ڈاکٹر تنویر خالد، وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں، ایئرکموڈور (ر) جمال حسین، سابق سفیر سید حسن حبیب، سابق نیشنل چیمئن بیڈمنٹن احمد فیضان اور نوجوان اسکالر سمیع اللہ نے ”پاک فضائیہ کی دشمن کے خلاف سُبک رفتار جوابی کارروائی“ کے موضوع پر اظہارِ خیال کیا۔
نصرت مرزا (چیئرمین رابطہ فورم انٹرنیشنل)
ستائیس فروری 2019ء بھارت کے لئے ایک شرمناک دن تھا، پاکستان کے خلاف آپریشن کی حسرت لئے بھارتی طیارے آئے اور پھر دُنیا نے دیکھا کہ منہ کی کھائی، ایک پائلٹ کو ہم نے گرفتار کیا اور دو جہاز گرائے، اس پر بھارتی وزیراعظم نے احمقانہ جواز پیش کیا کہ گہرے بادل تھے اس لئے ہمارے پائلٹ پاکستانی جہاز کو نہیں دیکھ سکے، ان بادلوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے پاکستان کے علاقے میں آپریشن کیا۔ اب اس احمق آدمی کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ رڈار بادلوں میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ 26 فروری کو ہمارے طیاروں نے ایک مدرسہ کو نشانہ بنایا جس میں دہشت گردوں کو تربیت دی جارہی تھی، گہرے بادلوں کا ہم نے فائدہ اٹھایا لیکن 27 فروری کو جب بھارتی طیارے آئے تو دو ہماری ایئرفورس نے گرا دیئے جبکہ ایک ہیلی کاپٹر انہوں نے خود غلطی سے گرا دیا، بھارتیوں نے یہ بھی پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان کا ایک ایف-16 بھی گرایا ہے لیکن پھر دُنیا نے دیکھا کہ بھارت کا یہ جھوٹ کھل گیا بلکہ ان کا ایک پائلٹ ہم نے گرفتار کرلیا، ہمارے جے ایف-17 تھنڈر طیاروں کی صلاحیت دشمن نے دیکھ لی، چونکہ بھارتی 800 سال تک مسلمانوں کے غلام رہے ہیں، ایک بزدل قوم ہے جن کے جنرلز کا کہنا ہے کہ پاکستان سے الجھ کر ہم نے لڑنا سیکھا ہے، بھارت کے عوام کی ایک بدقسمتی یہ ہے کہ وہ میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے میں آجاتے ہیں، جھوٹ کو سچ مان لیتے ہیں، بہرحال 27 فروری 2019ء ہماری فضائیہ کے لئے ایک قابل فخر دن ہے، ابھی 1971ء کے مشرقی پاکستان کے المیہ کا بدلہ رہتا ہے جو ہم ضرور لیں گے بس ہمیں دشمن کی سازشوں کے خلاف ہوشیار رہنا ہوگا۔
ڈاکٹر پروفیسر تنویر خالد
جب کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کی تفصیلات کچھ دنوں بعد سامنے آتی ہیں، ہندوستان کبھی بھی پاکستان کو برداشت نہیں کرے گا بلکہ وہ سارک ممالک پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتا ہے، طاقت کے استعمال سے وہ چھوٹے ملکوں کو دبا کر رکھنا چاہتا ہے جو پاکستان کے لئے ناقابل برداشت ہے، خطے میں چین کی بڑھتی عسکری و معاشی طاقت بھی بھارت کے لئے خطرہ ہے جس کی وہ پیش بندی کررہا ہے، چونکہ پاکستان اور چین اتحادی ہین جو بھارت کے لئے ناقابل برداشت ہے، بھارت کی خارجہ پالیسی کا مرکز پاکستان اور چین ہے، وہ ہمارے خلاف دہشت گردوں کی حمایت کرنے کا پروپیگنڈا کرتا ہے، عالمی برادری کو پاکستان کے خلاف اکساتا ہے، ہمیں اس کے جواب میں ایک منظم خارجہ پالیسی مہم کی ضرورت ہے، بھارتی حکمران کھل کر کہتے ہیں کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کو ایک کمزور ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے اس کے ساتھ وہ ہمارے اندر خلفشار پیدا کرکے ہماری اساس کو کمزور کرنا چاہتا ہے، صوبائی تنازعات اور دیگر معاملات پر ہمارے خلاف سازشیں کرتا ہے، بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے، کلبھوشن یادیو کے ذریعے پاکستان میں خودکش حملوں کا سلسلہ چلاتا رہا ہے، بھارت خود دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے اور عالمی برادری کے سامنے پاکستان کو دہشت گردوں کے گڑھ کی صورت میں پیش کرتا ہے، دُنیا کو دہشت گردی کی تعریف ازسرنو کرنا ہوگی، کچھ ریاستیں کسی ملک کے خلاف بیانات کو بھی دہشت گردی سمجھتی ہیں۔ کسی ملک کے اندرونی خلفشار کو بڑھاوا دینے کی کوشش بھی دہشت گردی ہے، کسی ریاست کے مفادات کے خلاف کام کرنا بھی دہشت گردی ہے، کسی ملک میں متحارب گروہ کی حمایت کرنا بھی دہشت گردی ہے، عالمی سطح پر دہشت گردی کی متفقہ تشریح نہیں کی جاسکی ہے اس لئے ہر ریاست اپنے اپنے انداز سے دہشت گردی کی تعریف کرتی ہے، اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق ہر ریاست کو اپنے دفاع کے لئے اقدامات کرنے کا حق حاسل ہے، جس میں کسی خطرے سے پہلے اس کی پیش بندی کرلی جائے، یعنی خدشات و خطرات کے خلاف حکمت عملی ترتیب دینا ہر ملک کا حق ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی خدشے کے پیش نظر کسی ملک پر حملہ کردیا جائے، پلوامہ حملہ میں بھارت نے یہی کچھ کیا، اس حملے میں بڑے جانی نقصان سے عالمی ساکھ متاثر ہوئی، سیکورٹی نظام پر بھارت کے اندر سے انگلیاں اٹھنے لگیں، اس خفت کو مٹانے ک ے لئے بالاکوٹ واقعہ کیا گیا لیکن یہ الٹا بھارتیوں کے گلے پڑ گیا، ان کے میڈیا نے اپنی کارروائی کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا، لیکن دُنیا نے دیکھ لیا کہ نقصان بھارتیوں کو ہی ہوا، ابھینندن کی گرفتاری نے جھوٹے پروپیگنڈے کے غبارے کی ہوا نکال دی۔ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ دُنیا کے سامنے ہے، ظلم کا شکار شہری بدلہ لینے پر آمادہ ہیں، اس لئے بھارت پریشان ہے۔
وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربتِ غازیانہ
ہمارے شاہینوں نے 27 فروری 2019ء کو دشمن پر اپنی برتری ایک مرتبہ پھر ثابت کردی۔ اپریل، مئی 2019ء میں ہندوستان میں عام انتخابات تھے جسے جتنے کے لئے ہندوتوا اور آر ایس ایس کے رہنماؤں نے یہ حکمت عملی بنائی کہ بھارت میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کرنی ہے، پاکستان مخالف جذبہ ابھار کر سیاسی فائدہ اٹھانا ہے اور الیکشن جیتنا ہے، پلوامہ واقعہ نے بھارت کے سیکورٹی پلان کی ناکامی عیاں کردی تھی، یہ ان کا فالس فلیگ آپریشن تھا جس کا بہانہ بنا کر بالاکوٹ پر حملہ کیا گیا۔ جس پر ہمارے شاہینوں نے بقول اقبال ؎
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
بالاکوٹ حملے سے قبل بھارت نے اپنی تینوں فورسز کو ہائی الرٹ کر رکھا تھا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ 4 مارچ کو ان کی ایک سب میرین ہمارے ایکسکلوسیو اکنامک زون میں پسنی و گوادر کے درمیان داخل ہوئی جسے پاک نیوی کے جانبازوں نے ڈٹیکٹ کرلیا، 14 نومبر 2016ء کو ان کی سب میرین ہم پہلی مرتبہ ٹکٹیکٹ کرچکے تھے اس کے بعد ہمیں کلبھوشن یادیو کا تحفہ ملا تھا، پھر 4 مارچ 2019ء کو ان کی سب میرین ڈٹیکٹ ہوئی تو ابھینندن کا تحفہ چھوڑ گئے، تیسری مرتبہ 16 اکتوبر 2021ء کو ایک اور سب میرین ڈٹیکٹ ہوئی اس کے بعد ہم بھارتی تحفہ کا انتظار کررہے ہیں۔ اس خطے میں بھارت جو کچھ کر رہا ہے اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے، بھارت میں ہندوتوا عروج پر ہے، گاؤ ماتا کے احترام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف مہم اب حجاب کے خلاف نفرت انگیزی پھر 5 اگست 2019ء کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا ختم کرنا، آرٹیکل 370 کا خاتمہ پھر دسمبر 2019ء میں سٹیزن شپ ایکٹ تبدیل کیا جس کے تحت یہ قانون بنایا کہ اگر مسلمان اپنے باپ دادا کے رہائشی دستاویز نہیں دیں گے تو وہ ہندوستان کا شہری نہیں ہے، اب پھر الیکشن سے قبل جو یوپی اور دوسری ریاستوں میں ہوں گے تو اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لئے حجاب کے خلاف مہم چلائی ہوئی ہے، بھارت میں حجاب کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے ان کے ملک میں حجاب تو محمود غزنوی کے زمانے سے ہے بلکہ ہندو عورتیں بھی پردہ کیا کرتی تھیں، اگرچہ ہم دشمن سے حربی سامان کی تعداد میں مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن جذبہ اور مورال میں دشمن ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا، آخر میں اقبال کے شعر پر اختتام کروں گا
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

ایئرکموڈور (ر) جمال حسین
بالاکوٹ آپریشن سے قبل کے واقعات کو دیکھنا ہوگا، پلوامہ میں دہشت گردی میں بھارتی فوج کا بڑا جانی نقصان ہوا تھا جس پر انہوں نے کچھ دنوں بعد یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان میں ہم نے سرجیکل اسٹرائیک کی ہے، حالانکہ اس میں بھی بھارتیوں کو منہ کی کھانا پڑی، ان کے کئی فوجی اور کمانڈرز مارے گئے تھے، اس مار کے بعد انہوں نے اپنی ایئرفورس کو استعمال کیا کہ فوری حملہ کرکے اپنے نزدیکی اہداف کو نشانہ بنا کر واپس چلے جائیں گے، یہ موقع دشمن کے پاس بھی ہے اور ہمارے پاس بھی ہے، بھارتیوں کی منافقت کے خلاف ہماری تیاری پوری تھی، دسمبر میں ہمارے ایئرچیف نے ایک میٹنگ میں سینئرز سے پوچھا کہ انڈین ایئرفورس کیا کرسکتی ہے، کوئی کارروائی ہوئی تو جواب میں کیا کرنا چاہئے، اس پر ہم سینئرز نے اپنے چیف کو مختلف تجاویز دے دی تھیں، 26 فروری کے حوالے سے قبل ہمارے وزیراعظم نے دشمن کو متنبہ کردیا تھا کہ ہم ایسا جواب دیں گے جو ان کے لئے سرپرائز ہوگا، ایئرفورس نے اس پر حکمت عملی بنا لی تھی، جب بھارتیوں کے تقریباً 8 سے 10 جنگی طیارے آئے اس کے پیچھے اے ڈبلیو سی طیاروں کی سپورٹ تھی، وہ ہماری ایئر پکچر بھی دیکھ رہے تھے، وہ پاکستان کے ایئرڈیفنس کے طیاروں کی پوزیشن سے بھی آگاہ تھے، ان کی حکمت عملی اچھی تھی، ہم دشمن کو کبھی کمتر نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس کا مذاق اڑاتے ہیں، یہ ہماری تربیت کا حصہ ہے، دشمن نے حساب لگایا کہ کامرہ سے اگر F-16 فلائی کرتا ہے تو اُسے کتنی دیر لگے گی کیونکہ کوئی بھی ملک 24 گھنٹے اپنے جنگی طیاروں کو پرواز کی حالت میں نہیں رکھ سکتا، دشمن نے سوچا کہ ہم 10 سے 15 کلومیٹر گھس کر اپنے اہداف کو نشانہ بنا کر نکل جائیں گے، پاکستانی فضائیہ کے پرواز کرنے سے قبل ہمارے طیارے واپس آجائیں گے، انہوں نے ایک مدرسے کو نشانہ پر لیا جو ان کے خیال میں دہشت گردی کا ٹریننگ سینٹر تھا، بھارتی پائلٹ نے اُسے ہدف بنا کر اپنے اسمارٹ بم کا استعمال کیا، پروفیشنل اعتبار سے اس بم کو درست پر سیٹ کرکے اونچائی سے گرایا جائے تو ہدف کے 10 میٹر کے اطراف میں گرے گا، یہ بھارتیوں نے اسرائیل سے لیا تھا اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں مگر بم 100 سے 200 میٹر پہلے گر گیا، وہ مدرسہ نشانہ نہیں بن سکا، ہمیں بھی دشمن کی اس خطا پر حیرت ہوئی، بعد میں معلوم ہوا کہ ٹارگٹ کو صحیح طور پر فکسڈ نہیں کیا گیا تھا، غالباً اس حملے میں ایک کوا مرا تھا، پاکستانی فضائیہ کی دشمن پر نظر تھی، ان کے معراج 2000، Su-30 ہماری نظر میں تھے، ہمارے اے ڈبلیو سی طیاروں نے پتہ کرلیا کہ ان کے دو جہاز ہیں یا چار ہیں، ان کا فیول کتنا ہے، ہمیں یہ معلوم تھا کہ ان کے پاس اتنا فیول نہیں ہے کہ زیادہ عرصے تک ہمیں انگیج کرسکیں، صبح 9 بجے ہم نے حملہ کیا، ایک فلوٹیلا تھا جس پر تقریباً ایک درجن طیارے تھے جن میں معراجز اس کے پیچھےجے ایف-17 تھنڈر اور پھر ایف-16 طیارے اور اس کے پیچھے اے ڈبلیو سی طیارے تھے، ساتھ میں کمیونیکیشن چیمبرز تھے، ہمارا ایک کومباٹ کمانڈر اسکول(سی سی ایس) ہے جہاں ہم یہ ساری ایکسرسائز کرتے ہیں، چھ ماہ سے ہماری تیاری تھی، یہ فلوٹیلا چھ ماہ قبل بنا لیا گیا تھا، اسے ہم نے پیپر پر نہیں رکھا تھا بلکہ عملی ایکسرسائز کی تھی، ہماری حکومت کی ہدایت تھی کہ جتنی شدت کا حملہ ہوگا اسی طرح کا جواب دیا جائے گا، بھارتیوں کے حملے سے ہمارا جانی نقصان نہیں ہوا تھا اسی لئے ہمیں بھی جانی نقصان نہیں کرنا تھا لیکن یہ بتانا تھا کہ دشمن کا بہت کچھ نقصان کرسکتے ہیں، اہداف بالکل واضح تھے، بریگیڈ ہیڈ کوارٹر تھا، فیول ٹینکس تھے اور یہ سب کچھ ایل او سی کے قریب تھے، ہمیں ایل او سی کو کراس کئے بغیر اپنے راکٹ کو کروز میزائل کی طرح استعمال کرنا تھا، کروز میزائل تو آٹومیٹک ہوتا ہے لیکن اس ہتھیار کو پائلٹ گائیڈ کرتا ہے، آخری موومنٹ تک پائلٹ جہاں لے جانا چاہے لے جاسکتا ہے، ان بریگیڈ کوآرٹر سے 10 سیکنڈ قبل ہمارے پائلٹ نے ٹارگٹ کو چینج کردیا، اگر اس بریگیڈ کو نشانہ بنا دیا جاتا تو وہاں ان کا آرمی چیف بھی نشانہ بنتا، انہیں دھماکے کی آواز آئی، اگر ایسا ہوجاتا تو پھر معاملہ بہت سنگین ہوجاتا، بقیہ اہداف بھی آخری لمحات میں ہم نے بدل دیئے، ہمارا مقصد دشمن کو سبق سکھانا تھا، ویسے ہم نے دشمن کے دو جہاز مگ 21 اور Su-30 مار گرائے، ایک ہمارے علاقے میں گرا دوسرا ان کے علاقے میں گرا اور تیسر طیارہ انہوں نے پاکستانی سمجھ کر خود مار گرایا، بہرحال 27 فروری کو ہم نے دشمن پر اپنی فضائی برتری ایک مرتبہ پھر ثابت کردی تھی۔
سید حسن حبیب (سابق سفیر)
بھارت کی ناکامی یہ رہی ہے کہ اس نے 26 فروری 2019ء کو جو دعوے کئے وہ عالمی سطح پر ثابت نہیں کرسکا، یہ اس کی بڑی ناکامی تھی، لوزیانہ بیس نے کہا کہ ہمارے ریڈار میں بالاکوٹ میں کسی بلڈنگ کو نشانہ بنانے کے شواہد نہیں ملے، یہ ڈکٹیکشن کا ایک عالمی کمرشل ادارہ ہے، بھارت نے ایف-16 گرانے کا بھی کہا تھا لیکن یہ بھی غلط نکلا تھا، ایک امریکی تجزیہ کار جو اکثر پاکستان کے خلاف بولتی ہیں انہوں نے انڈیا میں ایک سیمینار کے دوران کہا کہ اس آپریشن میں بھارت نے پاکستان کا ایف 16 نہیں گرایا، بھارت نے اس آپریشن میں اپنے معراج طیاروں کو بھی استعمال کیا، کیوں بھارتیوں کے بم نشانہ پر نہیں لگے، یہ دُنیا ڈیجٹیلائز ہے غلط دعویٰ کھل کر سامنے آ جاتا ہے، اگرچہ ہم عسکری اور معاشی وسائل میں دشمن سے کم ہیں ہم صرف خدا کی مدد اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا کر دشمن پر غلبہ پا سکتے ہیں۔ بھارت عالمی برادری کا ڈارلنگ ہے، 1962ء میں چین سے جنگ کرتا ہے تو امریکی ان کے جہاز اڑانے آ گئے، 1965ء میں پاکستان سے جنگ ہوتی ہے تو پابندیاں ہم پر عائد کی گئیں، حالانکہ ہم امریکی اتحادی ہین، یہی رویہ 1971ء کی جنگ اور 1998ء میں کارگل کی لڑائی میں بھی ریا، 1974ء میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا اور ہم نے امریکا یورپ سے شکوہ کیا تو ان کا رویہ نامناسب تھا اور بھارت کی پشت پناہی کرتے رہے، ہمیں اس حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کو بہت دانشمندانہ طریقے سے ایک سمت دینا ہوگا، ہمارا ایٹمی پروگرام دفاع کے لئے ہے اسی وجہ سے دشمن میں جسارت کرنے کا حوصلہ نہیں ہے، بھارت کی کمرشل اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف مہم، عیسائیوں کی عبادت گاہوں پر حملے انہیں جلائے جانے کے واقعات کے بعد بھی عالمی برادری خاموش ہے، ہمیں دشمن کے خلاف ہر سطح پر منظم ہونا ہوگا، ہم اپنے بیانیے کو صحیح طور پر پیش نہیں کر پا رہے، ہماری حکومت نے بھارتی پائلٹ کو رہا کیا تو پارلیمنٹ میں بحث ہوئی، اس کی منظوری لی گئی، اس سے پہلے ایٹمی دھماکے کے وقت بھی ہماری پارلیمنٹ نے 15 دن کی بحث کے بعد اس کی منظوری دی تھی جبکہ بھارت نے جب ایٹمی دھماکے کئے تھے تو ان کے صدر بھی اس سے لاعلم رہے تھے، ہمیں دشمن کے خلاف ایک مربوط پالیسی بنانا ہوگی، بھارتی میڈیا کو دیکھیں کہ اپنی شکست کو بھی جیت بنا کر پیش کرتا ہے۔
احمد فیضان (سابق نیشنل چیمپئن بیڈ منٹن) 26 فروری 2019ء کو دشمن نے جسارت کی لیکن اُسے معلوم نہیں تھا کہ ہمارے جوان الرٹ ہیں، بھارتی طیاروں نے لاہور اور سیالکوٹ سے آنے کی کوشش کی، ہمارے رڈار نے ڈٹیکٹ کرلیا مجبوراً دشمن بھاگنے پر مجبور ہوگیا، پھر بہالپور اور اوکاڑہ کی سرحد پر بھی کوشش کی گئی جس پر ہمارے شاہین دشمن کو جواب دینے کے لئے پہنچ گئے۔ دشمن وہاں سے بھی فرار ہوگیا پھر آزاد کشمیر اور مظفر آباد کی طرف سے دشمن نے جسارت کی، ہمارے شاہین وہاں بھی بروقت پہنچ گئے، دشمن نے گھبرا کر اپنا پے لوڈ گرایا اور فرار ہوگیا جس سے درختوں کو نقصان پہنچا اور ایک کوا مارا گیا، بھارتی میڈیا نے اپنی ایئرفورس کی کامیابی کے ڈھول پیٹنا شروع کردیئے کہ پاکستان میں 350 دہشت گردوں کو مار دیا گیا لیکن بین الاقوامی میڈیا نے بھارتی جھوٹ کا سارا پول کھول دیا، جواب میں ہمارے شاہینوں نے چھ اہداف کو ٹارگٹ کیا، پھر آخری لمحات میں اُن اہداف کے نزدیک اپنے بم گرا کر دشمن کو بتا دیا کہ ان کا کتنا بڑا نقصان ہوسکتا تھا، یہاں تک کہ بھارتی آرمی چیف بھی نشانہ بن سکتے تھے، اس ساری کارروائی کی ہم نے ویڈیو بھی شیئر کردی تاکہ دُنیا اس حقیقت کو دیکھ لے اور دشمن کو اپنی اوقات کا احساس ہوجائے۔
سمیع اللہ (نوجوان اسکالر)
ستائیس فروری 2019ء پاک فضائیہ کی وجہ سے ہمارے لئے ایک قابل فخر دن ہے جسے بھرپور انداز سے منانا چاہئے لیکن اس سے ہمیں کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے، تین حوالے سے یہ دن ہمارے لئے ایک نعمت سے کم نہیں ہے، سب سے پہلے یہ سمجھنے کی بات ہے کہ بھارت یا ہمارا کوئی اور دشمن ہماری کمزوری کی تاک میں رہتا ہے کہ ہم کب کمزور پڑیں اور وہ کاری ضرب لگائے، بطور مسلمان ہمارے لئے قرآن میں رہنما اصول موجود ہے: ترجمہ: ”اور ان کیلئے جتنی قوت ہوسکے تیار رکھو اور جتنے گھوڑے باندھ سکو تاکہ اس تیاری کے ذریعے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو اور جو اُن کے علاوہ ہیں انہیں ڈراؤ، تم انہیں نہیں جانتے اور اللہ انہیں جانتا ہے اور تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی“۔
دوسرا کام یہ ہے کہ خود کو متحد رکھنا ہے اس قسم کے واقعات میں ہماری قوم یکسو اور متحد ہوجاتی ہے، دشمن ہائی برڈ وار کررہا ہے کہ مذہب، مسلک اور قوم کے نام پر انہیں تقسیم کرو، نعرے دو تاکہ یہ تتربتر ہوجائیں، ہم متحد رہیں گے اور بطور پاکستانی اپنی صفوں کو منظم رکھیں گے تو ملکی بقا و سلامتی کا ضامن بن سکیں گے۔ تیسرا کام یہ ہے کہ بھارت کے فاشٹ چہرے کو دُنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے، 1965ء کی جنگ میں بھارتی جنرل اروڑا لاہور میں ناشتہ کرنا چاہتے تھے لیکن یہ سب ایک خواب تھا، 14 فروری 2019ء کو پلوامہ میں بھارتی فوجی دہشت گردی کا نشانہ بنے تو الزام پاکستان پر لگایا، 26 فروری 2019ء کو 20 بھارتی طیارے ہم پر حملہ کرنے کے لئے آتے ہیں لیکن ہماری تیاری دیکھ کر دم دبا کر بھاگ نکلتے ہیں اور ہمیں ایک کوے کی لاش ملتی ہے پھر 27 فروری 2019ء کو ہم نے بھارتیوں کو جو سرپرائز دیا ہے وہ کافی عرصہ تک ان کے ذہن پر حاوی رہے گا، اس کے اثرات رہیں گے۔ ہمیں بھارتیوں کے فاشت چہرے کو بے نقاب کرنا ہوگا تکہ دُنیا ان کا مکروہ اور منافقانہ چہرہ دیکھ لے کیونکہ عالمی برادری جنوبی ایشیا کے حوالے سے بھارت کو چیمپئن سمجھ رہی ہے یہ غلط فہمی ہمیں میڈیا کی مدد سے دور کرنا ہوگی۔

مطلقہ خبریں