دہشت گردی ہم سب کے لئے ایک مشترکہ خطرہ ہے، اِس سے نمٹنے کے لئے پوری شدت سے تمام وسائل بروئے کار لا کر کام کرنے کی ضرورت ہے، اِسے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے
نسیم شاہد
پاکستان میں سیاست کا کھیل ختم ہو تو ہمارے ادارے کسی دوسری طرف دیکھیں۔ سیاست ایک ایسا جنجال پورہ ہے جو سال کے 12 مہینے جاری رہتا ہے۔ اِس کی وجہ سے ملک کے باقی سارے کام ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اِس وقت بھی ملک ایک انتشار کی زد میں ہے مگر دوسری طرف خوفناک چیلنج سر اُبھار رہے ہیں جن میں سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کا ہے۔ بنوں واقعے کے بعد اسلام آباد کے سیکٹر آئی ٹین میں خودکش بمبار کا پہنچ جانا حد درجہ تشویشناک بات ہے۔ یہ تو اسلام آباد پولیس کے جوانوں کی بروقت کارروائی ہے جس کے باعث خودکش بمبار کسی بارونق علاقے میں اپنے ہدف تک نہیں پہنچ سکا اور اُس نے گاڑی ہی میں خود کو اڑا لیا تاہم اِس واقعے سے یہ تلخ حقیقت عیاں ہوگئی ہے کہ دہشت گرد پھر منظم ہوتے نظر آرہے ہیں اور انہوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ ملک کے دارالحکومت تک اُن کی رسائی اِس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ اپنا نیٹ ورک پھر پھیلا رہے ہیں جس کے خلاف ماضی میں مؤثر کارروائی کر کے اُن کی کمر توڑ دی گئی تھی۔ ابھی کچھ ہی روز پہلے وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے جوہر ٹاؤن لاہور کے دھماکے کا ایک ملزم پکڑنے کے حوالے سے پریس کانفرنس کی تھی اور بتایا تھا کہ اس میں ”را“ کا ہاتھ تھا تاہم بنوں میں دہشت گردوں نے جو قبضہ کیا اور اب اسلام آباد میں جو یہ واقعہ ہوا ہے اُسے صرف اِسی تناظر میں دیکھنا زیادتی ہوگی، حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں بدلتے ہوئے حالات اور وہاں منظم ہوتے ہوئے دہشت گرد گروپ ہمارے لئے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
جب بنوں کا واقعہ پیش آیا تو کہا گیا کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے سی ٹی ڈی کے ادارے کو بہتر بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا، اُس کے اہلکاروں اور افسروں کی تربیت کے لئے فنڈز فراہم نہیں کئے جس کے باعث دہشت گردوں کو سی ٹی ڈی سینٹر میں کارروائی کا موقع مل گیا۔ میرے نزدیک ایسے واقعات کے بعد الزاماتی کھیل نہیں کھیلا جانا چاہئے۔ دہشت گردی ہم سب کے لئے ایک مشترکہ خطرہ ہے، اِس سے نمٹنے کے لئے پوری شدت سے تمام وسائل بروئے کار لا کر کام کرنے کی ضرورت ہے، اِسے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ عمران خان لاہور میں ایک جلسے سے ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اُنہوں نے اپنے دور میں دہشت گردی ختم کردی تھی، اب اِس حکومت کی نااہلی کے باعث پھر سر اُبھار رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اُن کے دور میں افغانستان کی سرحد پر آہنی باڑ لگائی گئی جس کے اچھے نتائج سامنے آئے جبکہ اِس وقت وہ باڑ اُکھاڑی جا رہی ہے۔ ایسی باتیں کر کے وہ سیاسی ماحول کو تو گرم کرسکتے ہیں تاہم اُن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آج بھی وہی ہے جو ماضی میں تھی اور جس میں خطے کے ممالک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو ہمارے ریاستی اداروں کی پالیسی سے ہے اور اِس پالیسی میں دہشت گردی کو زیرو ٹالرنس پر رکھا گیا ہے۔ سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ بھی فوج نے کیا تھا اور اُسے قومی سلامتی کونسل کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں بھی ہر دور کی یہی پالیسی رہی ہے کہ اگر وہ آئین پاکستان کی رٹ کو تسلیم کرتے ہیں تو اُن سے مذاکرات ہوسکتے ہیں، اِس کے علاوہ اُن سے کسی قسم کا رابطہ نہیں ہوسکتا۔ عمران خان ہر معاملے میں ایسا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے موجودہ حکومتی سیٹ اَپ ملکی مفادات کو داؤ پر لگا چکا ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قومی سلامتی کے معاملے میں صرف حکومت ہی نہیں تمام ریاستی ادارے ایک پیج پر ہیں۔ کیا ملک میں فوج سے بالا بالا کوئی ایسی پالیسی بنائی جا سکتی ہے جو قومی سلامتی کے خلاف ہو؟ ایسا ناممکن ہے اور اِس معاملے میں سیاست کو ایک طرف رکھ کر سوچنا ہی قوم کی ایک بڑی خدمت ہوگی۔
بہرحال حکومت کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لئے اپنی ترجیحات کا تعین کرے۔ اِس ضمن میں قومی سلامتی کمیٹی کا فوری اجلاس بلایا جائے جس میں چاروں صوبوں کی شرکت بھی یقینی بنائی جائے۔ اِس اجلاس میں بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں خارجہ پالیسی کے نئے خدوخال وضع کئے جائیں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جو مسلسل غیرملکی دورے پر رہتے ہیں، اُنہیں پاکستان واپس آ کر اپنے عالمی رابطوں کے بارے میں بریفنگ دینی چاہئے۔ امریکا نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ وہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے پاکستان کی بھرپور مدد کرے گا مگر امریکا پر بھی زیادہ تکیہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ افغانستان سے ایک ناکام جارح کے طور پر لوٹا ہے، ہمیں اپنے خطے کے حالات کا ادراک یہاں بیٹھ کر ہونا چاہئے۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں سرد مہری کیوں آ رہی ہے؟ آخر بلاول بھٹو زرداری افغانستان کا دورہ کیوں نہیں کر رہے؟ اگر افغانستان میں بھارت کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے تو اُسے کم کرنے کے لئے ہم کیا کررہے ہیں؟ افغان سرزمین اگر پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہو رہی ہے تو اُسے سفارتی سطح پر اُٹھایا جانا چاہئے۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی باڑ اُکھاڑنے کے جو واقعات پیش آ رہے ہیں اُس پر صرف طاقت کے استعمال سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ افغان حکومت سے اِس ضمن میں بات کرنی چاہئے اور ٹھوس ضمانتیں حاصل کی جانی چاہئیں۔ افغانستان میں قائم طالبان حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات اتنے بھی خراب نہیں کہ ہم اِن واقعات پر اُن سے بات نہ کرسکیں۔ افغانستان میں پاکستانی ناظم الامور پر حملہ ہوا تو ہم نے اُس پر بھرپور احتجاج کیا اور افغان حکومت نے آئندہ حفاظت کی ذمہ داری قبول کی۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ملک پہلے اپنے گھر کو مضبوط کرتا ہے پھر کسی دوسرے کو الزام دیتا ہے۔ یہ جو پے در پے واقعات پیش آ رہے ہیں اُن کا حل صرف یہی نہیں کہ ”را“ یا افغان حکومت پر ذمہ داری ڈال دی جائے، اُس سے پہلے ہمیں اپنے اندر کے سیاسی انتشار کو ختم کرنا ہوگا۔ حالیہ دِنوں میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ دہشت گردی پر بھی وفاقی وزراء اور دو صوبوں خیبرپختونخوا، پنجاب کے درمیان اختلافات دیکھنے میں آئے۔ جب رانا ثناء اللہ نے جوہر ٹاؤن لاہور دھماکے پر پریس کانفرنس کر کے اُس کے ذمہ داروں کو پکڑنے کا کریڈٹ لیا تو اگلے روز پنجاب حکومت کی طرف سے پریس کانفرنس کر کے اُن کے دعوے کو جھٹلایا گیا اور کہا گیا کہ اُسے سی ٹی ڈی پنجاب نے حل کیا ہے، اِسی طرح بنوں کے واقعہ پر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف یہ کہتے رہے کہ عمران خان نے خیبرپختونخوا کی حکومت کو تباہ کر دیا ہے اور دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے بیانات سے واضح طور پر سیاسی مخاصمت کی بُو آتی ہے اور قومی مفاد متاثر ہوتا ہے۔ سیاست کی گرم بازاری اپنی جگہ، اِس سے پاکستان کو مفر نہیں مگر خدارا قومی سلامتی کے معاملات کو تو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے بالاتر رکھا جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بنوں آپریشن میں زخمی ہونے والے فوجی جوانوں کی عیادت کے لئے سی ایم ایچ پنڈی کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں، اب اِس عفریت کو دوبارہ نہیں اُبھرنے دیا جائے گا۔ اِسی قسم کے خیالات کا اظہار چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے بھی نوجوانوں کی تیمارداری کے دوران کیا۔ اگر اعلیٰ سطح پر یہ عزم موجود ہے تو پھر اِس میں کسی قسم کی تقسیم نظر نہیں آنی چاہئے۔ اِس سے پہلے کہ دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیوں کے لئے منظم ہوں، اُنہیں نشانِ عبرت بنانے کے لئے ایک قومی ایجنڈے کے تحت تمام سیاسی قوتیں اور ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز ہر قسم کی تفریق سے بالاتر ہو کر اپنا کردار ادا کریں۔ کم از کم اِس ایجنڈے کو ہر قسم کی سیاسی تقسیم سے بچانے کی اشد ضرورت ہے۔